وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک اور عظیم کامیابی؟

خبر درخبر ۔(549)
شمس تبریز قاسمی
وزیر اعظم نریندر مودی سے شکایت اپنی جگہ لیکن ان کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ ناکامیوں کو خوبیوں میں تبدیل کرنے کاہنر جانتے ہیں،ہندوستان سمیت دنیا بھر میں اپنی پالیسی کے ذریعہ دوسروں کو شکایت کا موقع نہیں دیتے ہیں،یہ واحد وزیر اعظم ہیں جو اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک سے بھی بہتر تعلقات رکھتے ہیں،اس کا ایک نمونہ گذشتہ کل دہلی میں بھی دیکھنے کو ملا ۔اردن کے فرماں رواشاہ عبداللہ ثانی کی آمد پردہلی کے وگیان بھون میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اسلامی ثقافت کے موضوع پر ایک تقریب منعقد کی ،اس تقریب کے آرگنائزمیں انڈیا اسلامک کلچر سینٹر کا نام شامل تھا جبکہ عملی طور پر حکومت ہند نے خوداس کا پوراخاکہ تیار کیاتھا اور عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری جمعیت علماءہند کو سونپی گئی تھی۔ جمعیة علماءہند نے پرنس غازی بن محمد کی کتاب’ ’ پرنس اے تھنکنگ پرسنز گائیڈ ٹو اسلام “ کا اردو ترجمہ کیا ہے جس کا بھی یہاں اجراءکیا گیا ۔اسٹیج کا منظر آپ تصویر کی زبانی دیکھ چکے ہوں گے جہاں سبھی مکاتب فکر کے رہنماءنظر آرہے ہیں،جمعیت اہل حدیث کے رہنما مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی ،بریلوی مکتبہ فکر کے مولانا یاسین اختر مصباحی ، دیوبند ی مکتبہ فکر کی ترجمانی کرنے والے مولانا محمود مدنی ،شیعہ مسلک کے نمائندہ عالم دین مولانا کلب صادق، اجمیر درگاہ کے سجاد ہ نشیں مولانا زین العابدین ،بوہرہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شہزاد بھائی صاحب حزب الدین،کیرالاسے تعلق رکھنے والے شیخ ابوبکرمستعار ،مفتی مکرم سمیت تمام مکاتب فکر کے رہنما وہاں موجود تھے ۔سامعین میں بھی زیادہ ترتعداد علماءکی تھی اور یہ سبھی مسلک سے تعلق رکھنے والے تھے ۔وہاں موجود ایک صاحب کے الفاظ میں ”ایسا لگ رہاتھا کہ منظم انداز میں تمام مسلک سے لوگوں کو منتخب کرکے بلایاگیاہے اور ایک خاص پیغام دینا مقصد ہے “۔
اس کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے تقریبا پندرہ منٹ تک تقریرکی ،مذہب اسلام کی خوب ستائش کی ،صوفی اور بزرگان دین کا بھی مکمل اہتمام کے ساتھ ذکر کیا، یہ بھی کہاکہ اس بات پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہندوستان بدھ مت ،جین مت ،سکھ اسلام سمیت کئی مذاہب کی تہذیبوں کا سنگم ہے۔ ہندوستان میں مکمل طور پر مساوات ،آزادی ،انصاف اور بھائی چارہ کا ماحول ہے۔ تقریر سن کر ایسا لگتاہے کہ مودی جی اسلام سے بیحد متاثر ہیں ،مسلمانوں کے بہت ہمدرد ہیں،ہندوستان میں کسی طرح کی بھید بھاﺅ والی پالیسی وہ نہیں کرتے ہیں،مسلمانوں کو وہ مکمل حق دے رہے ہیں ،یہاں کے سبھی مسلمان بی جے پی حکومت سے بہت خوش ہیں ۔اس کانفرنس میں ہندوستان میں اسلام کی آمد اور ثقافت پر ایک ڈوکومینٹری فلم بھی دیکھائی گئی جس کے زیادہ تر مناظر کا تعلق نریندر مودی کی برقع پوش مسلم خواتین سے ملاقات ،عرب ممالک کی مساجد کی زیارت اوراس طرح کی چیزوں پر ہے ۔
”ہندوستان میں اسلامی ثقافت “کے عنوان پر منعقدہ اس تقریب میں وزیر اعظم نریند رمودی اور اردن کے وزیر اعظم شاہ عبد اللہ کے علاوہ مولانا محمود مدنی ،پروفیسر اختر الواسع نے بھی تقریرکی ،سبھی نے ہندوستانی ہم آہنگی کی تعریف کی، جمہوریت او ر روداری کا تذکرہ کیا ،اسلام کو امن وآشتی کا مذہب بتایا ۔کسی نے ہندوستان کی موجودہ تصویر کی وہاں منظر کشی نہیں کی ،اس تقریب میں مسلمانوں کے کسی بھی رہنما ءنے وزیر اعظم کومخاطب کرکے یہ کہنے کی جرات نہیں کی آپ کی حکومت میں مسلمان خود کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھنے لگے ہیں،خوف اور تشدد کا ماحول ہے ،گﺅ رکشااو رلوجہاد کے نام پر مسلمانوںقتل مسلسل جاری ہے۔ آپ کی تقریر اور عمل میں زمین وآسمان کا فرق ہیں،جس اسلامی ثقافت پر آپ یہاں فخر کا اظہار کررہے ہیں اسی ثقافت کے الزام میں آپ کے بھکت مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں ۔آپ کی حکومت مسلمانوں کو شریعت پر عمل کرنے سے روک رہی ہے ،مسلمانوں سے ان کا اسلامی تشخص چھین لینا چاہتی ہے ۔اس پروگرام میں مولانا یاسین اختر مصباحی بھی موجود تھے جنہوں نے دوسال قبل اسی وگیان بھون میں ہونے والی ورلڈ صوفی فورم کی جم کر مخالفت کی تھی ،وزیر اعظم نریندر مودی کی آمد کو لیکر شدید تنقید کی تھی ،دیگر مکاتب فکر کے علماءوعوام نے بھی آل انڈیا علماءومشائخ بورڈ پر امت میں انتشار برپارکرنے ،حکومت کے اشارے پرکام کرنے اور اس جیسے کئی سارے الزامات عائد کئے تھے ۔
تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ اس پروگرام کے ذریعہ عرب ممالک میں وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے ہندوستان کے مسلمان ان سے بہت خوش ہیں،یہاں کسی طرح کا کوئی بھید بھاﺅ نہیں ہے ،مودی سرکار ”سب کا ساتھ سب کا وکاس “ کے اصول پرعمل پیر اہے ۔مسلمانوں بالخصوص سبھی مکاتب فکر کے نمایاں علماءکی موجودگی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں حکومت ہند سبھی شہریوں کیلئے یکساں کام کررہی ہے ،مسلمانوں کو کسی طرح کی کوئی شکایت نہیں ہے ،بعض میڈیا کے ذریعہ جو خبر عر ب عوام تک پہونچتی ہے وہ ہمارے خلاف اپوزیشن کا پیروپیگنڈہ اورسیاسی سازش کا حصہ ہے ۔بہر حال یہ اچھی بات ہے وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کردیاہے، علماءکرام کی شکایت اب انہوں نے دور کردی ہے ،سینئر صحافی دوست ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی کے الفاظ میں جن علماءکو اب تک ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوسکا ہے اب انہیں بھی ہوجائے گا لیکن یاد رکھیئے وہ اپنی خواہش کے مطابق ملاقات کریں گے ، آپ کے مسائل حل کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے یہ سب کریں گے ،کیوں کہ انہیں انٹر نیشنل فورم پر یہ بتانا ہے کہ مسلمان یا کسی اور کمیونٹی کے ساتھ کوئی بھید بھاﺅ نہیں ہوتاہے۔ سبھی ان کی سرکار میں خوش ہیں۔مسلمانوں کے درمیان اسلام کی خوبیاں بیان کرکے بھی دراصل وہ اپنی اصلیت چھپانا چاہتے ہیں،مسلمانوں سے انصاف کا اصل تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بھکتوں کے درمیان اس طرح کی تقریر کریں،شدت پسند ہندو عناصر کو اسلام کی یہ خوبیاں بتائیں ،آر ایس ایس کو سمجھائیں ۔
خلاصہ کلام یہ جو کمیونٹی ان کی شدید مخالفت کررہی تھی ،آج ماضی کو فراموش وہ محبت واحترام کے ساتھ ان سے مل رہی ہے اوراب چار سال مکمل ہونے پر چنندہ علماءسے بھی ملاقات ہوگئی ہے۔2014 میں سب سے پہلے مولانا عمیر الیاسی نے ایک وفد کے ساتھ ملاقات کی پہل کی تھی ،اس کے بعد آل انڈیا علماءومشائخ بورڈ نے انہیں اپنے یہاں بلایا پھر2017 میں جمعیة علماءہند کے وفد نے ملاقات کی ۔ اب سبھی مسلک کے علماءورہنماءاور اعلی قیادت سے مشترکہ ملاقات ہوگئی ہے ۔ بلاشبہ وزیر اعظم نریندر مودی کی یہ ایک بڑی،تاریخی اور عظیم کامیابی ہے۔تقریبا ایک گھنٹہ پر مشتمل اس پروگرام کی مکمل ویڈیو پی ایم او کے آفیشیل یوٹیوب چینل پر بھی اپلوڈ کی گئی ہے ۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے