ایس پی – بی ایس پی اتحاد، ہنگامہ یونہی نہیں ہے برپا!

ڈاکٹر یامین انصاری
اتر پردیش میں دو سیٹوںکے لئے ہونے والے ضمنی انتخابات نے لکھنؤ تا دہلی ایک عجیب سی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ریاست کے گورکھپور اور پھول پور پارلیمانی حلقوں کے انتخابی نتائج چاہے جو بھی ہوں، لیکن سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان اچانک سیاسی مفاہمت سے رائے دہندگان کے ایک بڑے طبقہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور یہ خوشی صاف محسوس بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ ہ طبقہ ہے جو فرقہ پرست جماعتوں کے مقابلے میں کم یا زیادہ خراب سیکولر جماعت کا انتخاب کرتے وقت کشمکش کا شکار رہتا ہے۔کئی بار اس کے سامنے ان دونوں جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہوتے ہیںاور وہ طے نہیں کر پاتا کہ آخر کس کے حق میں وہ اپنا ووٹ کرے۔ یو پی میں سکون اور اطمینان کی سانس اس لئے بھی لئے جا رہی ہے کہ ایس پی اور بی ایس پی دونوں ہی عوام سے جڑی ہوئی زمینی سطح کی جماعتیں توہیں، لیکن ایک دوسرے کی سخت حریف بھی ہیں۔ اس لئے ان کا ساتھ آنا ریاست کے عوام کے لئے نیک فال ہی ہوگا۔ کیوں کہ اگر یہ دونوں جماعتیںمستقبل میں کسی طرح کا اتحاد کرتی ہیں تو یقیناً کانگریس اور آر ایل ڈی جیسی جماعتیں بھی ان کے ساتھ آنے پر مجبور ہوںگی۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو وہ نہ اِدھر کی رہیں گی اور نہ ہی اُدھر کی۔ وہیں دوسری جانب حکمراں بی جے پی کے لیڈران، مع وزیر اعلیٰ بظاہر ایس پی اور بی ایس پی کے اتحاد پر طنز کر رہے ہیں، اس کا مذاق اڑا رہے ہیں، لیکن حقیقت میںاس سیاسی مفاہمت اورمستقبل کے عظیم اتحاد کی آہٹ سے وہ انتے ہی خوفزدہ اور فکرمند بھی ہیں۔ وہ بیان بازی اس لئے کر رہے ہیں تا کہ اپنے ووٹرس کو یہ پیغام دے سکیں کہ انھیں اس ممکنہ اتحاد سے کوئی فرق نہیں پڑنے والاہے۔
یو پی میں ممکنہ عظیم اتحاد سے بی جے پی یونہی خوفزدہ اور فکرمند نہیں ہے۔ در اصل ریاست میں ذات پات اور مذہب کی سیاست کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں کبھی مذہب کی بنیاد پر اور کبھی ذات پات کی بنیاد پر حکومتیں بنتی اور گرتی رہی ہیں۔ یو پی میں تقریباً ۰۲ فیصد مسلم آبادی ہے۔ اس کے علاوہ ۰۴ فیصد دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) ، تقریباً ۰۲ فیصد دلت ، جبکہ تقریباً ۰۲ فیصد عوام ہی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں صرف اعلیٰ ذات کو ہی بی جے پی کا ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ دلتوں کو بی ایس پی اور مسلم و او بی سی کو عموماً سماجوادی پارٹی کا ووٹ بینک مانا جاتا ہے۔ سابقہ سماجوادی حکومت اس کی تازہ مثال ہے۔کیوں کہ اگر صرف مسلم اور اوبی سی ووٹ ایک جماعت کے ساتھ آ جائیں، تو اسے حکومت سازی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اسی طرح کبھی کبھی دلت اور مسلم ووٹ مل کر بی ایس پی کو حمایت کرتے ہیں تو مایاوتی کی حکومت وجود میں آج جاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بی جے پی کو ایک لمبے عرصہ تک یو پی میں تیسرے اور چوتھے نمبر کی پارٹی بنا کر رکھا گیا۔ لیکن جیسے ہی بی جے پی ہندو۔مسلم کرنے لگتی ہے اور ہندوتوا کے ایجنڈہ کے ساتھ انتخابی میدان میں آتی ہے تو پھر یوگی کی حکومت بن جاتی ہے۔
غور طلب ہے کہ ۶ دسمبر ۲۹۹۱ءکے منحوس سانحہ کے بعد بی جے پی کو روکنے کے لئے پہلی مرتبہ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا اتحاد وجود میں آیا تھا۔اسی کا نتیجہ تھا کہ بابری مسجد انہدام اور ملک بھر میں فرقہ وارانہ ماحول کے باوجود۳۹۹۱ءمیں ہوئے اسمبلی انتخابات میں دونوں جماعتیں اتحادی کی شکل میںانتخابی میدان میں اتریں۔ انتخابات میں ایس پی اور بی ایس پی کا اتحاد کامیاب رہا۔واضح ہو کہ ۲۹۹۱ءمیں ہی ملائم سنگھ یادو نے جنتا دل سے علیحدہ ہو کر سماجوادی پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت تشکیل دی تھی۔اور اُس وقت بی ایس پی کی کمان کانشی رام کے پاس تھی، لیکن مایاوتی شروع سے ہی پارٹی میں نمبر دو کی پوزیشن پر تھیں اور پارٹی میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔اس انتخابی مفاہمت کے تحت سماجوادی پارٹی نے ۶۵۲ سیٹوں پر انتخاب لڑا اور ۹۰۱ پر کامیابی حاصل کی۔ جبکہ بی ایس پی نے ۴۶۱ سیٹوں پر قسمت آزمائی اور ۷۶ سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ اس کامیابی کے بعد ایک نعرہ بھی خوب عام ہوا تھا ’ملے ملائم کانشی رام، ہوا ہوگئے جے شری رام‘۔یہاں جے شری رام کو نعرے میں شامل کرنے کا مقصد مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا، بلکہ بی جے پی کے ذریعہ رام کے نام کے استعمال کے جواب میں یہ نعرہ دیا گیاتھا۔ اتحاد کی کامیابی کے بعد ملائم سنگھ یادو وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس اتحادی حکومت کو ابھی ڈیڑھ سال کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ اسی درمیان ۲ جون ۵۹۹۱ءکو لکھنو ¿ میں اسٹیٹ گیس ہاو ¿س واقعہ پیش آ گیا۔ سماجوادی کارکنان پر بی ایس پی کی لیڈر مایاوتی کے ساتھ بد سلوکی کرنے کا الزام لگا۔ اس کے بعد اتحاد ٹوٹ گیا اور پھر بی جے پی کے ساتھ مل کر مایاوتی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر لیا اور اس کی مدد سے مایاوتی پہلی بار یو پی کی وزیر اعلیٰ بن گئیں۔ پھرتو بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی اور ایس پی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کے درمیان دوریاں اتنی بڑھ گئیں کہ یہ دریاو ¿ں کے دو کناروں کی طرح ہو گئے۔جس کے بعد اس بات کو یقینی مان لیا گیا کہ اب ان دونوں جماعتوں کا ملنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اب دریا میں کافی پانی بہہ چکا ہے ۔ سماجوادی پارٹی پر ملائم سنگھ یادو کا کنٹرول نہیں رہا اورپارٹی کی کمان ان کے بیٹے اکھلیش یادوکے پاس ہے ۔ ایسے میں بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا اشارہ اکھلیش یادو نے سابقہ اسمبلی انتخابات میں بھی دیا تھا، لیکن ایسا ہو نہیں سکا تھا۔ حالانکہ اگر ان دونوں جماعتوں نے ۴۱۰۲ءکے پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے کوئی سبق لیا ہوتا اور اسمبلی انتخابات میں سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرکے اتحاد کر لیا ہوتا تو آج اتر پردیش کی سیاسی تصویر کچھ اور ہی ہوتی۔ بہر حال دیر آید درست آید کے مصداق اگر یہ اب بھی پھول پور اور گورکھپور سے آگے بڑھتے ہیں تو یقیناً یہ فیصلہ ریاست کے کم از کم ۰۷ فیصد رائے دہندگان کی امنگوں کے عین مطابق ہوگا۔
بہر حال اب بھی موقع ہے کہ سیکولر جماعتیں ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ذاتی اور چھوٹے چھوٹے مفادات کو نظر انداز کرکے آگے بڑھیں۔ کانگریس کی ہٹ دھرمی اور علاقائی جماعتوں کے ذاتی مفادات کا ہی نتیجہ ہے کہ دھیرے دھیرے ملک کی زیادہ تر ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت قائم ہو چکیہے اور اس کے خوفناک نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں ۔ تری پورہ کی بالکل تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ لہذا سیکولر جماعتیں اگر واقعی اس ملک کی اقدار و روایات کو بچانا چاہتی ہیں تو انھیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ فرقہ پرست اور فاشست طاقتوں سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اب یو پی اور پورے ملک کا ہر امن پسندشہری اور سیکولر ذہن یہ چاہتا ہے کہ ان طاقتوں کو روکنے کےلئے اکھلیش اور مایاوتی کے درمیان پہلے جیسا اتحاد ہو جائے۔ضمنی انتخاب میں مایاوتی نے ایس پی کی حمایت کا اعلان کرکے یقیناً ایک بڑا اور مثبت پیغام دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یو پی کے سیاست میں ایک نیا باب بھی شروع ہوسکتا ہے۔ اگر ضمنی الیکشن کے نتائج بہتر رہے توامید کی جانی چاہئے کہ۹۱۰۲ءکے عام انتخابات میں ایس پی اور بی ایس پی کا اتحاد وجود میں آنا طے ہے۔اس سلسلہ میں ایس پی اور بی ایس پی ہی نہیں، دیگر سیکولر جماعتوں کو بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا۔کیوں کہ جب تک سیکولر طاقتیں مل کر ان فرقہ پرستوں کے خلاف محاذ آرا نہیں ہوتیں ، اس وقت تک مثبت نتیجے کی امید بے معنی ہے۔
(کالم نگار روزنامہ انقلاب کے ریزڈینٹ ایڈیٹر ہیں )