بھگوا دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کی کوشش

ڈاکٹر یامین انصاری

اگر مکہ مسجد دھماکہ کیس میں انصاف سے کام لیا گیا ہوتا تو کوئی تو ۹ بے گناہ نمازیوں کا قاتل سامنے آتا
پٹنہ میں منعقد ہونے والی ’دین بچاؤ دیش بچاؤ‘ ریلی کے سلسلہ میں اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اب اس میں مزید جسارت کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر اس ریلی کا جس طرح آپریشن کیا گیا، وہ بھی اپنے آپ میں اس ریلی کی طرح ہی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ فیس بک سے لے کر ٹوئٹر اور وہاٹس ایپ تک لوگوں نے اس قدر اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ پردے کے پیچھے اور پردے کے سامنے کے اس ریلی کے عزائم و مقاصد سب عیاں ہو گئے۔ لوگوں نے اظہار رائے کی آزادی کا بھرپور استعمال کیا۔ بہر حال، جن مقاصد کے تحت منتظمین نے یہ ریلی منعقد کی، اور ان مقاصد میں اگر ان کو کامیابی حاصل ہو گئی تو بہت بہت مبارک۔ لیکن فی الوقت ملک یقیناً ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ مختلف محاذ پر لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک کا ہر مہذب اور با شعور شہری اس بات کو لے کر فکر مند ہے کہ آخر کتنے محاذ پر اسے جنگ لڑنی ہوگی۔ کہیں دین بچانا ہے، کہیں دیش بچانا ہے، کہیں جمہوریت بچانا ہے، کہیں آئین کو بچانا ہے، کہیں درندہ صفت انسانوں سے بچیوں کو بچانا ہے، تو کہیں خواتین کی عزت و آبرو کو بچانا ہے، کہیں کسانوں کو بچاناہے تو کہیں دلتوں اور اقلیتوں کو بچانا ہے، غرضیکہ موجودہ دور میں جو کچھ بھی کرنا ہے، عوام کو خود کرنا ہے، حکومت سے کوئی امید کرنا بے معنی سا لگتا ہے۔ مکہ مسجد بم دھماکہ کیس کے سلسلہ میں این آئی اے نے جس طرح کا رخ اختیار کیا اور جو طریقہ کار اختیار کیا، اس سے یہ بات تو اب طے ہے کہ ملک کے سنجیدہ اور انصاف پسند شہریوں کو بیحد محتاط اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔
عوام کو عدالتوں پر آج بھی مکمل اعتماد ہے، لیکن اتنا ہی تفتیشی ایجنسیوں کے سلسلہ میں ان کا اعتماد بار بار متزلزل ہوتا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بظاہر کوئی نہ مانے، لیکن ان ایجنسیوں کے کام کاج میں حکومتوں کا دخل کافی حد تک رہتا ہے،اس کا مشاہدہ ایک بار نہیں، کئی بار ہو چکا ہے۔ مکہ مسجد بم دھماکہ کیس کے سلسلہ میں بھی یہی ہوا ہے۔ اس معاملے نے ایک بار پھر قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی اے کے طریقہ کار، اس کی خود مختاری اوراس کی غیر جانبداری پر سوال اٹھا دئے ہیں۔ ۷۰۰۲ءکے حیدر آباد کی تاریخی مکہ مسجد دھماکہ کیس میں تین تین تحقیقاتی ایجنسیوں کی ناقص اور کمزور جانچ کی وجہ سے استغاثہ کا کیس تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کیس کے تمام ملزمان بری ہو گئے اور آج بم دھماکے کے ۱۱ سال کے بعد بھی یہ نہیں معلوم کہ آخر جمعہ کی نماز کے وقت یہ دھماکہ کس نے کرایا تھا؟کون ان ۹ معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قاتل ہے، جو عین نماز کے وقت اپنی جان گنوا بیٹھے؟ معاملے کی تفتیش کی جہاں تک بات ہے تو دھماکے کے بعد سب سے پہلے اس معاملے کی تحقیقات مقامی پولیس نے کی۔ دو ماہ تک چلی اس جانچ میں پولیس نے بنگلہ دیش کی انتہا پسند تنظیم حرکت الجہاد الاسلامی پر شک ظاہر کیا۔ اس کے بعد پولیس نے اقلیتی فرقہ کے ہی کچھ مقامی نوجوانوں پر اس دھماکہ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور انہیں گرفتار کرکے اذیت ناک سزائیں دیں۔لیکن پولیس کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ اس کے بعد یہ کیس سی بی آئی کو منتقل کیا گیا۔ پہلی چارج شیٹ میں چھتیس گڑھ کے بن واسی کلیان آشرم کے سوامی اسیمانند کے علاوہ آر ایس ایس، ہندو وچار منچ، ابھینو بھارت جیسی تنظیموں سے وابستہ لوگوں کو ملزم بنایا گیا۔ اس کے بعد ۱۱۰۲ءمیں یہ معاملہ قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کے حوالے کر دیا گیا۔ اگلے تین سال میں این آئی اے نے تین سپلیمنٹری چارج شیٹ داخل کیں۔اس کیس پر گہری نظر رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ استغاثہ کے ذریعہ پیش کئے گئے گواہوں اور اسیمانند کے اقبالیہ بیان سے منحرف ہونےکے بعد مکہ مسجد دھماکہ کیس بالکل کمزور ہو گیا۔ این آئی اے نے اس معاملے میں کل ۶۲۲ گواہوں کا حوالہ دیا تھا۔ حالانکہ ان میں سے صرف ۶۶ کی گواہی کیس کے نتیجہ کے لئے انتہائی ضروری تھی۔ باقی سارے گواہ یا تو پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر تھے یا وہ تفتیشی افسر، جنہوں نے دھماکے میں مارے گئے لوگوں کی لاشوں کا پنچنامہ وغیرہ کیا تھا۔ان میں سے۶۶ گواہوں کے منحرف ہوجانے سے این آئی اے کے ہاتھ سے معاملہ پھسل گیا۔ گواہوں میں سے زیادہ تر جھارکھنڈاور اندور جیسی جگہوں سے تھے، جہاں سے کئی ملزمین کا بھی تعلق تھا۔اس وقت یہ معلوم ہوا تھا کہ یہ گواہ ٹیچر اور چھوٹے موٹے تاجر تھے، جنہوں نے دعوی کیا تھا کہ وہ ملزمین اور ان کے منصوبوں کے بارے میں جانتے تھے۔ ان گواہوں کے بعد میں پلٹنے کی وجہ سے استغاثہ کے ہاتھ سے معاملہ نکل کر ملزمین کے حق میں چلا گیا۔ کلیدی ملزم اسیمانند کے پہلے اقبال جرم اور پھر اس کے انحراف سے کیس مزید کمزور ہو گیا۔ اسیمانند نے۰۱۰۲ء میں مجسٹریٹ کی عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ میں مندروں پر حملوں سے ناراض تھا اور میں نے اس دھماکے کو انجام دیا۔ اسیمانند نے مجسٹریٹ کو بتایا کہ آزادی کے وقت حیدر آباد کے نظام نے پاکستان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لاس لئے سزا دینے کے لئے حیدر آباد کو نشانہ بنایا تھا۔ جج نے اسیمانند کے بیان کو سی آر پی سی کی دفعہ ۴۶۱ کے تحت درج کیا تھا۔ تاہم ۱۱۰۲ء میں اسیمانند حیدر آباد کی عدالت کو خط لکھ کر اپنے اقبالیہ بیان سے منحرف ہو گیا۔ اسیمانند نے لکھا کہ اس نے سی بی آئی کے دباؤ میں مکہ مسجد دھماکے میں شامل ہونے کی بات قبول کی تھی۔یہاں تک کہ این آئی اے یہ بھی ثابت نہیں کر سکی کہ اسیمانند کے ساتھ جیل میں بند ایک قیدی، جسے اسیمانند نے اپنے گناہوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا، کہ وہ اسیمانند کے ساتھ جیل میں بند بھی تھا۔ واضح ہو کہ اُس وقت بھی یہ خبر آئی تھی کہ جیل میں اسیمانند کے ساتھ بند ایک مسلم نوجوان کی عادات و اطوار اور اس کی خدمات سے متاثر ہو کر اسیمانند نے اپنے دل کی بات کہتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہےکہ اس نے ہندو وادی تنظیم ابھینو بھارت کے ساتھ مل کر دھماکہ کیا تھا۔ لیکن اس معاملے میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ سوامی اسیمانند کو مہاراشٹر کے مالےگاؤں، راجستھان کے اجمیر شریف اور سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر حملے سے متعلق مقدمات میں بھی ملزم بنایا گیا تھا، لیکن اجمیر شریف بم دھماکہ کیس میں بھی اسے بری کر دیا گیا تھا۔سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں وہ اب بھی ملزم ہے، لیکن ۵۱۰۲ءمیں ہائی کورٹ نے اس کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی تھی۔ ابھینو بھارت سے وابستہ ان لوگوں کے خلاف یہ کیس اس لیے اہم تھے، کیونکہ تفتیشی ایجنسیوں نے پہلی مرتبہ یہ کہا تھا کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ہندو بھی ملوث ہیں۔یہ تمام معاملات کانگریس کے دور اقتدار میں پیش آئے تھے۔ اس وقت ان حملوں کو ’بھگوا دہشت گردی‘ یا ہندو شدت پسندوں کی دہشت گردی کا نام دیا گیاتھا۔ مکہ مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس اور اجمیر شریف دھماکہ معاملوں میں سوامی اسیمانند اور ابھینو بھارت کے کرنل پروہت مرکزی کردار بن کر ابھرے تھے۔ کرنل پروہت اس وقت ہندوستانی فوج میں افسر رینک پر تھا اور اب وہ بھی ضمانت پر رہا ہے۔
بہر حال پہلے اسمیانند سمیت دیگر ملزمین کا بری ہونا اور پھر اسے بری کرنے والے جج کا چند گھنٹوں کے بعد ہی استعفیٰ دینا اپنے آپ میں شکوک و شبہات کے بادل مزید گہرے کر دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب مذہب کے نام پر سیاست اور غنڈہ گردی عام ہو، ذات پات کے نام پر لوگوں کے ساتھ زیادتی کو فروغ دیا جا رہا ہو، کھانے، پینے، بولنے، لکھنے پر بندشیں لگانے کی کوشش ہو رہی ہو،زانیوں کے لئے ترنگا یاترائیں نکالی جا رہی ہوں، زانیوں اور قاتلوں کو بچانے کے لئے پولیس کو اپنے کام سے روکا جا رہا ہو، شمبھو ناتھ جیسے سفاک قاتلوں کے لئے عدالتوں کا گھیراؤ کیا جا رہا ہو، عدالت پر بھگوا جھنڈا لہرایا جا رہا ہو، ایک ہیرو کی طرح اس کی جھانکی نکالی جا رہی ہو، ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک خاص نظریہ اور فکر رکھنے والے شدت پسندوں کو بچانے کے لئے کوئی کسر چھوڑی جائے گی۔ کیوں کہ اگر مکہ مسجد دھماکہ کیس میں انصاف سے کام لیا گیا ہوتا تو کوئی تو ۹ بے گناہ نمازیوں کا قاتل سامنے آتا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور روز نامہ انقلاب کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں