میانمار۔13اپریل(ملت ٹائمز)
میانمار نے بین الاقوامی فوج داری عدالت (ICC) کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد میں ملک بدری اور بحرانی کیفیت سے متعلق تفتیش کی کوشش پر ’شدید تشویش‘ ظاہر کی ہے۔میانمار کی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی کسی تفتیش کو قبول نہیں کرے گی کیوں کہ یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت کے دائرہ کار ہی میں نہیں آتا۔
گزشتہ برس اگست کے آخر میں روہنگیا کے خلاف شروع ہونے والے عسکری آپریشن کے بعد راکھین ریاست میں بسنے والے قریب سات لاکھ روہنگیا باشندے ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچ گئے تھے اور اب تک ان کی واپسی کی کوئی سبیل نہیں ہو پائی ہے۔
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
میانمار کا موقف ہے کہ اس کی اس کارروائی کا مقصد عسکریت پسند تنظیم روہنگیا سالویشن آرمی سے ملک کا دفاع تھا، تاہم بنگلہ دیش پہنچنے والے مہاجرین نے اپنے بیانات میں بتایا تھا کہ راکھین میں انہیں تشدد، جنسی زیادتی، مکانات اور بستیوں کی تباہی اور قتل عام جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا، اسی تناظر میں میانمار پر روہنگیا کی ’نسل کشی‘ جیسے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
پیر کے روز دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوج داری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے ججوں سے سوال کیا تھا کہ آیا اس بین الاقوامی عدالت کو روہنگیا باشندوں کی اس ہجرت کی تفتیش کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی ملک بدری کے درپردہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ تو نہیں تھا۔
تاہم اس کے جواب میں جمعے کے روز نوبل انعام یافتہ جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کے ریاستی کونسلر دفتر سے جڑی وزارت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایسی کوئی تفتیش عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی عدالت اگر اس معاملے پر تفتیش کا حکم دیتی ہے، تو ایسے کسی فیصلے کے سامنے کس قسم کی قانونی اور عملی پیچیدگیاں آ سکتے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ میانمار ’روم اسٹیچو‘ نامی معاہدے کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔ اس معاہدے کے دستخط کنندہ ممالک آئی سی سی کی رکن ریاستیں کہلاتے ہیں۔ میانمار کے وزارتی بیان کے مطابق، ”آئی سی سی کے چارٹر میں کہیں نہیں لکھا کہ جو ممالک آئی سی سی کے دائرہ کار کو تسلیم نہیں کرتے، وہ اس عدالت کے دائرہ اخیار کو قبول کرنے کے پابند ہوں گے۔“





