شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
جناب شیخ پر افسوس ہے میں نے تو سمجھا تھا
حرم کے رہنے والے ایسے نامحرم نہیں ہوتے
انبیاء کرام جب بھی دنیا میں تشریف لائے، ان کو دو طبقوں سے سابقہ پیش آیا، ایک وہ جو کھلے ہوئے کافر تھے، خواہ وہ خدا کا انکار کرتے تھے یا شرک میں مبتلا تھے، اور مخلوقات کے سامنے اپنی پیشانی خم کرتے تھے، دوسرے وہ جنہوں نے کھل کر کفر کا راستہ اختیار نہیں کیا، علی الاعلان انبیاء کی دعوت کی مخالفت نہیں کی، لوگ ظاہری حالات کے اعتبار سے ان کو اہل ایمان میں شامل سمجھتے تھے؛ لیکن نہ صرف یہ کہ وہ مسلمان نہیں تھے؛ بلکہ وہ دین حق کے خلاف سازشیں بھی کرتے رہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تو یہ گروہ تھا ہی؛ لیکن قرآن مجید کے بیان اور تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء کے ساتھ بھی اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں؛ اسی لئے ہمیں قوم بنی اسرائیل کے تذکرہ میں سامری کا کردار ملتا ہے کہ جوں ہی حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لے گئے اور حضرت ہارون علیہ السلام کے حلم وبردباری کی وجہ سے اس نے اپنے سازشی منصوبے کے لئے ماحول کو سازگار پایا، تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد کو بچھڑے کی پرستش میں مبتلا کر دیا۔
اسی طرح سیدناحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عہد میں بھی ہمیں نفاق کا کردار صاف نظر آتا ہے کہ آپ کے ایک نام نہاد حواری نے آپ کے بارے میں جاسوسی کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ آسمان پر اٹھا لیے گئے، یہودیوں میں چوں کہ منافقانہ مزاج زیادہ رہا ہے، اور وہ ہمیشہ سے خفیہ سازشیں کرتے آئے ہیں؛ اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد بھی عیسائیت کے سلسلے میں منافقین کی دسیسہ کاری کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ سینٹ پال نے یہودیت کا لبادہ اتار کر اپنے آپ کو ایک راست گو اور حضرت عیسی علیہ السلام سے بے حد محبت کرنے والے عیسائی کی حیثیت سے پیش کیا، اور پھر اس نے عیسائیوں کے درمیان سب سے بڑے مبلغ، مصلح اور مقدس شخصیت کی حیثیت حاصل کرلی، عقیدۂ توحید کو تثلیث سے بدل دیا، ایک خدا کی جگہ تین کے مجموعے کے خدا ہونے کا تصور پیش کیا، اور عیسائیت کو کچھ اس طرح مسخ کیا کہ آج تک عیسائی اس دام سے باہر نہیں آسکے، آج بھی دنیا اسی مسخ شدہ عیسائیت کو حضرت عیسی علیہ السلام کی لائی ہوئی حقیقی عیسائیت تصور کرتی ہے۔
اسلام میں فتنۂ نفاق کو اتنی اہمیت دی گئی کہ قرآن مجید میں۹؍ سورتوں میں اور تقریباََایک سو انیس آیات میں اس فتنہ کا ذکر ملتا ہے،اسی طرح صرف صحاح ستہ میں ۱۸۵؍ مقامات پر نفاق اور منافقین کا تذکرہ کیا گیا ہے، (بخاری میں: ۶۶؍بار ، مسلم میں: ۴۹؍ بار، ابو داؤد میں: ۱۲؍بار، ترمذی میں: ۲۶؍ بار،، نسائی اورابن ماجہ میں: ۱۶؍۱۶؍بار ) اگر نفاق ایک دائمی اور امت کے لیے نہایت سنگین فتنہ نہیں ہوتا اور عہد نبوی ہی کے لئے خاص ہوتا تو اس قدر تکرار اور تاکید کے ساتھ اس کا ذکر نہیں کیا گیا ہوتا۔
شریعت محمدی چوں کہ قیامت تک کے لئے ہے اور اس کائنات کو اپنے آخری انجام تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے زیر سایہ ہی زندگی کا سفر طے کرنا ہے؛ اس لئے اس امت میں مخلصین کی طرح منافقین بھی زیادہ پیدا ہوں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تو منافقین تھے ہی؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی منافقین کی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا، جس کی ایک واضح مثال عبداللہ بن سبا کی شکل میں ملتی ہے، جس نے اپنی سازشوں کے ذریعہ ایسا عظیم فتنہ کھڑا کیا، جس میں تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی، اور اسی سازش کے تسلسل کے نتیجے میں چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ بھی پیش آیا، صحابہ جو اس قدر شیر وشکر تھے کہ خود قرآن مجید نے ان کی باہمی محبت وروداری کی تصویر …. رحماء بینھم وأشداء علی الکفار (فتح:۲۹) کے الفاظ میں کھینچی ہے ،۔۔۔کے درمیان دو دو جنگیں ہو گئیں، اور خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ اور بنو ہاشم بلکہ خود بنو ہاشم میں بنو عباس اور علویین کے درمیان ایسا کارزار برپا ہوا کہ ہزاروں مسلمان شہید ہو گئے، لوگوں نے خود اپنے رشتہ داروں اور قرابت مندوں کو قتل کر کے اپنی تلوار کی پیاس بجھائی، اورجب تک تاتاریوں نے خود ان کو تہہ وبالا نہیں کر دیا، وہ آپس میں ایک دوسرے کی خون ریزی میں مبتلا رہے۔
نفاق ایسا فتنہ نہیں ہے، جو ایک زمانہ میں تھا اوراب ختم ہو گیا، قرآن مجید ابدی کتاب ہدایت ہے، اور جیسا کہ مذکور ہوا قرآن مجید نے فتنہ نفاق کو بہت زیادہ موضوع بحث بنایا ہے، اسی طرح حدیثوں میں بکثرت نفاق کا ذکر آیا ہے، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ فتنہ ہمیشہ باقی رہے گا، یہ ایسا فتنہ نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیاہو؛بلکہ ہر دور میں یہ فتنہ رہا ہے اور رہے گا، جب مسلمانوں کی قوت ایمانی پختہ رہی تو یہ فتنہ کمزور رہا اور جب مسلمان ضعف ایمانی کا شکار ہوگئے تو یہ فتنہ طاقت ور ہوگیا؛ اسی لئے بعض علماء نے اس فتنہ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس سلسلے میں ابو بکر جعفر بن محمد فریابی (متوفی: ۳۰۱) کی ’’کتاب صفۃ النفاق و ذم المنافقین ‘‘بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس پر شیخ ابو عبد الرحمٰن مصری نے شرح و تحقیق کا کام کیا ہے، اور یہ پہلی بار ۱۹۸۸ء میں شائع ہوئی ہے، اس کتاب میں نفاق اور منافقین سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور صحابہ کے آثار کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنے کو غیر معمولی اہمیت دی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے بعد مجھے تم لوگوں پر سب سے زیادہ اندیشہ چرب زبان منافقین سے ہے’’ إن أخوف ما أخاف علیکم بعدي کل منافق علیم اللسان‘‘ ( المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: ۵۹۳) یہ بات دیگر صحابہ کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے؛ بلکہ ابو عثمان مہدی نقل کرتے ہیں کہ میں نے اپنی اِن انگلیوں کی تعداد سے زیادہ دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی کہ مجھے اس امت پر سب سے زیادہ خوف صاحب علم اور دانش ور منافق کا ہے ’’ إنی أخوف ما أخاف علی ھذہ الأمۃ المنافق العلیم‘‘ ( کنزالعمال، حدیث نمبر: ۲۹۴۰۸) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ یہ دانش ور منافق کون ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو زبان و بیان سے تو خوب واقف ہوں؛ لیکن معرفت رکھنے والے دل سے اور عمل سے محروم ہوں، عالم اللسان جاھل القلب والعمل (حوالہ سابق)
یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ نفاق صرف ان لوگوں میں ہوگا جو کتاب و سنت سے بے خبر ہوں؛ بلکہ بڑے سے بڑا قاری بھی ان کی صف میں شامل ہو سکتا ہے، وہ بڑی سے بڑی مسجدوں کا اور دینی مراکز کا امام و قائد بھی ہو سکتا ہے، اس کی خوش الحانی اور قرأت قرآن پر قدرت کی وجہ سے یہ دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ بھلا ایسے شخص میں بھی نفاق کی علامت پائی جا سکتی ہے؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت میں زیادہ تر منافقین قراء میں سے ہوں گے: أکثر منافقي أمتي قراؤھا (مسند احمد عن عمر وبن العاص، حدیث نمبر: ۶۶۳۷) ’’ قرّاء ‘‘ میں قاری تو شامل ہیں ہی؛ لیکن قرن اول کی اصطلاح کے مطابق بڑے عالم کوبھی قاری کہا جاتا تھا۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خصوصی راز دار بنایا تھا، اور خصوصی طور پر منافقین کے بارے میں مطلع بھی فرمایا تھا، کہتے ہیں کہ لوگوں میں بہت اچھی قرأت کرنے والوں میں بھی منافق موجود ہوتا ہے، جو نہ واؤ کو چھوڑتا ہے، نہ الف کو، اور زبان کو اس طرح دائیں بائیں گھماتا ہے جیسے گائے اپنی زبان کو خلا میں گھماتی ہے:’’ إن من أقرأ الناس المنافق الذي لا یترک واواََ ولا ألفاََ یلفتہ کما تلفت البقرۃ الخلاء بلسانھا (صفۃ النفاق وذم المنافقین للفریابی، حدیث نمبر ۴۱،مصنف ابن شیبہ، حدیث نمبر:۸۷۳۶) اسی طرح بعض صحابہ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ منافقین دینداری کا لبادہ اوڑھ کر معاشرہ پر یہاں تک کہ دینی مجامع پر چھا جائیں گے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا کہ لوگ اپنی مسجدوں میں جمع ہوں گے اور ان میں ایک بھی صاحب ایمان نہیں ہوگا ’’ یأتي علی الناس زمان یجتمعون في مساجدھم لیس فیھم مؤمن ‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۳۰۳۵۵)
کچھ تو منافقین کی اخلاقی علامات ہیں، جن کا حدیث میں ذکر آیا ہے، جیسے: دروغ گوئی، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت ’’ إذا حدث کذب، وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: ۶۰۹۵) لیکن نفاق کی جو اصل حقیقت ہے، وہ یہ ہے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد ہو، وہ نام تو لیتا ہو اسلام کا؛ لیکن اس کے عمل سے کفر کی تائید ہوتی ہو ’’ المنافق یقول بما یعرف و یعمل بما ینکر‘‘ (بیہقی، حدیث نمبر: ۶۴۶۳)اس کی زبان اوردل کے درمیان، خفیہ عمل اور ظاہری عمل کے درمیان اور اندر اور باہر کے درمیان موافقت نہیں ہو ’’ من النفاق اختلاف اللسان و القلب و اختلاف السر و العلانیۃ و اختلاف الدخول و الخروج‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۳۵۶۴۲) اگر کوئی ظالم اوراسلام دشمن شخص کسی موقع پر مسلمانوں کے لئے تقویت اور اسلام کے لئے تائید و نصرت کا ذریعہ بن جائے تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے؛ اس لئے کہ بعض دفعہ یہ منافقین کی اپنی مصلحت ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے مطابق اس کا عمل مسلمانوں کے لئے تقویت کا باعث بن جاتا ہے، جیسا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فیؤید اللہ المؤمنین بقوۃ المنافقین (بیہقی، حدیث نمبر: ۱۷۸۷۵)
منافقین کے بارے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے یہ پیشین گوئی منقول ہے کہ قیامت کے قریب ہر قوم کی قیادت اہل نفاق کے ہاتھ میں آجائے گی ’’ لاتقوم الساعۃ حتیٰ یسود کل قوم منافقوھا‘‘ (المعجم الاوسط، حدیث نمبر: ۷۷۱۵) یہ تو امراء اور قائدین کا حال ہوا، دوسری طرف جو درباری علماء اور منصب دار ہوں گے ، وہ بھی ایسے اسلام دشمن قائدین کی ہاں میں ہاں ملائیں گے، ان کی تعریف کریں گے، انہیں یقین دلائیں گے کہ ان کا ہر فیصلہ درست ، ہر قدم مبارک اور ہر عمل عدل وانصاف کے مطابق ہے؛ البتہ جب ان کے پاس سے باہر آئیں گے اور کبھی ضمیر ملامت کرے گا، تو وہ ان حکمرانوں کو … جن کے وہ خود لقمہ خوار ہیں … برا بھلا کہیں گے، اور تنقید وتبصرہ کریں گے ’’ یمدحونہ و یسبونہ إذا خرجوا من عندہ (عن عبد اللہ ان عمر، مشیخۃ القاضی المارستان المعروف بمشیخۃ الکبری، حدیث نمبر: ۱۰۳)
یوں تو بدقسمتی سے خلافت راشدہ کے بعد ہی اسلام کا نظام طرز حکمرانی عملی طور پر ختم ہوگیا، اس پورے عرصہ میں خال خال ہمیں ایسے خدا ترس اور انصاف ور حکمراں مل جاتے ہیں کہ گویا لق و دق صحراء کی گرم طوفانی ہواؤں کے درمیان کہیں کہیں باد نسیم کا کوئی جھونکا آجائے؛ لیکن خلافت عثمانیہ کے سقوط تک عالم اسلام کی عمومی کیفیت یہ تھی کہ حکمراں بحیثیت مجموعی اسلام کے معاند نہیں ہوتے تھے، بھلے ہی ایک قبیلہ کی دوسرے قبیلہ سے یا ایک حکمراں کی دوسرے حکمراں سے جنگیں ہوتی تھیں، اور بعض دفعہ فاتحین مفتوحین کے ساتھ بڑی سفاکی کا معاملہ بھی کرتے تھے، یہاں تک کہ باپ کی بیٹے کی ،اور بھائی کی جان لے لیتے تھے؛ لیکن یہ قبائلی اور سیاسی عداوت ہوتی تھی، اسلام سے سبھوں کا تعلق ایمان و یقین کا اور محبت کا ہوتا تھا، عمومی طور پر ایسانہیں ہوتا تھا کہ مسلمان حکمراں یہودی اور نصرانی ایجنڈے کو اپنے ملک میں نافذ کریں، اور وہ اسلام ہی کو اپنے لیے سرمایۂ افتخار باور کر تے تھے۔
لیکن خلافت عثمانیہ کے سقوط کا واقعہ اس سے بالکل مختلف اند از میں پیش آیا، اس میں یہود و نصاریٰ نے عربوں اور ترکوں کی اندرونی صفوں میں اپنے پروردہ اور تربیت یافتہ منافقین کو داخل کر دیا، اس کام کو انہوں نے اتنے بہتر طریقہ پر انجام دیا کہ ’’ لارنس آف عربیہ‘‘ ( جس کا اصل نام ’’تھامس ایڈورڈ لارنس‘‘ تھا اور جو ایک بدترین اسلام دشمن سازشی ذہن کا انگریز تھا) عرب اس کو ایسے نجات دہندہ شخص کی طرح دیکھنے لگے، جیسے کوئی مرید اپنے شیخ کو یا کوئی سعادت مند شاگرد اپنے استاذ کو دیکھتا ہے، دوسری طرف اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا نے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ در حقیقت یہودی تھا اور جس نے ترکی کا رشتہ عالم اسلام اور ملت اسلامیہ سے کاٹ کر ترکی کے وقار کو سخت نقصان پہنچایا اور جو قوم پوری دنیا کے مسلمانوں کی قیادت کرتی تھی، یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی جمعہ کے خطبہ میں عثمانی خلفاء کا نام پڑھا جاتا تھا، اس کی سیاسی اور مذہبی قیادت کو ایک چھوٹے سے خطہ میں محدود کر کے رکھ دیا، ترک اسے اپنا نجات دہندہ اور ہیرو سمجھنے لگے ۔
اس کے بعد عالم اسلام پر ایسے لوگوں کے لئے گویا اقتدار کی راہ ہموار ہوگئی، جنہوں نے اپنی اسلام دشمنی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی، او ر وہ کھلے عام اعداء اسلام کے وکیل و ترجمان بن گئے؛ چنانچہ ترکی میں مصطفیٰ کمال کی حکومت قائم ہو گئی، مصر میں جمال عبد الناصر کی، عراق و شام مین بعث پارٹی کی، یہی حال لیبیا اور تیونس میں ہوا، غرض کہ عالم اسلام کے بڑے حصہ خاص کر مشرق وسطیٰ پر ایسے آمروں کو اقتدار پر فائز کیا گیا، جو صرف نام کے مسلمان تھے، یا کسی خاص مذہبی تہوار کے موقع پر مسجد یا عید گاہ آجاتے تھے؛ ورنہ اپنے دل ودماغ کے اعتبار سے پوری طرح یہودیوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے ساتھ تھے، اور زبان سے مصلحتاََ موقع بہ موقع اپنی مسلمانیت کا اظہار کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مین منافقین کے سلسلے میں ایک بنیادی بات یہ تھی کہ ان کی خصوصی محبت اور راز دارانہ تعلق یہودیوں کے ساتھ تھا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’واذا خلوا إلیٰ شیاطینھم قالوا إنا معکم (بقرہ: ۱۴) اس آیت میں مفسرین نے ’’شیاطین‘‘ سے اول درجہ پر یہود ہی کو مراد لیا ہے : ’’سادتھم و کبراء ہم و رؤساء ہم من أحبار الیہود‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
چنانچہ عہد نبوی کی تمام اہم جگہوں میں کہیں نہ کہیں یہودیا ان کے آلۂ کار منافقین کا ہاتھ ضرور نظر آتا ہے، غزوۂ بدر سے پہلے یہودی مکہ مکرمہ جاتے تھے، اور مشرکین مکہ کو حملہ کے لئے ورغلاتے تھے، غزوہ اُحد میں بھی منافقین عین میدان جنگ سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ میدان چھوڑ کر واپس آگئے، یہ وہ لوگ تھے جن کا یہودیوں کے ساتھ اندرونی تعلق تھا، اور اس غزوہ میں صحابہ کی شہادت پر یہودیوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا تھا، غزوہ خندق میں تو یہودیوں کا کردار اس قدر معاندانہ رہا اور انہوں نے کھلے طور پر معاہدہ کی خلاف ورزی کی کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت خاص شامل نہیں ہوتی تو پورا مدینہ ویران ہو کر رہ جاتا، پھر ان منافقین نے خود مہاجرین وانصار کو آپس میں لڑانے کی تھوڑی کوشش نہیں کی؛ اس لئے نفاق کو پرکھنے کا پیمانہ نام نہاد مسلمانوں کی اعداء اسلام بالخصوص یہودیوں سے دوستی ہے۔
پورے عالم عرب میں اگر کوئی ایسی حکومت تھی، جس سے مسلمانوں کی تسکین ہوتی تھی، تو وہ تھی مملکت سعودی عرب، اگرچہ اس کا قیام بھی انگریزوں ہی کے تعاون سے ہوا تھا؛ کیوں کہ جب خلافت عثمانیہ کے خلاف مکہ مکرمہ کے والی شریف مکہ حسین بن علی نے بغاوت کا جھنڈا بلند کیا تو اس سے برطانیہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس بغاوت کے انعام کے طور پر اس کو نجد و حجاز کے پورے خطہ کا حکمراں بنا دے گا؛ لیکن جب ترک فوجیں شکست سے دو چار ہوئیں اور اس غدار لیڈر نے فتح حاصل کی تو انگریزوں نے دریائے اردن کے کنارے ایک پٹی پر اسے بادشاہ بنا دیا، ’’جو مملکت ہاشمیہ اردن‘‘ کے نام سے موسوم ہے؛ لیکن ترکوں کی شکست کا مقصد پورا ہونے کے بعد حکومت برطانیہ کی نظر میں شریف مکہ کی کوئی افادیت نہیں رہی؛ اس لئے جب ملک عبد العزیز نے حجاز پر حملہ کیا تو برطانیہ نے شریف مکہ کی مدد نہیں کی، اور موجودہ پوری سعودی مملکت آل سعود کے زیر اقتدار آگئی، اس حکومت کے قائم ہونے میں چوں کہ شیخ محمد بن عبد الوہابؒ کا بھی ایک رول رہا ہے، اس کی وجہ سے ایک اچھا پہلو یہ پیدا ہوا کہ اگرچہ حکومت نے بعض چیزوں میں غلو اور افراط سے کام لیا؛ لیکن یہ بات طے کر دی کہ یہاں بننے والے تمام قوانین کتاب و سنت پر مبنی ہوں گے؛ اگرچہ سیاسی اور معاشی نظام کو کبھی بھی حکومت نے قانون شریعت کے سانچہ میں ڈھانے کی کوشش نہیں کی؛ پھر بھی زندگی کے دوسرے شعبوں میں یہاں تک کہ حدود و قصاص میں بھی قانون شریعت کو نافذ کیا گیا، یہ دوسرے مسلم ملکوں کے مقابلہ ایک غنیمت صورت حال تھی۔
سعودی حکومت نے حجاج اور معتمرین کی بھی دل کھول کر خدمت کی، اور ان کی راحت رسانی میں کوئی کوتاہی نہیں ہونے دی، اسی کا اثر ہے کہ برصغیر بلکہ پورے عالم کے اہل ایمان اس حکومت سے محبت کرتے رہے ہیں، حرمین شریفین کی تولیت کا اعزاز، حجاج و زائرین کی خدمت، دوسرے مسلم ملکوں کی بہ نسبت شریعت اسلامی کے زیادہ حصہ کا نفاذ اور پٹرول کی قدرتی دولت کے حاصل ہونے کے بعد روزگار کے مواقع، ان سب چیزوں نے مل جل کر اس حکومت کو مسلمانوں کے درمیان کافی قبولیت عطا کی ہے ؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شاہ فیصل شہید نے مغربی طاقتوں کے بالمقابل جس جرأت اور ایمانی حمیت کا ثبوت دیا، ان کے بعد ان کے جانشینوں میں کوئی بھی اس جرأت ایمانی کا وارث نہیں ہو سکا، پھر بھی شاہ خالد مرحوم ایک نیک صفت باشاہ تھے، شاہ فہد مرحوم کو مغرب کی طرف مائل حکمراں سمجھا جاتا تھا؛ لیکن بعد کو اندازہ ہوا کہ انہوں نے حکمت کے ساتھ مغرب کے دباؤ کو تھام رکھا تھا، ان کے بعد شاہ عبداللہ مرحوم آئے جو بہت کم تعلیم یافتہ حکمراں تھے، اور لوگوں میں تأثر تھا کہ یہ زیادہ دینی رجحان کی حامل شخصیت ہیں؛ مگر افسوس کہ جب تخت اقتدار پر متمکن ہوئے تو لوگوں کی ساری توقعات خاکستر ہوگئیں، اور ان کے گرد ایسے لوگوں کا ہالہ بن گیا، جو پوری طرح مغرب کے پرستار تھے، اور جن کے عہد حکومت میں وہ کچھ ہوا جو مغرب نواز سمجھے جانے والے حکمراں شاہ فہد کے دور میں بھی نہیں ہوا۔
شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد موجودہ بادشاہ ملک سلمان نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی؛ اگرچہ ان کی دماغی صحت کے بارے میں مغرب کے ایک حلقہ کی طرف سے سوالات کھڑے کئے جا رہے تھے؛ لیکن عمومی طور پر یہ رائے تھی کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، انہوں نے حکومت میں آتے ہی نہایت تیز رفتاری سے بہت سے فرمان جاری کئے، جن میں بعض بہتر بھی تھے، اور لوگوں کی امید بڑھی کہ اب گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی ہوگی ؛ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، بنو امیہ کے دور میں ہر نئے حکمراں کے آنے پر لوگ خوشی مناتے اور پچھلے حکمراں سے نجات پانے کا احساس رکھتے؛ لیکن جب نیا حکمراں آتا تو کہتے کہ اس سے بہتر تو پہلا ہی شخص تھا، وہی صورت حال اس وقت قریب قریب سبھی مسلم ملکوں کی ہوگئی ہے۔ (جاری)