مہاجرین کی مد میں نجی فلاحی تنظیموں کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ رواں برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ تب سے یونانی حکومت ہی جزائر پر مقیم پناہ گزینوں کی تنہا دیکھ بھال کر رہی ہے۔ تاہم نہ تو ان مہاجرین کی منتقلی کا کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی اب یہاں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں کوئی تسلسل رہ گیا ہے
برلن(ایجنسیاں)
یونانی جزیرے لیسبوس پر ہزاروں مہاجرین نے یورپی یونین کی مہاجرین کی بابت سخت پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ کیا، جو پرتشدد رنگ بھی اختیار کر گیا۔ مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین کی وہ پالیسی ختم کی جائے، جس کے تحت ان افراد کو یونانی جزیرے پر ہی محدود کر دیا گیا ہے۔ مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس جزیرے پر کسی بھی وقت پ±رتشدد مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں۔
مہاجرین کی مد میں نجی فلاحی تنظیموں کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ رواں برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ تب سے یونانی حکومت ہی جزائر پر مقیم پناہ گزینوں کی تنہا دیکھ بھال کر رہی ہے۔ تاہم نہ تو ان مہاجرین کی منتقلی کا کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی اب یہاں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں کوئی تسلسل رہ گیا ہے۔جمعرات کے روز یونان کے مظاہرین سے نمٹنے والی پولیس نے لیسبوس میں مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی۔ کچھ مقام پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ یہ مظاہرین مہاجرین کے بحران کے تناظر میں مرتب کی جانے والی یورپی پالیسی کے خلاف باہر نکلے تھے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ یہ پالیسیاں ان کے آبائی ممالک کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ مظاہرین نے پولیس کی ایک بس الٹنے کی کوشش کی، جب کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسوگیس کا استعمال کیا گیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں کوئی ایک گھنٹے تک جاری رہیں، تاہم ان واقعات میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا اور نہ ہی کس شخص کو حراست میں لیا گیا۔ جمعرات کے روز لیسبوس جزیرے پر عام پڑتال تھی۔
سن 2016 میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان مہاجرین کے حوالے سے معاہدہ ہونے سے قبل لیسبوس کا جزیرہ مہاجرین کی آمد کے سب بڑے مراکز میں سے ایک تھا۔ تاہم اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ یونانی جزائر پر پہنچنے والے تارکین وطن انہیں جزائر پر سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں، اگر وہ درخواست منظور ہو جائے، تو انہیں یونان کے کسی دوسرے علاقے میں جانے کی اجازت دی جائے، جب کہ دوسری صورت میں انہیں ترکی واپس بھیج دیا جائے۔
یہ بات اہم ہے کہ یونانی جزائر لیسبوس، کوس، ساموس، چیوس اور لیروس پر اس وقت قریب پندرہ ہزار تارکین وطن موجود ہیں اور ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی جاری ہے۔ تاہم اس دوران ان جزائر پر موجود مہاجر بستیوں میں تارکین وطن کی تعداد گنجائش سے کہیں زیادہ ہے اور حالات نہایت مخدوش ہیں۔
تارکین وطن کی حامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد اور ان پر فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے ان جزائر پر پھنسے تارکین وطن میں مایوسی پھیلتی جا رہی ہے جب کہ ان جزائر پر نئے تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے، جو مسائل میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔





