مسجدیں اور حنبلی نقطۂ نظر (۲)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(ج) فقہاء حنابلہ نے مسجد کی منتقلی کے جائز ہونے پر جو دلیل پیش کی ہے، وہ یہ ہے کہ جب کوفہ میں بیت المال میں نقب زنی ہوئی تو حضرت عمرؓ نے مسجد کو کھجور مارکیٹ میں منتقل کرنے اور اور مسجد کے سمت قبلہ میں بیت المال بنانے کا حکم فرمایا: (المغنی:۶؍۲۵۰) لیکن یہ روایت محدثین کے نزدیک سند کے اعتبار سے ضعیف ہے؛ اس لئے یہ نقطۂ نظر دلیل کے اعتبار سے بھی کمزور ہے، (مسند احمد:۴؍۲۷۸،حدیث نمبر:۱۸۴۰۹؍۳۷۵، حدیث نمبر: ۱۹۲۹۹، ابن ماجہ، حدیث نمبر:۳۹۵۰ )
(د) پھر یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواد اعظم کی اتباع کا حکم دیا ہے، علیکم بالسواد الاعظم: اور سواد اعظم سے مراد مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے؛ چنانچہ ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں: والمراد ما علیہ أکثر المسلمین، (مرقاۃ المفاتیح:۱؍۲۴۹) اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسجد کے سلسلے میں سواد اعظم کا نقطۂ نظر یہی ہے کہ مسجد کی جگہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہوتی ہے ؛ چنانچہ حنفیہ نے صراحت کی ہے کہ مسجد کی تبدیلی کسی حال میں جائز نہیں، علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں:
إن الفتویٰ علی أن المسجد لا یعود میراثا ولا یجوز نقلہ ونقل مالہ إلیٰ مسجد اٰخر ۔ (الدرالمختارمع الرد:۶؍۵۴۸–۵۴۹)
فتویٰ اس بات پر ہے کہ مسجد میراث نہیں بنے گی، نہ اس کی منتقلی جائز ہوگی، اور نہ اس کا مال دوسری مسجد میں لگانا درست ہوگا۔
یہی نقطۂ نظر امام مالکؒ کا ہے؛ چنانچہ علامہ قرطبی ؒ( متوفیٰ ۶۷۱ھ) فرماتے ہیں:
لایجوز نقض المسجد ولا بیعہ ولا تعطیلہ وإن خربت المحلۃ ( الجامع لأحکام القرآن:۲؍۷۸)
مسجد کو توڑنا، اُسے بیچنا اور اسے ختم کر دینا جائز نہیں ہے، اگرچہ محلہ ویران ہو گیا ہو۔
یہی نقطۂ نظر فقہاء شوافع کا بھی ہے؛ چنانچہ معروف شافعی فقیہ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں:
أما المسجد فانہ إذا انھدم و تعذرت إعادتہ فانہ لایباع بحال لامکان الإنتفاع بہ حالا بالصلوٰۃ فی أرضہ۔ (شرح المہذب: ۱۵؍۳۶۱)
جب مسجد منہدم ہو جائے او ر اس کو دوبارہ بنانا دشوار ہو، جب بھی اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ اس زمین میں نماز کی ادائیگی کے ذریعہ فی الحال بھی اس سے نفع اٹھانا ممکن ہے۔
ظاہر ہے اس اتفاق کے مقابلہ ایک ایسا قول جو خود حنابلہ کے یہاں متفق علیہ نہیں ہو اور اس کو امام احمد بن حنبلؒ کے تفردات میں شمار کیا گیا ہو، کیا قابل ترجیح ہو سکتا ہے؟
(ہ) پھر یہ کہ جمہور کا مذہب دلائل کے اعتبار سے بھی قوی ہے، قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ کسی زمین کو مسجد کے لئے وقف کرنا، اس حصۂ زمین کو براہ راست اللہ کے حوالہ کر دینا ہے، اب گویا وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے۔؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وأنّ المساجد للہ فلا تدعوا مع اللّہ أحد اتوبہ: (۱۰۸)، بے شک مسجدیں اللہ کے لئے ہیں؛ اس لئے (مسجدوں میں ) اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔
اس آیت میں اولاََ تو تاکید اور قوت کے لئے’’ أن ّ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جو عربی قواعد کے مطابق قوت و تاکید کے معنیٰ کے لئے ہے، پھر مسجد کے بجائے ’’ مساجد ‘‘ یعنی واحد کے بجائے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، اور اس پر جو ’’ الف، لام ‘‘ آیا ہے، وہ عربی گرامر کی رو سے ’’ استغراق‘‘ کے معنیٰ میں ہے، اس طرح اب اس کے معنیٰ ’’ تمام مسجدوں ‘‘ کے ہوگئے، یعنی جو حکم بیان کیا جا رہا ہے، وہ کسی ایک مسجد کا نہیں ہے؛ بلکہ تمام ہی مسجدوں کا ہے؛ اسی لئے مشہور مفسر عکرمہؒ نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت تمام ہی مسجدوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے (مختصر تفسیر ابن کثیر:۳؍۵۸۶) پھر فرمایا گیا ’’ للہ ‘‘ عربی گرامر کی رو سے ’’ ل ‘‘ ملکیت اور اختصاص کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے، یعنی مسجدیں اللہ ہی کی ملکیت ہیں، آگے اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح فرما دی ہے کہ مسجد کے اللہ کی ملکیت میں ہونے کا مطلب کیا ہے؟ — اور وہ یہ ہے کہ یہ جگہ ہمیشہ کے لئے اللہ کی عبادت کے لئے مخصوص ہے؛ لہٰذا اس مخصوص حصہ زمین میں غیر اللہ کی عبادت کی اجازت نہیں دی جاسکتی، فلا تدعوا مع اللّہ أحدا ( جن: ۱۸) تفسیر ثعالبی میں اس ٹکڑے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیا ہے: فیصلح أن تفرد للعبادۃ وکل ماھو خالص للّہ تعالیٰ ولا یجعل فیھا لغیر اللہ نصیب (تفسیر ثعالبی:۵؍۴۹۷) مسجدوں کی شان یہ ہے کہ ان کو عبادت اور ایسے ہی کاموں کے لئے مخصوص رکھا جائے، جو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہیں، اور ان میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا کوئی حصہ نہ ہو۔
اسی طرح کی بات علامہ زمخشریؒ نے بھی لکھی ہے (دیکھئے: الکشاف، ۴؍۶۳) پھر یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ’’ أنّ المساجد للّہ ‘‘ (بے شک مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں) عربی قواعد کے اعتبار سے جملہ اسمیہ ہے، اور جملہ اسمیہ میں ثبوت و استمرار اور بقاء ودوام کی کیفیت پائی جاتی ہے، ان تفصیلات سے جو بات منقح ہو کر سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے:
دنیا کی تمام وہ جگہیں جہاں مسجد بنا دی گئی ہو اور جنہیں مالکانِ زمین نے نماز پڑھنے کے لئے مخصوص کر دیا ہو، براہ راست اللہ کی ملکیت ہیں، وہ اللہ ہی کی عبادت کے لئے مخصوص ہیں، اور اس میں غیر اللہ کی عبادت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسی طرح ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ما کان للمشرکین أن یعمروا مساجد اللہ۔ (توبہ: ۱۷) مشرکین کے لئے درست نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔
یہاں مساجد کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے، عربی قواعد کے اعتبار سے یہ نسبت و اضافت ملکیت کے رشتہ کو ظاہر کرتی ہے، جیسے کہا جائے، ’’ بیت رشید‘‘ (رشید کا گھر) اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ رشید اس گھر کا مالک ہے، یا کہا جائے ’’ قلم حمید‘‘ تو معنیٰ یہ ہوئے کہ قلم حمید کی ملکیت ہے، اسی طرح نماز پڑھنے کی مخصوص جگہ ’’ مسجدیں‘‘ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، اور ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں تو وہ ہمیشہ مسجد ہی رہیں گی؛ کیوں کہ مالک جب تک اپنی ملکیت سے کسی چیز کو نکال نہ دے، اس سے اس کی ملکیت کا رشتہ ختم نہیں ہو سکتا، پھر اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے، اس کا تعلق تمام مسجدوں سے ہے کہ کوئی بھی مسجد مشرکین کے حوالہ نہیں کی جاسکتی؛ چنانچہ علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں:
الظاھر أن المراد شیئاََ من المساجد ؛ لأنہ جمع مضاف فیعم ویدخل فیہ المسجد الحرام دخولاََ أوّلیّاََ ۔ (روح المعانی: ۴؍۹۴)
ظاہر ہے کہ اس سے مراد کوئی بھی مسجد ہے؛ اس لئے کہ یہ جمع ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے؛ لہٰذا یہ تمام مسجدوں کو شامل ہوگا، اور مسجد حرام اس میں اولین طور پر داخل ہوگی۔
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:
ومن أظلم ممّن منع مساجد اللہ أن یذکر فیھا اسمہ وسعیٰ فی خرابھا۔ (بقرہ: ۱۱۴)
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا، جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا نام لینے سے روک دے، اور اس کو ویران کرنے کے درپے ہو؟
اس آیت میں بھی مساجد کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے، اور جو جگہ اللہ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہو، اس میں اللہ کی عبادت کے روک دینے کو بہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے، یہ آیت گو مسجد حرام سے متعلق نازل ہوئی ہے؛ لیکن جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام مسجدوں کا یہی حکم ہے، المراد سائر المساجد (تفسیر قرطبی:۲؍۵۳، تفسیر طبری:۱؍۳۵۲) اسی لئے مولانا ثناء اللہ پانی پتیؒ نے فرمایا کہ گو یہ آیت ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے؛ لیکن یہ حکم عام ہے —– الحکم عام وان کان المورد خاصا (تفسیر مظہری: ۱؍۱۱۶) —- اور مسجد کو ویران کرنے سے مراد اس کو منہدم کرنا اور اس میں عبادت کو معطل کر دینا ہے۔ (تفسیر ابی السعود: ۱؍۱۴۹)
یہ بات اہم ہے کہ مسجد عمارت کا نام نہیں ہے؛ بلکہ زمین کا نام ہے، اس سلسلہ میں یہ حدیث بڑی چشم کشا ہے:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تذھب الأرضون کلھا یوم القیامۃ إلا المساجد فإنھا یضم بعضھا إلیٰ بعض ۔ (مجمع الزوائد ، بہ حوالہ طبرانی، حدیث نمبر:۱۹۳۰)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن تمام زمینیں ختم ہو جائیں گی، سوائے مسجدوں کے، کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہو جائیں گی۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ مسجدیں قیامت تک مسجد ہی کی حیثیت سے باقی رہیں گی، یہاں تک کہ قیامت میں بھی باقی رکھی جائیں گی۔
(و) بابری مسجد کے مسئلے کی ایک خاص صورت ہے، اور وہ یہ کہ یہاں صرف مسجد سے دستبردار ہونے کا مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ اس کو غیر اللہ کی عبادت کے لئے دینے کا مسئلہ ہے، اور مسجد تو کجا امام احمد ؒ کے نزدیک تو اپنا ذاتی مکان بھی غیر اللہ کی عبادت کے لئے دینا جائز نہیں ہے؛ چنانچہ فقہ حنبلی کی ایک مشہور و معتبر کتاب میں ہے:
ولا إجارۃ الدار لتجعل کنیسہ أو بیت نار أو لبیع الخمر،أو القمار؛ لأن ذالک إعانۃ علی معصیۃ وقال تعالیٰ: ولا تعاونوا علی ا لإثم والعدوان (کشاف القناع: ۳؍۵۵۹)
مکان کو چرچ یا آتش پرستوں کی عبادت گاہ یا شراب کی دوکان یا جوئے کے مرکز کے لئے کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ یہ گناہ میں مدد کرنا ہے۔
نیز علامہ ابن قدامہ مقدسیؒ فرماتے ہیں:
ولا یجوز للرجل إجارۃ دارہ لمن یتخذھا کنیسۃ، أو بیعۃََ أو یتخذھا لبیع الخمر أو القمار۔ (المغنی لابن قدامہ: ۵؍۴۰۸)
کسی کے لئے اپنا گھر ایسے شخص کو دینا جائز نہیں ہے، جو اسے عیسائی یا یہودی عبادت گاہ بنالے، یا اس میں شراب کی دوکان یا جوئے کا مرکز بنائے۔
یہ صراحت فقہائے حنابلہ کی کتابوں میں بکثرت موجود ہے، غور کیجئے کہ جب ذاتی مکان اور وہ بھی بطور ملکیت کے نہیں؛ بلکہ بطور کرایہ بھی غیر اللہ کے لئے دینا جائز نہیں ہے تو اللہ کے گھر کو جو مسلمانوں کی ملکیت نہیں ہے؛ بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے، بت خانہ بنانے کے لئے دینا کیسے جائز ہوگا؟
رہ گئی مصلحت تو جو لوگ سوچتے ہیں کہ بابری مسجد کے قضیہ میں مسلمانوں کے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے فرقہ وارنہ ہم آہنگی پیدا ہوگی، اور مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ ہوگا، ہمیں حق نہیں ہے کہ ہم ان کی نیت پر شبہ کریں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے لئے بالکل خلاف مصلحت عمل ہوگا، ملک کے آزاد ہونے کے بعد سے ہزاروں فسادات ہو چکے ہیں، ان میں شاید ۵؍فیصد فسادات بھی بابری مسجد کے تنازع کی وجہ سے نہیں ہوئے، نفرت کے ایجنڈے کو فروغ دینا آر ایس ایس کا سیاسی ایجنڈا ہے، ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور ایسا مسئلہ ہے ہی نہیں ، جس کے ذریعہ ووٹ مانگ سکیں؛ اس لئے اگر ایک مسجد کا معاملہ ختم ہو جائے تو دوسری مسجد کا معاملہ کھڑا ہوگا، اور ’’ وی، ایچ، پی‘‘ کے پاس ابھی تقریباََ 3500 مسجدوں، عیدگاہوں اور درگاہوں کی فہرست موجود ہے، اگر ایک گروہ وعدہ بھی کر لے کہ ہم اس مسجد کے بعد دوسری مسجد کا سوال نہیں اٹھائیں گے تو کوئی اور گروہ کسی اور مسجد کا مسئلہ لے کر اُٹھ کھڑا ہوگا، اور پھر مسجد پر کیا موقوف ؟ سوریہ نمسکار، وندے ماترم، لَو جہاد، گھر واپسی وغیرہ کتنے ہی زہر میں بجھائے ہوئے تیر سنگھ پریوار کے ترکش میں موجود ہیں اور موقع کے لحاظ سے نکالے جاتے ہیں۔
اس لئے اس کا کوئی فائدہ تو نہیں ہوگا؛ لیکن اصولی اعتبار سے مسلمانوں کی بہت بڑی شکست ہوگی؛ کیوں کہ جب ایک جگہ آپ اس بات کو تسلیم کر لیں گے کہ مسجد سے دست بردار ہوا جا سکتا ہے تو پھر کسی بھی مسجد، عیدگاہ اور مقبرہ کے معاملہ میں آپ کی یہ دلیل مانی نہیں جائے گی کہ اس کو بدلا نہیں جا سکتا؛ اس لئے جو لوگ ایسا سوچتے ہیں کہ بابری مسجد کو حوالہ کردینے سے امن و امان قائم ہو جائے گا اور نفرت کی آگ بجھ جائے گی، ان سے عاجزانہ اور دردمندانہ درخواست ہے کہ آپ ملک کی تاریخ کو دیکھئے، تجربات کو سامنے رکھنے اور سوچئے کہ کیا اس قسم کا عمل ملت اسلامیہ کے لئے مفید ہو سکتا ہے؟ اور اس بات کو بھی پیش نظر رکھئے کہ مسجد کا مسئلہ دنیا سے آخرت تک کا ہے، اگر ہم متبادل جگہ، تعلیمی ادارے یا مسلمانوں کے کچھ مفادات کے بدلے میں مسجد سے دست بردار ہوجائیں تو عند اللہ کیا جواب دیں گے؟ اگر حکومت نے زور زبردستی کی اور کچھ فرقہ پرستوں نے دہشت گردی سے مسجد پر قبضہ کر لیا، یا عدالت انصاف کے تقاضوں تک نہیں پہنچ پائی، تو ہم آخرت میں معذور سمجھے جائیں گے؛ لیکن اگر ہم نے اپنا گھر بچانے کے لئے اللہ کا گھر حوالہ کر دیا تو اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے، اور میدان حشر میں کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کریں گے؟ !

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں