مولانا محمد نوشاد نوری قاسمی
۴۱ ©اپریل ۸۱۰۲ء، دوپہر کے وقت ایک ایسی گھڑی آئی جو پورے اسلامیان ہند کو سوگوار کرگئی ، وہ ایک دو لمحہ کا غم نہیں تھا، بلکہ صدیوں کا غم تھا ، ایسا غم جسے غلط نہیں کیا جاسکتا، ایسا زخم جسے مندمل نہیں کیا جاسکتا،وہ غم تھاخطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ کی رحلت کا ، آہ یہ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ہفتہ واتوار کی درمیانی شب میں لوگوں نے ایک عالم دین ہی کو دفن نہیں کیا؛ بلکہ ایک انجمن، ایک تحریک، ایک کارواں اورایک ایسے چراغ شب تاب کو دفن کیا ہے ، جس سے ایک دنیا روشن تھی، جس کی روشنی ، علم ، اخلاص، تقوی ، طہارت ، اوراعتدال کا آمیختہ تھی۔
حضرت اقدس مولانا محمد سالم قاسمی صاحب ؒ (ولادت: ۸جنوری۶۲۹۱ئ © وفات: ۴۱ ©اپریل ۸۱۰۲ء)کی زندگی ، علم وعمل ، مسلسل جدوجہد،آہنی عزم، ہمالیائی حوصلہ اور ہمہ وقتی تگ وتاز سے عبارت تھی، اس لیے ممکن ہی نہیں کہ اسے چند سطروں میں سمیٹ دیا جائے ، اللہ نے توفیق دی تو کسی موقع پر تفصیلی مضمون یا رسالہ ترتیب دیا جائے گا ، سردست حضرت کی کچھ ان خصوصیات کا تذکر ہ مقصود ہے ، جو انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
اخلاص اور توکل علی اللہ:
حضرت ؒ کا یہ وصف بہت نمایاں تھا، توکل علی اللہ ان کی زندگی کا ایساوصف تھا، جسے ہراس شخص نے محسوس کیا جسے تھوڑی دیر بھی ، ان کے پاس بیٹھنا نصیب ہوا ہو، یہ ان کے اخلاص ہی کی بات تھی، کہ ہندوستان کے دور دراز کے وہ علاقے ، جو ہر طرح کی سہولیات سے محروم تھے، وہاں کا بھی پروگرام خندہ پیشانی سے قبول کرتے ، اور سفر کی تمام تر مشقتوں کو برداشت کرکے ، پروگرام میں شرکت کرتے ، اور صحیح اسلامی فکر کی اشاعت کا فریضہ انجام دیتے، توکل علی اللہ کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ قضیہ دار العلوم کے موقع پر ، جب ہرطر ح کی بے سروسامانی تھی، مخالفتوں کا ایک طوفان تھا، حالات بالکل سازگار نہیں تھے؛ا نہوں نے اپنے چند رفقاءکی معیت میں ، توکل علی اللہ کی قوت پریقین کامل کے ساتھ، دارالعلوم دیوبند کی روح اور خصوصیات کی حفاظت کی غرض سے، دار العلوم وقف دیوبند کی داغ بیل ڈالی، اور اس خواب کو ایک حقیقت میں تبدیل کردیا، یہ بجائے خود ایک کارنامہ نہیں؛ بلکہ ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے، جو ان کے اخلاص اور توکل کی برکت سے وجو د میں آیا ہے۔
وقت کی پابندی:
ان کی زندگی کی اہم ترین خصوصیت وقت کی پابندی ہے ، ان کی وقت کی پابندی ضرب المثل تھی، وہ جس چیز کا جو وقت مقرر کرتے ، اس کی پوری پابندی کرتے ، ان کے شاگردوں کا بیان ہے کہ گھنٹہ لگتے ہی وہ درسگاہ میں حاضر رہتے ، طلبہ چاہتے تھے کہ حضرت کو بلانے آستان قاسمی پہونچیں؛ لیکن وہ ان کے حاضر ہونے سے قبل ہی درسگاہ پہونچ جاتے ۔
©صبر وتحمل :
حضرت بے پناہ صبر وتحمل رکھتے تھے، ان کی برد باری مشہورتھی، ظاہر ہے ان جیسے بڑے لوگوں کا سابقہ ہرقسم کے لوگوں سے پڑتا تھا، اور لوگوں کے درمیان فکر ومزاج کا اختلاف فطری ہے، لیکن کبھی ایسا محسوس نہیں کیا گیا کہ انہوں نے کسی کو مجلس میں جھڑک دیا ہویا سخت لب ولہجہ میں بات کی ہو۔
تعزیتی نشست میں حضرت الاستاذ مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم صدر جمعیة علماءہندنے حضرت کی بہت اہم خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:” ہمارے درمیان ایک دور اختلاف کا رہا، پھر وقت آیا کہ وہ اختلاف ختم کیا گیا ؛ لیکن اس پوری مدت میں انہوں نے اختلاف کو اپنی تحریر وتقریر کا موضوع نہیں بنایا“ ، ظاہر ہے یہ ان کے صبر وضبط کی انتہاءتھی۔
اسلامی فکر وفلسفہ کی تشریح:
علوم وفنون میں ان پر قاسمی رنگ غالب تھا، گہرے معانی ، عمیق مضامین، اسلامی افکار ونظریات کی عقلی بنیادوں پر تشریح ، گتھے اور الجھے مسائل کو آسان انداز میں حل کردینا ان کا عظیم وصف تھا، وہ بلاشبہ ایک اسلامی فلسفی اور مفکر تھے،ان کی زندگی کا یہ پہلو اتنا پھیلا ¶ رکھتا ہے کہ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے ۔
عظیم خطیب :
وہ آخری دور میں تقریر وخطابت کی آبرو تھے، اس میدان میں ان کا پایہ اتنا بلند تھا کہ بجا طور پر انہیں ”خطیب الاسلام“ کا لقب دیا گیا، وہ اس معاملہ میں اپنے والد محترم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے حقیقی جانشین تھے، وہ ایک موضوع پر گھنٹوں بولتے چلے جاتے، ایسا معلوم ہوتا کہ معلومات کا ایک دریا ہے جو موجزن ہے ، ایک آبشار ہے جس میں ٹھہرا ¶ نہیں ہے، ان کی تقریرسے خواص وعوام سب یکساں مستفید ہوتے ، اور وہ اپنی بات بڑی صفائی اور جرا ¿ت کے ساتھ رکھتے ۔
اعتدال فکر ونظر:
اعتدال فکر ونظر کے باب میں ، معاصر علماءکے درمیان شاید وہ آخری انسان تھے ، جنہیں اس باب میں مرجعیت کا مقام حاصل تھا، ان کی اس صفت کو سارے لوگ تسلیم کرتے تھے، ان کی تحریر وتقریر سے واقفیت رکھنے والے حضرات کو اس کا بخوبی ادراک ہوگا، انہوں نے تعصب اور گروہ بندی سے اپنا دامن تاحیات محفوظ رکھا، وہ دوسروں کی خوبیوں کا اظہار برملا کرتے ، اور اختلاف رائے کو بڑی فراخ دلی سے قبول کرتے، اس لیے وہ ادارے اور تنظیمیں جن میں مختلف مسلک ومشرب سے تعلق رکھنے والے افراد تھے ، حضرت ان کی زینت ہوا کرتے تھے ، وہ جس اجلاس یا کانفرنس میں شریک ہوتے ، ان کی حیثیت اس میں پیر مغاں اور سالار کارواں کی ہوتی۔
ان کے اعتدال فکر ونظر کی دسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں ، ایک بڑی واضح مثال یہ ہے کہ وہ بڑی تاکید سے فرمایا کرتے تھے، کہ” تبلیغ دین کی ہوسکتی ہے ، مسلک کی نہیں“، مسلکی تعصب اور باہمی تکفیر وتفسیق کے ماحول میں اس جملہ کی اہمیت کا اندازہ لگانا اہل علم ودانش کے لیے شاید مشکل نہ ہوگا۔
تحریک دیوبند کی عظیم نمائندگی:
بھلا اس بات سے کسے انکا رہوگا کہ وہ تحریک دیوبند کے عظیم الشان نمائندہ تھے، ان کی تربیت جن اکابرین کے ہاتھوں ہوئی، وہ سب اپنے آپ میں عبقری شخصیت کے مالک تھے، وہ حضرت تھانوی ©ؒ کے آخری شاگرد تھے، حضرت حکیم الامت نے انہےں بچپن میں ، میزان الصرف پڑھائی، اور بے پناہ شفقتوں سے نوازا، وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے بہت ہی مقرب اور معتمد تلامذہ میں تھے،ان کے والد محترم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ ایک عظیم انسان اور مفکر اسلام تھے، ان کی تربیت خالص دینی ماحول میں ہوئی، وہ انقلابی ماحول میں پروان چڑھے،انہوں نے ایک ایسے گھر میں آنکھیں کھولی تھےں ، جہاں سے اسلامی تہذیب وثقافت کی بازیابی اور حفاظت دین کا دور رس منصوبہ تیار کیا گیا تھا، جس گھر کے بام ودر سے لگاتار صدائے حریت بلند کی جاچکی تھی،وہ اس بام ودر اور اس کے عظیم ورثہ کے سب سے بڑے امین تھے، وہ فکر دیوبندکی معنویت ، اس کی امتیازات وخصوصیات کے سب سے بڑے شارح اور ترجمان تھے، لیکن اس نمائندگی نے انہیں نہ تنگ نظر بنایا اور نہ تعصب پسند؛ بلکہ وہ اپنے اکابرین کی طرح وسیع الظرف اور بلند نگاہ انسان تھے۔
اوصاف وکمالات:
بلاشبہ وہ ایک عظیم انسان تھے، عظیم مفکر، عظیم فلسفی، عظیم داعی ، عظیم خطیب ،ان کی عظمت نسبی بھی تھی، اور ذاتی بھی، وہ عظیم اخلاق کے مالک تھے، ان کو قریب سے دیکھنے والے قسم کھاکر یہ گواہی دیتے ہیں کہ نہ وہ کبھی غیبت سنتے اور نہ ہی کرتے، کبھی کوئی تذکرہ چھڑ جاتا تو بھی خوش اسلوبی سے موضوع بدل دیتے،کریمانہ اخلاق، م ¶منانہ اوصاف، دلبرانہ گفتار، اور قلندرانہ شان کا ایک حسین مرقع اور وارثین انبیاءکا ایک مثالی کردارحضرتؒ کی وفات کے ساتھ ہی ، دنیا سے اوجھل ہوگیا۔
ہائے اس موقع پرکس کی تعزیت کی جائے ، اور کس سے تعزیت لی جائے ،الفاظ وتعبیرات کی کثرت کے باوجودایسے الفاظ نہیں ملتے جو جذبات کی صحیح ترجمانی کرسکیں ، شورش کاشمیری کے ایک مرثیہ سے درج ذیل اشعار مستعار لیکر اس بے ہنگم مضمون کا اختتام کرتاہوں :
عجب قیامت کا حادثہ کہ اشک ہیں، آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے ، افق پہ مہر مبین نہیں ہے
تری جدائی میں مرنے والے! وہ کون ہے جو حزین نہیں ہے
مگرتری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے
کئی دماغوں کا ایک انساں سوچتا ہوں ، کہا ں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑگئی ہے ، زبان سے زور بیاں گیا ہے
اترگئے منزلوں کے چہرے ، امید کیا ؟کارواں گیا ہے
مگر تری مرگ نا گہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے
یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکستہ دل ، خستہ گام پہونچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم ، خواص پہونچے عوام پہونچے
تری لحد پر خداکی رحمت ، تری لحد کو سلام پہونچے
مگر تری مرگ ناگہان کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے
(مضمون نگار معروف مصنف اوردار العلوم وقف دیوبندکے استاذ ہیں)