معصوموں کی شہادت پر تعزیت کا دوہرا معیار !

خبر درخبر ۔(555)
شمس تبریز قاسمی
2اپریل 2018 اور 16دسمبر 2014 کو پیش آنے والے واقعات برابر ہیں ،دونوں تاریخوں میں
دوپڑوسی مسلم ملک کے معصوم بچوں اور تعلیم حاصل کرنے والوں پر حملہ ہوا،کھلتے ہوئے پھولوں کو کچل دیاگیا ،10سے 15 سال تک کی عمر کے بچوں کو خون میں نہلادیاگیا ۔لیکن ایسالگ رہاہے کہ 2اپریل کو اس دنیا میں کچھ ہوا ہی نہیں ،افغانستان کے صوبہ قندوز میں امریکہ اور افغان فضائیہ کی بمباری میں شہید ہونے والے ایک سو سے زائد معصوم بچے کا قتل کوئی جرم ہی نہیں ہے ۔وہ حملہ افغانستان میں ہونے والے دیگر حملوں کی طرح معمول کا حصہ ہے جس پر نہ کبھی افسوس کا اظہار کیاجاتاہے اور نہ میڈیا میں اس کا کوئی تذکرہ ہوتاہے ۔دوسری طرف 16 دسمبر 2014 میں پاکستان کے آرمی اسکول پر ہونے والا حملہ تاریخ کا حصہ بن گیاہے ،اس کی برسی منائی جاتی ہے ۔مجھے یاد ہے کہ جب پاکستان کے آرمی اسکول پر حملہ ہواتھا تو پوری دنیا سوگ میں ڈوب گئی تھی ،تمام ممالک نے تعزیت کی تھی ،اسے بدترین اور بزدلانہ حملہ قراردیاتھا ۔ہندوستان کی پارلمینٹ میں بھی سوگ منایاگیا ۔ملی جماعتوں کے رہنماﺅں نے کئی دنوں تک اردو اخبارات میں پریس ریلیز جاری کرکے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ۔خود میں نے بھی ان دنوں اپنے اسی خبر در خبر کے کالم میں طالبان کے خلاف سخت مضمون لکھاتھاکیوں کہ رپوٹ کے مطابق پشاور آرمی اسکول پرحملہ آور طالبان کے چھ بندوق بردار تھے ۔
دوسری طرف افغانستان کے صوبہ قندورکا حملہ ہے جہاں جلسہ دستاری بندی کا سلسلہ جاری تھا،انتہائی کمر عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل کئے ہوئے بچے اپنے سروں پر دستار باندھے جانے کی خوشیوں میں مگن تھے ،پگڑی ،پھولوں کا مالا اور نیا کپڑا پہن کر معصوم بچے صف لگائے بیٹھے تھے ،والدین اس حسین منظر کو دیکھنے کیلئے شدت سے بے چین تھے جس میں کسی حافظ قرآن کو دستار باندھی جاتی ہے ،انہیں مالا پہنایاجاتاہے اور اعزاز سے نوازاجاتاہے لیکن اسی دوران ناٹو کی بمباری شروع ہوگئی اور 200 سے زائد شہری جاں بحق ہوگئے جس میں سو سے زائد معصوم حفاظ کرام اور مدرسہ کے طلبہ بھی تھے ۔
اس ظلم ،بربریت اور دہشت گردی پر پوری دنیا خاموش تماشا بنی ہوئی ہے ،نہ تو کسی ملک کی وزرات خارجہ نے رسمی تعزیت کی ہے ،نہ ہی عالمی میڈیا نے اس پر توجہ دی ہے المیہ یہ ہے کہ ہندوستان کی ملی جماعتیں بھی خاموش ہیں ،ایک تنظیم (آانڈیا ملی کونسل )کے علاوہ کسی اور کی پریس ریلیز بھی میری نظر سے نہیں گزری ہے ۔جماعت اسلامی ہند نے آج پریس کانفرنس کے دوران یہ سوال پوچھے جانے پر مذمت کرتے ہوئے کہاکہ یہ دہشت گردی اور بربریت ہے جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔
تعزیت ،مذمت اور احتجاج کے درمیان اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ کیا افغانستا ن میں مرنے والے معصوم بچے پشاور آرمی اسکول کے طرح بے گناہ نہیں تھے ؟ کیا یہ حفاظ کرام عسکریت پسند اور طالبان کے نمائندے تھے ؟ کیا ان بچوں نے کبھی امریکہ مردہ آباد کے نعرے لگائے تھے ؟یا کسی طرح کے دہشت گردانہ واقعات میں ملوث پاگئے تھے ؟ ۔یا پھر اس قتل پر خاموشی کی وجہ یہ سمجھی جائے کہ یہاں مرنے والے علم دین سیکھ رہے تھے ،اسکول کے بجائے مدرسہ کے طالب علم تھے ،عصری علوم کی جگہ انہوں نے قرآن کریم حفظ کیاتھا اس لئے ان کی موت کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے ۔ان پر ظلم وبربریت سے کسی کو تکلیف نہیں ہوتی ہے ۔ ان پر بمباری اور دہشت گردانہ حملہ قابل مذمت نہیں ہے یا پھر یہ حملہ امریکہ کی ناٹو افواج نے کیاتھا اس لئے کسی میں بولنے کی جرات وہمت نہیں ہور ہی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا وہ لبرل طبقہ بھی خاموش ہے جو فرانس، امریکہ یاد یگر مقامات پر ہونے والے معمولی حملوں پر چیخ پڑتے ہیں ۔
پاکستان کے معروف سیاسی عالم دین مولانا فضل الرحمن کا یہ جملہ حق بجانب ہے کہ جب کسی اسکول پر حملہ ہوتاہے تو میں سب کے ساتھ مل کر روتاہوں اور جب کسی مدرسہ پر حملہ ہوتاہے تو میں تنہا روتاہوں ۔
stqasmi@gmail.com