عالم اسلام پر نفاق کے گہرے بادل (۲)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

بجا طور پر تمام مسلمان اس وقت سب سے زیادہ تشویش اپنے مقامات مقدسہ کے بارے میں محسوس کرتے ہیں، سعودی عرب مین کم سے کم ظاہری طور پر جو دینی رکھ رکھاؤ تھا، اب وہ بھی بہت تیز رفتاری سے ختم ہو رہا ہے، مخلوط تعلیم کی اجازت کا باب تو سابقہ حکومت کے دور میں کھل گیا تھا، اب مردوں اور عورتوں کے مخلوط تفریحی اجتماعات کی اجازت بھی دے دی گئی ہے، مملکت کی راجدھانی میں بڑے دھوم دھام سے اسلامی اور سعودی روایات کے برخلاف سنیما ہال کا افتتاح کیا گیا ہے، اور حکومت کی طرف سے اعلان ہو چکا ہے کہ پوری مملکت میں سنیما ہال کھولے جائیں گے، محمد بن سلمان نے خود بیان دیا ہے کہ وہابیت کو کسی مذہبی جذبے کے تحت قبول نہیں کیا گیا تھا، امریکہ کے اشارہ پر قبول کیا گیا تھا، اور وہابیت نے سعودی عرب کو بہت نقصان پہنچایاہے، مملکت کے گزشتہ بادشاہوں نے بڑی غلطیاں کی ہیں، اور سعودی عرب کی تاریخ ایسی تاریخ نہیں ہے جس پر فخر کیا جا سکے؛ بلکہ میرے لئے شرمندگی کا عث ہے، انہوں نے نیویارک ٹائمز کے صحافی تھامسن فریڈسن کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اصل اسلام کی ترویج چاہتے ہیں، اور کہا کہ نبی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں، مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کا بھی معمول تھا اور جزیرة العرب میں یہودو نصاریٰ کا احترام تھا ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ولی عہد کس قسم کے اسلام کی ترویج چاہتے ہیں ؟
مملکت میں متعدد تفریحی شہر ریاض کے مضافات اور شامی سرحد کے قریب بنائے جارہے ہیں، جو ہر طرح کی اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوں گے، ایک خبر یہ بھی آچکی ہے کہ فرانس کے دورے میں ۶۲اپریل ۸۱۰۲ءکو انہوں نے پوپ فرانسس کے ساتھ ایک ایسے معاہدہ پر دستخط کیاہے، جس کے تحت پورے سعودی عرب میں چرچ کھولنے کی بات طے پائی ہے، یہاں تک کہ اس معاہدہ میں حرمین شریفین کا بھی استثناءنہیں ہے، سعودیہ کی طرف سے تو غالباً اب تک اس کی تردید نہیں کی گئی ہے، مگر ویٹکن سیٹی کی طرف سے (۷اپریل ۸۱۰۲ئ)کو ایک وضاحت آئی ہے کہ سعودی ولی عہد سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے، خدا کرے یہ وضاحت سچا ئی پر مبنی ہو، غرض کہ مصر اور بیشتر عرب ممالک تو پہلے ہی سے مغرب کی آغوش شفقت میں بیٹھ چکے ہیں، سعودی عرب نے بھی پہلے ہی سے اپنا پورا دفاعی نظام امریکہ کے حوالہ کر رکھا ہے، اور پٹرول کے کنویں پر کویت، عراق جنگ کے موقع پر ہی امریکہ نے اپنا پنجہ گاڑ دیا تھا، اب فکری اور تہذیبی اعتبار سے بھی مملکت اپنے آپ کو مغرب کے حوالہ کر رہی ہے۔
اس پوری صورت حال میں سب سے نازک مسئلہ بیت المقدس کا ہے، مسجد اقصیٰ یہودیوں کے حوالہ کر دی جائے، اس کے لئے حالیہ برسوں میں مغربی طاقتوں کی شہہ پر بہت تیز رفتار قدم اُٹھائے گئے ہیں، سب سے پہلے ایک ظالم وجابر آمر نے–کہ اگر وہ اپنے ملک میں سچائی کے ساتھ انتخاب کرائے تو دس فیصد ووٹ بھی حاصل نہ کر پائے–مصر میں عوام کی منتخب حکومت جو” الاخوان المسلمون“کے زیر انتظام تھی، کو طاقت اور پیسے کے بل پر معزول کیا؛ تاکہ فلسطینیوں کا کوئی پُرسان حال باقی نہیں رہے، اور اسرائیل کے پڑوس میں کوئی ایسا ملک نہیں رہ پائے، جو اسرائیل کے عزائم میں رکاوٹ بن سکے، پھر نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ” حماس “کو –جو اسرائیل کے سخت مظالم کا شکار ہے اور جو اپنے ارض وطن کی آزادی کی جدوجہد کر رہا ہے– دہشت گرد قرار دے دیا گیا، پھر ” الاخوان المسلمون“ کو جس نے ہمیشہ قانون وآئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلامی اصولوں پر حکومت کے قیام کی کوشش کی ہے ، بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا، عجیب بات ہے کہ اسرائیل ۸۴۹۱ءسے دہشت گردی کا مسلسل مرتکب ہو رہا ہے، اور اس نے بار بار اقوام متحدہ کے فیصلے کی دھجیاں اڑائی ہیں، وہ تو دہشت گرد نہیں ہے، اور جس تنظیم نے کبھی دہشت گردی کا کوئی عمل نہیں کیا اور جمہوری طریقہ کار کو اختیار کیا، وہ دہشت گرد ہوگئی؛ حالاں کہ اصل مسئلہ اس آمرانہ سرکاری دہشت گردی کا ہے ، جس کے زیر سایہ عرب ممالک کے عوام مظلومیت اور مقہوریت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
اس وقت ” بیت المقدس“ کا مسئلہ ایک دوراہے پرہے، بجائے اس کے کہ خلیجی ممالک بالخصوص والی حرمین شریفین مطالبہ کرتے کہ اسرائیل ۷۶۹۱ءکی سرحدوں پر واپس جائے، صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا اور باضابطہ مغربی اخبارات میں ٹرمپ کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ ہم نے اس مسئلہ پر سعودی عرب ، مصر اوربعض دیگر خلیجی ملکوں سے گفتگو کر لی ہے، افسوس کہ ہمارے ان حکمرانوں کو یہ بھی توفیق نہیں ہو سکی کہ وہ اس اعلان کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرتے اور دو ٹوک انداز پر ٹرمپ کی تردید کرتے، ۴اپریل ۸۱۰۲ءکو سعودی عرب کے ولی عہد نے بیان دیا کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین پر قابض رہنے کا حق حاصل ہے، کاش !یہی بیان فلسطینیوں کے بارے میں آتا، یہاں تک کہ اب سعودیہ کی طرف سے فلسطینیوں پر دباو ¿ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے فارمولے کو قبول کر لیں؛ ورنہ انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، جب سعودی عرب نے ٹرمپ کی آمد پر مسلم ممالک کے سربراہان کو دعوت دی تو یہ اس طرح گرتے پڑتے ریاض پہنچے کہ گویا نہیں پہنچے تو دنیا وآخرت تباہ ہو جائے گی؛ لیکن ۴۱دسمبر ۷۱۰۲ ءکوجب ترکی نے بیت المقدس کے مسئلہ پر ورلڈ مسلم لیگ کا اجلاس طلب کیا تو سعودی عرب ، مصر اور عرب امارات وغیرہ نے اعلیٰ سطحی نمائندگی سے بھی گریز کیا اور کم درجے کے نمائندہ کو بھیجا، گویا ارادی طور پر مسجد اقصیٰ کے مسئلہ کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی، قرآن نے تویہودکو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے، اور اس دشمنی کو آج ہم شب وروز سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، مگران ہی سے بعض عرب ملکوں کی دوستی عروج پر ہے،اور اس کے برخلاف اپنے مسلمان ترک بھائیوں سے نفرت ہے، جنہوں نے پانچ سو سال سے زیادہ بیت المقدس کو بچا کر رکھا اور آخری خلیفہ نے یہودیوں کے فلسطین میں آباد ہونے کے مقابلہ اپنی معزولی کو ترجیح دی، محمد بن نائف کو بلا وجہ معزول کرنے کے بعد اخبارات میں خبریں آئیں کہ اسرائیل کے پندرہ جنگی جہاز ریاض میں اتر چکے ہیں، اور سعودیہ کی طرف سے اس کی کوئی تردید نہیں کی گئی، اور اب خبر آئی ہے کہ سعودیہ حج کے سارے انتظامات اسرائیلی کمپنی کے حوالہ کر رہا ہے، افسوس:
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے بیٹے سے دوا لیتے ہیں
حالات بتا رہے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا مسئلہ اس وقت نہایت نازک مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے،افسوس کہ ان سطور کے لکھے جانے کے دوران ہی ۴۱ مئی ۸۱۰۲ءکو فرعونِ وقت ٹرمپ کے فیصلہ کے مطابق امریکہ کا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل ہوچکا اور اس کے خلاف احتجاج کے دوران بڑی تعداد میں فلسطینی شہید ہوئے؛ لیکن سوائے ترکی کے کسی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ امریکہ کے اس ایک طرفہ اور ظالمانہ اقدام پر امریکہ سے اپنے سفیر کو واپس طلب کر لے، ترکی نے اسرائیل سے تو اپنا سفیر واپس بلایا ہی امریکہ سے بھی اپنے سفیر کو واپس طلب کرلیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ طیب اردگان کو جس قدر خراج محبت پیش کیا جائے کم ہے اور عالم اسلام کی بزدلی ،بے حمیتی اور غیرت اسلامی سے محرومی پر جس قدر رویا جائے کم ہے۔
افسوس صد افسوس کہ فلسطین کے پڑوسی مسلم ممالک نہ صرف یہ کہ مسجد اقصی کے تحفظ کے لئے کچھ نہیں چاہتے؛ بلکہ جو فلسطینی مزاحمت کر رہے ہیں، ان پر بھی دباو ¿ ڈال رہے ہیں؛بلکہ کچھ عرصہ پہلے ایک خفیہ پلان بھی منظر عام پر آچکا ہے، معلوم نہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ کہ اسرائیل حماس پر حملہ آور ہوگا، اور جب ان کو غزہ چھوڑنا پڑے گاتو مصری فوج ان کو بھگا کر سینا کے بے آب وگیاہ صحراءمیں لے جائے گی، وہاں ان کو آباد کیا جائے گا، اور ان کی آباد کاری کے لئے سعودی عرب اور بعض خلیجی ممالک فائنانس کریں گے؛ تاکہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے، اور اسرائیل پورے خطہ پر قابض ہو جائے، ظاہر ہے اس کے بعد کی منزل مسجد اقصیٰ کا انہدام ہے، جس میں اسرائیل کے لئے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی، خدا نہ کرے کہ یہ سازش کبھی پایہ ¿ تکمیل کو پہنچے اور ملت اسلامیہ کی آنکھیں ایسا برا وقت دیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔
اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ عالم اسلام میں سوائے ترکی کے ،نیز عالم عر ب اور خلیج میں سوائے قطر کے اکثر ممالک اس بڑی منافقانہ سازش کو قبول کر چکے ہیں، اور مسلم حکمراں ایک ایسے نفاق میں مبتلا ہیں، جو اَب خفیہ راز نہیں رہا، حکمرانوں کے علاوہ اگر کوئی اس کے خلاف آواز اُٹھا سکتا تھا تو وہ علماءتھے؛ لیکن ان جیسے ممالک میں علماءربانیین کی ایک بڑی جماعت کو جیل کی کوٹھری میں ڈال دیا گیا ہے، اور وہ ناقابل بیان مظالم کے شکار ہیں، کچھ وہ اہل علم ہیں جو اس صورت حال سے اپنے دل میں ضرور کسک محسوس کرتے ہیں اور ان کا ضمیر ان کو ملامت کرتا ہے؛ لیکن وہ واقعی مجبور ہیں، اس لیے انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ، بہر حال انہیں معذور سمجھنا چاہئے، لیکن علماءوائمہ مساجد کا ایک گروہ ایسا بھی ہے، جنہیں پیسوں کے ذریعہ حکومتوں نے خرید کر لیا ہے، اگر وہ سکوت اختیار کرتے تب بھی سمجھا جاتا کہ یہ ان کی مجبوری ہے؛ لیکن اس سے آگے بڑھ کر وہ حکومت کے ہر خلاف شریعت عمل پر مہر تصویب ثبت کرتے جاتے ہیں، مصر کے سابق اور موجودہ مفتی اعظم کا حال پوری دنیا کے مسلمانوں نے دیکھا کہ انہوں نے کس طرح الاخوان المسلمون کے غیرت مند اور با حمیت مسلمانوں کی خون ریزی کو جائز ٹھہرایا، اور مصر کے دستور سے اس دفعہ کے حذف کرنے کو قبول کر لیا، جس کی رو سے دستور کی بنیاد کتاب وسنت کو قرار دیا گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں علماءاور عام مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے، او ر اس سوال کا تعلق مسلمانوں میں سے کچھ افراد سے ، کسی خاص جماعت سے، کسی خاص گروہ اور تنظیم سے نیز کسی خاص خطہ اور علاقہ کے رہنے والوں سے نہیں ہے؛ بلکہ پوری ملت اسلامیہ سے ہے، تو آئیے ہم غور کریں کہ موجودہ حالات میں مقامات مقدسہ اور بالخصوص مسجد اقصیٰ کی حرمت کی بقا کی لئے ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں:
۱۔ ہم چوں کہ بیت المقدس اور حرمین شریفین سے بڑے فاصلہ پر ہیں؛ اس لئے ہم براہ راست اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد نہیں کر سکتے؛ لیکن ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ اپنا احتجاج درج کرائیں، اور مسلم ممالک بالخصوص سعودی عرب، مصر، عرب امارات، اردن اور شام کے سفارت خانوں تک اپنا احتجاجی نوٹ پہونچائیں کہ وہ ۷۶۹۱ءمیں اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں پر ہرگز اسرائیل کے قبضہ کو تسلیم نہیں کریں اور جب تک اسرائیل اس کو تسلیم نہیں کرے، اس سے ہر طرح کے تعلقات منقطع رکھیں اور اگر ہیں تو منقطع کرلیں۔
۲۔ اختلاف مسلک ومشرب سے بالاتر ہو کر تمام دینی جماعتیں اور اہم ادارے جیسے جمعیة علماءہند، جماعت اسلامی ہند، جمعیة اہل حدیث، دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوة العلمائ، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعة الفلاح اعظم گڑھ وغیرہ تمام مسلم ملکوں سے اور خاص کر مذکورہ ملکوں سے مطالبہ کریں کہ وہ امریکہ واسرائیل کے سامنے سر نہ جھکائیں، اور اللہ پر بھروسہ کر کے پوری قوت کے ساتھ مزاحمت کریں، حماس کو دہشت گرد تنظیم ماننے سے انکار کردیں، اور اسرائیل کو دہشت گرد قرار دیں۔
۳۔ خاص طور پر سعودی عرب کے سامنے یہ بات رکھی جائے کہ موجودہ ولی عہد نے جو راستہ اختیار کیا ہے، یہ صریحاََ اسلام مخالف ہے، یہ سعودی روایات کے بھی خلاف ہے، یہ خود اس ملک کے دستور کے بھی مغائر ہے، جس میں کتاب وسنت کو ملک کے لئے دستور کا درجہ دیا گیاہے، یہ حرمین شریفین کی تولیت کے عظیم منصب کے لئے مطلوبہ اوصاف واقدار کے برعکس ہے اور یہ مغرب نواز پالیسی، دینی، معاشی، اخلاقی اور دفاعی ہر پہلو سے خود مملکت کے لئے نقصاندہ ہے، نیز یہ ملک اور شاہی خاندان کے اندر بھی ایک بڑے انتشار کا سبب ثابت ہو سکتا ہے؛ اس لئے وہ اس نئی پالیسی سے باز آجائیں اور اپنے اُس مقام ومرتبہ کا لحاظ کریں، جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نسبت سے ان کو عطا کیا ہے۔
۴۔ اس وقت مسئلہ فلسطین مخلصین اور منافقین کو پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودونصاریٰ کو حرم مکی سے بغض تھا؛ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو قدرت کے باوجود حج نہ کرے تو مجھے اس سے غرض نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہوکر ،(ترمذی، حدیث نمبر: ۲۱۸)یعنی اس وقت کعبة اللہ سے محبت اخلاص کے لئے معیار تھا، موجودہ دور میں یہودونصاریٰ کو مسلمانوں سے سب سے زیادہ بغض اس بات سے ہے کہ وہ انبیاءبنی اسرائیل کے مرکز بیت المقدس پر کیوں قابض ہیں؛ اس لئے اس وقت جو شخص یا جو حکومت مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرتی ہے، اور یہودیوں کے ہاتھ اس کا سودا کرنے کو تیار ہے، وہ اس دور کے منافقین ہیں؛ اس لئے ایسے ملکوں کے سرکاری عہدہ داروں اور سرکاری مولویوں کو اداروں اور تنظیموں میں مدعو کرنے سے گریز کیا جائے، اسی طرح اگر اعداءاسلام کی ہم نوا ان ظالم حکومتوں کی طرف سے کوئی دعوت آئے تو اسے قبول نہیں کیا جائے، اور صاف طور پر لکھا جائے کہ مسئلہ فلسطین میں آپ کی مسلمان مخالف پالیسی کی وجہ سے ہم لوگ اس دعوت کو رد کررہے ہیں۔
۵۔ فلسطین کا سودا کرنے میں جن ملکوں کا نام سامنے آ رہا ہے، دینی کاموں کے لئے نہ ان سے عطیہ مانگا جائے اور نہ ان کا عطیہ قبول کیا جائے؛ کیوں کہ ایسے ممالک مسجدیں اور عمارتیں بنوا کر یا تھوڑی بہت رقمی امداد کر کے اپنے حقیقی مکروہ چہرے کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔
۶۔ اسرائیل اور اسرائیل نواز امریکی کمپنیوں کا مستقل طور پر بائیکاٹ کیا جائے، یہ نہ سوچا جائے کہ ہمارے سامان نہ خریدنے سے کمپنی تو بند نہیں ہوگی، پھر اس کا کیا فائدہ؟؛ بلکہ اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ ہمیں یہ کام ایک دینی فریضہ کے طور پر کرنا ہے، بلاسے کہ ہمارے اس عمل سے دشمن کو خاطر خواہ نقصان نہ پہنچے؛ لیکن ہم عند اللہ ظالم کی حمایت کے گناہ سے تو بچیں گے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ظالموں سے تمہارا تعلق نہیں ہونا چاہئے،( لاترکنوا الی الذین ظلموا ، ھود: ۳۱۱)
۷۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان ۷۶۹۱ءکے پہلے کی طرح زیادہ سے زیادہ مسجد اقصیٰ کی زیارت کا شرف حاصل کریں، اور بیت المقدس کے سفر کا اہتمام کریں؛ تاکہ ظاہر ہو کہ مسلمانوں کو اس مسجد سے اب تک ویسا ہی تعلق ہے، جیسا تعلق پہلے تھا۔
۸۔ مسجد اقصیٰ کے موضوع پر زیادہ سے زیادہ جلسے کئے جائیں، جمعہ کے بیانات میں ،مدارس اسلامیہ کے سالانہ جلسوں میں، مسلم جماعتوں اور تنظیموں کے پروگراموں میں اس موضوع کو پیش کیا جائے، مضامین کے ذریعہ یہودیوں کی قتل وغارت گری، ظلم وبربریت اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کو خوب واضح کیا جائے، برادران وطن کے ساتھ مل کر مسئلہ فلسطین پر سیمینار رکھے جائیں، اور اس میں زبانی بیانات، تحریری دستاویزات اور تصویروں کے ذریعہ فلسطینیوں کی مظلومیت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے۔
۹۔ اس وقت ہمارے دینی مدارس میں تاریخ کا مضمون گویا پڑھایا ہی نہیں جاتا؛ لیکن کم سے کم سیرت نبویﷺ کے ساتھ مقامات مقدسہ کی تاریخ کو شاملِ نصاب کیا جائے ؛تاکہ آنے والی نسل کا اپنے مقدس مقامات سے محبت و اعتقاد کا رشتہ بغیر کسی کمی کے قائم رہے۔
۰۱۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ مسئلہ فلسطین کی اہمیت،مغرب کی دوہری پالیسی اوراس سلسلے میں موجودہ مسلم حکمرانوں کی کوتاہی کو ہر ہر مسلمان تک پہنچایا جائے، اور اس کو پُر امن اور مہذب احتجاج کا ذریعہ بنایا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم کسی برائی کو دیکھو تو قوت سے بدلنے کی کوشش کرو، قوت صرف ہتھیار ہی کی نہیں ہوتی، قانون کی بھی ہوتی ہے، اور جمہوری معاشرے میں اتحادو اجتماعیت کی بھی ہوتی ہے، اگر قوت کا استعمال ممکن نہ ہو توزبان سے روکنا ضروری ہے، آج کل پُرامن احتجاج کی جو صورتیں اختیار کی جاتی ہیں، یا جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، یہ سب زبان ہی سے روکنے کے زمرہ میں آتے ہیں، اور اگر زبان سے بھی کہنا ممکن نہ ہو تو انسان دل میں کڑھن محسوس کرے، یہ ایمان کا بالکل آخری درجہ ہے، (مسلم، حدیث نمبر: ۹۴) اب اگر کوئی شخص حکمرانوں کے روبرو کچھ بول نہ سکے، دل کی کڑھن کے ساتھ خاموشی اختیار کر لے تو وہ ایمان کے آخری درجہ میں ہے، اگر کڑہن محسوس کرنے کے بجائے وہ خوشامد اور چاپلوسی کرنے لگے، جیسا کہ اس وقت عالم اسلام کے بعض علماءوارباب افتاءکا حال ہے تو گویا وہ ایمان کے اس آخری درجہ سے بھی محروم ہے، جہاں تک ہندوستان کی بات ہے توعالم اسلام اور مقامات مقدسہ کے بارے میں اس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے؛ چنانچہ ہندوستان کے علماءاور اکابر نے خلافت عثمانیہ کے سقوط کے وقت خاموشی اختیار نہیں کی اور یہ نہیں سوچا کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے، یہ پرایا مسئلہ ہے؛ بلکہ اس وقت کے متحدہ ہندوستان میں اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا، اور خلافت تحریک وجود میں آئی، ملت کے ذمہ داروں کے لئے لمحہء فکرہے کہ اگر اسلامی اقدار کے خلاف کھلے ہوئے عناد، یہودونصاریٰ کی دوستی اور مقامات مقدسہ کے احترام کی پامالی پر بھی ہماری رگ حمیت نہیں پھڑکے اور ہماری دینی غیرت کو جوش نہیں آئے تو پھر کون سا وقت ہوگا جب ہم اللہ سے کئے ہوئے اس وعدہ کو پورا کر سکیں گے کہ ہم نے اپنے پورے وجود کو خدا کے ہاتھوں بیچ دیا ہے،(توبہ: ۱۱۱) اور یہ کہ ہمارا کچھ نہیں ہے، ہم اللہ اور صرف اللہ کے لئے ہیں: إن صلاتی ¸ ونسکی ¸ ومحیای¸ ومماتی ¸ للہ رب العالمین (انعام:۲۶۱)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں