ضرورت ہے صدارتی امیدوار کی

ڈاکٹر فرقان حمید

ترکی میں قبل از وقت صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے اعلان کے بعد سیاست کے میدان میں بڑی گہماگہمی دیکھی جا رہی ہے۔ خاص طور پر ایردوان کی مخلاف جماعتوں میں ہل چل سی پیدا ہوچکی ہے اور ایردوان کو اس بار اقتدار سے ہٹانے کے لیے نئے نئے نسخے آزمائے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے دلچسپ صورتِ حال اس وقت دیکھنے کو ملی جب ترکی کی سیاست میں نیم مردہ جماعت کی حیثیت رکھنے والی مرحوم ایربکان کی “سعادتپارٹی ” جسے اس وقت ترکی میں 0٫5 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے کے موجودہ چئیرمین تیملقارا مولا اولو نےترپ کا پتہ کھیلتے ہوئے حزب ِ اختلاف کی سب سے بڑے جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی کو اپنا گرویدہ بنالیا اور ان پر اپنی مرضی ٹھونسنے لگے ( قارا مولا اولو وہی شخصیت ہیں جو ” سواس قتل عام ” کے موقع پری یعنی 2 جولائی 1993ء میں سواس شہر کی بلدیہ کے مئیر تھے اور اس وقت بائیں بازو کے 33 مصنفین کو “پیر سلطان ابدال ثقافتی ” پروگرام میں اسلام مخالف تقریریں کرنے کی بنا پر ملحد قرار دیتے ہوئے زندہ جلادیا گیا تھا اور ری پبلیکن پیپلز پارٹی نے اس غیر انسانی واقعے کی تمام تر ذمہ داری قارا مولا اولو اور ان کی جماعت پر ڈال دی تھی )قارا مولا اولو نے ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے چئیرمین کمال کلیچدار اولو کواس طریقے سے شیشے میں اتار ا کہ وہ قارا مولا اولو کے سحر میں کھوگئے اور ان کی خواہش پر مشترکہ امیدوار لانے کی درخواست کی تاکہ ایردوان کامل کر مقابلہ کیا جاسکے۔ انہوں نے کمال کلیچدارو اولو کو بائیں اور دائیں باز و کے علاوہ مذہبی حلقوں کی جانب سے بھی پذیرائی حاصل ہونے والی شخصیت کا نام پیش کیا۔ کمال کلیچدار اولو نے قارا مولو اولو کی جانب سے تجویز کردہ شخصیت کی اپنی جانب سے اور پارٹی کے اراکین کی جانب سے بھر پور حمایت کا یقین دلاتے ہوئے دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی اس موضوع سے متعلق مذاکرات کرنے کی کے اختیارات سونپ دیے۔ قارا مولا اولونے ایک دو چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد نئی قائم شدہ ” گڈپارٹی” کی چئیر پرسن “میرالآقشینر” سے بھی ملاقات کی اوراس ملاقات کے موقع پر قارا مولا اولو کو ایسا دھچکہ لگا کہ انہوں نے ایردوان کے مقابلے میں مشترکہ امیدوار لانے کا جو خواب دیکھ رکھا تھا وہ بکھر کر رہ گیا اور ایک چھتری تلے جمع ہونے کی جو آس لگا رکھی تھی اس پر پانی پھر گیا ۔ ” گڈپارٹی” کی چئیر پرسن “میرالآقشینر ” سے قارا مولا اولو کی ملاقات “آقشینر” نے ان کے اور ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ صدارتی امیدوار کے مقابلے میں دستبردار ہونے سے انکار کردیا ۔ سعادت پارٹی کے چئیرمین قارا مولا اولو نے ایردوان کے بغض میں ایک ایسے شہسوار کو میدان میں اتارنے کی کوشش کی تھی جو اس سے پہلے ترکی میں وزیراعظم سے لے کر صدر تک کے فرائض بڑی خوش اسلوبی انجام دے چکے تھے اور اپوزیشن کی جماعتیں اب ان کو جمہوریت کا بہت بڑا چمئین قرار دے رہی تھیں حالانکہ یہ وہی جماعتیں تھیں جب جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ پارٹی (آق پارٹی)نے اس شخصیت کو صدر بنانے کا فیصلہ کیا تھا ان تمام جماعتوں نے آق پارٹی کے اس فیصلے کی کھل کر مخالفت کی تھی اور کلی اکثریت حاصل ہونے کے باوجود اس شخصیت کو آئین کی رو سے 500 اراکین کی پارلیمنٹ میں 367 اراکین کی حمایت حاصل نہ ہونے کی قدغن لگاتے ہوئے آق پارٹی کو قبل از وقت انتخابات کروانے پر مجبور کردیا تھا۔ قبل از وقت انتخابات کے نتیجے میں آق پارٹی پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں اراکین کے ساتھ پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب رہی اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کی حمایت کے نتیجے اس شخصیت کو صدر منتخب کروایا۔ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس شخصیت کے صدر رہنے کے دور میں وزیراعظم ایردوان کی جانب سے منظوری کے لیے بجھوائے جانے والے تمام بلوں پر چوں چراں کیے بغیر دستخط کیے جانے پر ناک منہ چرانے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ جی ہاں میری مراد جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ پارٹی کے پہلے وزیراعظم اور پہلے صدر عبداللہ گل سے ہے۔ سعادت پارٹی کے چئیرمین قارامولوا اولو نے مختلف حیلوں، بہانوں، کانفرنسوں اور سیمنارز کی آڑ میں سابق صدر عبداللہ گل سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کو صدر ایردوان کے خلاف اکساتے ہوئے صدارتی امیدوار کے طور پر سعادت پارٹی کی جانب سے جسے دیگر مختلف جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہونے سے آگا کرتے ہوئے صدارتی امیدوار بننے پر تقریباً تقریباً راضی کرلیا تھا لیکن عبداللہ گل نے صدر ایردوان کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کے طور پرصدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی شرط سے آگاہ کردیا تھا جس پر قارا مولا اولو نے اپنی تمام تر رعنائیاں اپوزیشن کی جماعتوں کو قائل کرنے میں صرف کردیںلیکن وہ ” گڈپارٹی” کی چئیر پرسن میرالآقشینر کو قائل کرنے میں ناکام رہے اور یوں سعادت پارٹی کی یہ کشتی بیچ منجد ھار ہی غرق ہوگئی۔
یاد رہے جسٹس اینڈڈولپمینٹ پارٹی 14 اگست 2001ء میں نجم الدین ایربکان کی پارٹی سے بغاوت کرنے والے رجب طیب ایردوان، عبداللہ گل، بلنتآرنچ اور عبدالطیف شینر اور دیگر بانی اراکین کی کوششوں کے نتیجے میں قائم کی گئی تھی۔ عبداللہ گل کے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مشترکہ صدارتی امیدوار بننے کی خبریں موصول ہونے کے بعد صدر ایردوان نے اپنے ایک دیگر ساتھی اور سابق نائب وزیراعظم بلنتآرنچکے ذریعےپیغام بھیجتے ہوئے انہیں صدارتی امیدوار بننے سے باز رہنے کی تلقین بھی کی تھی۔ گڈ پارٹی کی میرالآقشینر کی ہٹ دھرمی کے بعد مشترکہ صدارتی امیدوار بننے سے انکار کرنے والے عبداللہ گل نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدارتی انتخابات میں امیدوار کے طور پر حصہ نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے مرحوم نجم الدین ایربکان کی سعادت پارٹی کے چئیرمین قارا مولا اولو کی ایردوان سے انتقام لینے کی کوشش ناکامی پر منتج ہوئی۔ اس وقت تک ترکی کے صدارتی انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ پارٹی کے چئیرمین رجب طیب ایردوان جسے نیشلسٹ موومنٹ پارٹی کی بھی حمایت حاصل ہے کے علاوہ دوسرا نام نئی قائم شدہ پارٹی ” گڈ” کی چئیر پرسن میرالآقشینر کا نام صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آیا ہے جبکہ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی تادم تحریر اپنے صدارتی امیدوار کا نام پیش کرنے سے کتراتی نظر آتی ہے اگرچہ اس جماعت نے عبداللہ گل سے امیدیں وابستہ کررکھی تھیں لیکن ان کی امیدوں پر پانی پھرنے کے بعد اب ان کو اپنے صدارتی امیدوار کا انتخاب کرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے کیونکہ اگر یہ جماعت پارٹی کے اندر سے جس میں پارٹی کے چئیرمین کمال کلیچدار اولو بھی شامل ہیں صدارتی امیدوار کھڑا کرتی ہے تو اس کے امیدوار کو صرف 25 فیصد کے لگ بھگ ووٹ ہی ملنے کی توقع ہے جبکہ صدر منتخب ہونے کے لیے اکیاون فیصد کے قریب ووٹ لینے کی ضرورت ہے جو کہ ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے لیے ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سےقبل ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی ری پبلیکن پیپلز پارٹی نے اپنی جماعت سے نہیں بلکہ دیگر جماعتوں کے اشتراک سے اکمل الدین احسان اولو کو اپنا صدارتی امیدوار کھڑا کیا تھا اور انہیں ایردوان کے مقابلے میں صرف چونتیس فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس لیے ری پبلیکن پیپلز پارٹی ایک ایسے صدارتی امیدوار کی تلاش میں ہے جو اس کی مسلسل ناکامیوں کو کامیابیوں میں ڈھال سکے اور اس کو ناکامی کی صورت میں کوئی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ دنیا میں سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنےہی کے لیے قائم کی جاتی ہیں لیکن ترکی کی ری پبلیکن پارٹی دنیا کی انوکھی پارٹی ہے جس کو اقتدار حاصل کرنے کی کوئی جستجو نہیں ہے اور وہ صرف اپوزیشن جماعت کے طور پر ہی ترکی میں اپنا سیاسی رول ادا کرنےپر یقین رکھتی ہے۔ ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے چئیرمین کمال کلیچدار اولو صدارتی امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لینے سے صرف اس لیے کترا رہے ہیں صدارتی انتخابات میں ناکامی کی صورت میں ان کو پارٹی کی چئیرمین شپ سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ری پبلیکن پیپلز پارٹی کی یہ روایت ہے کہ اس پارٹی کا چئیرمین ناکامیوں کی پراہ کیے بغیر اپنے تئیں کبھی بھی چئیرمین شپ سے علیحدگی اختیار نہیں کرتا ہے۔ آئندہ صدارتی انتخابات میں کرد ، ووٹروں کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی HDP بڑاکلیدی کردار ادا کرے گی کیونکہ اس جماعت کے ووٹروں کی تعداد دس فیصد کے لگ بھگ ہے اور یہ دس فیصد ووٹ صدر ایردوان یا اپوزیشن کے صدارتی امیدوار کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور اس سے کسی بھی صدارتی امیدوار کا پلڑہ بھاری ہو سکتا ہے ، اگرچہ اس جماعت کے چئیرمین صلاح الدین دیمر تاش نے اپنا نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کردیا ہے اگر پہلے مرحلے میں صدر ایردوان کو کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور معاملہ دوسرے مرحلے کے انتخابات تک جا پہنچتا ہے تو پھر قوی امکانات یہی ہیں کہ دیمر تاش صدر ایردوان کےساتھ مذاکرات کرنے کے بعدان کی حمایت کا اعلان کردیں ۔
furqan61hameed@hotmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں