خبر درخبر ۔(544)
شمس تبریز قاسمی
آل انڈیا مسلمانوں پرسنل لاءبورڈ مسلمانوں کی متحدہ تنظیم ہے ،مختلف مسالک ،فرقہ اور متعدد جماعتوں کی وہاں نمائندگی ہے ،مسالک اور ملی تنظیموں کے درمیان شدید اختلافات کے باوجود بورڈ کا باقی رہنا کسی معجزہ سے کم نہیں ہے ،بورڈ میں کسی حد تک آزادی اور جمہوریت بھی ہے ،بورڈ کے کئی ایسے ممبران ہیں جو بہت سارے معاملے میں بورڈ کے خلاف ہیں لیکن ایک دائرے میں رہتے ہیں اور حساس ایشوز پر وہ بورڈ کے ساتھ ہیں ۔بابری مسجد اور طلاق ثلاثہ جیسے مسائل انتہائی حساس ہیں، جمعیت اہل حدیث طلاق کے معاملے میں اپنے مسلک کی مخالفت کے باوجود اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے ہمیشہ بورڈ کا ساتھ دیتی ہے ، شیعہ علماءبھی شدیداختلافات کے باوجود بورڈ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک اہم اور سینئر رکن مذکورہ دونوں اہم مسئلے پر بورڈ کے مخالف ہیں،تعجب خیر امر یہ ہے کہ بورڈ کی میٹنگ میں اپنی یہ رائے رکھنے کے بجائے میڈیا کا سہارا لیتے ہیں جس سے اصلاح کے بجائے اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔
اختلاف رائے ،یا متحدہ موقف سے ہٹ کر سوچنا غلط نہیں ہے لیکن اگر کوئی رائے نہیں مانی جاتی ہے ،تجویز منظور نہیں کی جاتی ہے تو انسان کو اپنی ضدپر قائم رہنے کے بجائے اکثریت کا ساتھ دینا چاہیئے ،مولانا سلمان ندوی نے بابری مسجد کے مسئلے پر اپنی ایک علاحدہ رائے قائم کی ،بورڈ کی میٹنگ میں تذکرہ کئے بغیر میڈیا کے ذریعہ انہوں نے اپنی رائے کی تشہیر کی ،دو خفیہ ملاقات کے بعد شری شری روی شنکر سے انہوں نے ایک اعلانیہ ملاقات کی او رایک ایسا فارمولاپیش کیا جسے سنتے ہی سارے مسلمان انگشت بدانداں ہوگئے،نناوے فیصد سے زائد مسلمانوں نے ان کے فارمولاکو مسترد کردیا، بورڈ کے تمام ممبران نے اس کی رائے مخالفت کرتے ہوئے ان سے وضاحت طلب کی ۔یہ موقع تھاکہ مولانا اپنی بات سے رجو ع کرتے ہوئے بورڈ کے موقف کی حمایت کرتے ،خود شری شری روی شنکر کے یہاں انہوں نے کہاتھا کہ ہم بورڈ سے بھی بات کریں ،جمیعت کو بھی قائل کریں گے لیکن جب وہ قائل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے تو دانشمندی اور ملی غیر ت کا تقاضایہی تھاکہ اپنی رائے پر قائم رہنے کے بجائے بورڈ کا ساتھ دیتے لیکن انہوں نے مزید اختلاف شروع کردیا ۔ 10 فروری کو انڈیاٹی وی کو انٹرویود یکر انہوں نے بورڈ پر ہی سنگین الزام عائد کردیا ،جس بورڈ میں وہ 30 سالوں سے ممبر ہیں اسی پر انہوں نے چند اشخاص کی اجارہ داری ،شدت پسندی سمیت کئی طرح کا الزام لگادیا ،بورڈ کو تحلیل کرکے شریعت اپلیکیشن ایکٹ قائم کرنے کا مطالبہ کیا اور مولاسجاد نعمانی کے ایک بیان کو میڈیا کے سامنے پیش کرکے انہیں پھنسانے کا بھی پزور مطالبہ کیا ۔مولانا کے اس رویے کے بعد ہر طرف ہنگامہ برپا ہوگیا ،جو لوگ بابری مسجد کے مسئلے پر مولانا کے بیان کی تاویل کرنے میں لگے تھے وہ بھی برگشتہ ہوگئے ، عوام میں بھی یہ پیغام گیا کہ علماءکے درمیان بھی باہمی چپقلش اور عداوت چلتی ہے ، وہ انتقام لینے کیلئے کسی بھی حدت جاسکتے ہیں ،بورڈ کے کئی ذمہ داران نے مولانا کو بہت سمجھانے کی بھی کوشش کی لیکن مولانا اپنی بات پر قائم رہے ،اس دوران مولانا کے بیانات کا جائزہ لینے کیلئے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپوٹ بھی سامنے آگئی اور بالآخر مولانا کو برطرف کردیاگیا ۔کمیٹی میں مولانا رابع حسنی ندوی ، مولانا ارشد مدنی ،مولانا محمد ولی رحمانی اور مولانا خالد سیف رحمانی شریک تھے ،اول الذکر دونوں شخصیات کے بارے میں خود مولانا کئی مرتبہ کہ چکے ہیں وہ ہمدرد ہیں،ان سے کوئی شکوہ نہیں ہے ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے بھی مولانا کے تعلقات اچھے رہے ہیں ایسے میں ان حضرات کا بھی مولانا کو ہٹانے کی تجویز پیش کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے اور مولانا سلمان ندوی کو تنہائی میں اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہیئے ۔
لوگوں کا کہناہے کہ مولانا کو اپنا موقف رکھنے کا موقع دیاگیا ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سمیت کئی شخصیات نے مسلسل سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن وہ بورڈ کے خلاف مسلسل زہر افشانی کرتے رہے ،بات صرف بابری مسجد کی نہیں تھی بلکہ بورڈ کے خلاف بغاوت کی تھی ایسے میں بورڈ کیلئے یہ قدم اٹھانا ضروری ہوگیا تھا اگر بورڈ کی طرف یہ فیصلہ نہیں کیا جاتاتو میڈیا کی ہیڈلائن یہی رہتی کہ بورڈ کے ایک اہم ممبر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کو دینا چاہتے ہیں،انہیں امن کا پیکر بناکر بورڈ کی تمام شخصیات کو مطعون کیا جاتا اور مسلسل یہ معاملہ زیر بحث رہتا۔ا س لئے بورڈ نے جو فیصلہ لیاہے وہ مناسب ہے اور اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے یہ قدم اٹھانا ضروری تھا ۔لیکن اس کی شکل یہ بھی ہوسکتی تھی کہ بیک وقت کاروائی کرنے کے بجائے رفتہ رفتہ اسے عملی جامہ پہنا یا جاتا۔حیدر آباد کے حالیہ اجلاس عام پر کچھ اور لکھنا ابھی باقی ہے جس کا تذکرہ اگلی قسط میں ہم کریں گے ۔
stqasmi@gmail.com