ام ھشام
اس دنیا کی بیش قیمت چیزوں میں سے ایک ہے ,نئی “سوچ اور آئیڈیا ” اگر آپ کے پاس دنیا کےکسی کام آجانے یا انکی علمی و تفریحی اور نفسیاتی معاملات سے متعلق کوئی اچھوتا پلان ہے تو پھر آپ کی یہ سوچ خود بخود لوگوں کے دل ودماغ پر حکومت کرنے لگے گی-
لوگوں کے شعور میں یہ بات پکی ہوجائیگی کہ آپ کے اس نئے منصوبہ اور آئیڈیا کے سامنے پرانی سبھی ترکیبیں بے اثر ہیں یہی انکے لئے اول وآخر علاج ہے
بس !!پھر کیا ہے اگر آپ اس پہلے محاذ پر کامیاب ہوگئے تو بالیقین درجہ بدرجہ بقیہ مراحل خود بخود طے ہوجائیں گے –
اور آپ دیکھیں گے کہ آپکے اسی خیال کو آپ کے گمان سے بھی زیادہ پذیرائی ملے گی ,ممکن ہے رفتہ رفتہ اس کے بعد ایک بھیڑچال لگنی بھی شروع ہوجائے جیسا کہ عمومی طور پر لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا آیا ہے پھر ہر خاص وعام آپکے اس آئیڈیے کو اپنی زندگی کی اولین ترین ضرورت سمجھ بیٹھے گا اس قدر اور اتنا کہ اس کے بنا ان کا گذراہ ہی نہیں ہوسکتا –
جیسے آج ایک انسان کے لئے روٹی ,کپڑا,مکان کی بنیادی ضرورت کے ساتھ , دنیا بھر کے رابطے ,ضابطے اور اس کی ہنگامہ آرائیوں سے جڑے رہنے کے لئے انٹرنیٹ کا استعمال کرنا اس کی زندگی کا ایک بڑا وجود بن چکا ہے-
اس کی سب سےواضح مثال ہم فیس بک کو سمجھتے ہیں کہ چند سال پہلے یہ “فیس بک ” بھی تو محض ایک سوچ ہی تھی وہ بھی ایک مارک زکربرگ نامی طالب علم کی …پھراس سوچ کا نتیجہ اتنے بڑے پیمانے پر دنیا کے سامنے آئیگا یہ بات کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھی –
آج صورتحال وہاں جا پہنچی ہے کہ فیسبک استعمال کرنے والے تقریباایک ارب لوگ ان لوگوں کو جاہل ,گنوار اور اجڈ سمجھتے ہیں جو اس خیال سے جڑے ہوے نہیں ہیں یا اسے استعمال نہیں کررہے ,ایسے لوگوں کو دقیانوسی ,دنیا سے کٹا ہو سمجھا جارہا ہے –
بہر حال ایسی بہت سی مثالیں آج ہمارے گرد ہیں جوکسی کے انوکھے خیالات اور آئیڈئے کی بدولت وجود میں آئیں لیکن اب وہ انسانی زندگی کا اہم جزء بن چکی ہیں, انہی میں سے ایک” ٹیوشن اور کلاسز ” سسٹم ہے –
دراصل ٹیوشن ایک ایسی پبلک سروس ہے جسے آج ہر خاص وعام مجبورا یا شوقیا لینے پر مامور ہے –
ٹیوشن کلاسز کامعاملہ یہ ہیکہ اسکول میں چھ گھنٹے پڑھائی کے بعد بھی مزید دو چار گھنٹے بچے کوپڑھائی کرنی ہوتی ہے ,تب کہیں جاکر بچہ سبق کو سمجھ پاتاہے –
بچے پڑھائی میں خواہ کتنے بھی اچھے ہوں بغیر ٹیوشن, کلاسز کے انکی کارکردگی ناقص سمجھی جاتی ہے اسلئے مزید بہتری کے لئے بچے کا اسکول کے ساتھ ٹیوشن جانا لازمی تسلیم کرلیا گیا یے –
اس کی ضرورت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک تین سالہ بچہ کیلیے جب والدین اس کے لئے نرسری اسکول کا فارم بھرتے ہیں تو ساتھ ہی اسکے لیےایک عدد ٹیوشن بھی تلاش کرتے ہیں تاکہ بچہ شروع سے اپنی پڑھائی کے لئے چاق و چوبند اور محنتی بنے ہو-
اور پھر کاپی ,کتاب اور بستوں کے بوجھ کے ساتھ تعلیمی دن کے روز اول سے ہی معصوم بچہ اسکول اور ٹیوشن کے میدان کارازار میں ناقابل فھہم زبانوں کا بوجھ اٹھایے لہولہان ہوتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ اسکی تعلیم مکمل کرکے” کچھ “بن جانے تک جاری رہتا ہے –
ٹیوشن پڑھنا آج علم حاصل کرنے والوں کی ناگزیر ضرورت بن گئ ہے لیکن اضافی بوجھ کی مانند ایک جبر مسلسل کی طرح یہ بچوں اور جوانوں پر مسلط کردی گی ہے,جسے سہتے سہتے طلباءاسکے عادی بن گئے ہیں-
لیکن فکر انگیز بات تویہ ہیکہ ٹیوشن جیسا بارگراں وجود میں آیا کیسے ………
کیا صرف یہ ایک سوچ تھی جس پر بہت سے دل ودماغ متفق ہوگئے, راضی بخوشی اتفاق کرلیا ……..
یا ہمارے تعلیمی اداروں کی کمی و کوتاہی کی انتہاء نے تعلیمی سطح پر ٹیوشن جیسی دوسری انتہاء کو جنم دیا……..
یہاں ہمارا جواب یہ ہیکہ دونوں محرکات اپنی جگہ درست ہیں …ٹیوشن ایک سوچ تھی جو کمزور اور غبی بچوں کیلیے وجود میں آئی تھی لیکن پرائیویٹ اسکولوں نے اس سوچ کو اپنے مادی فائدہ کے لیے طلباء کے ذہن میں اسقدر راسخ کردیا کہ اس سوچ نے آہستہ آہستہ طلباء کی نصابی اور غیر نصابی تمام صحتمند سرگرمیوں کو نگل لیا ,اساتذہ کی مخلصانہ اور جانفشانہ, محنت و مشقت کو بھی گھن لگادیاہے -پیسے, وقت اور محنت کا ضیاع ہی ضیاع ہے
مگر پھر بھی وہ تسلی بخش نتائج حاصل نہیں ہوپارہے جسکی توقع زمینی سطح پرٹیوشن کی خدمات سے کی گئ تھی -بچے ٹیوشن کی بدولت آج کامیاب تو ہوجارہے ہیں لیکن ان کے اندر حقیقی قابلیت ندارد ہے-تعلیمی روح عنقاءہے –
وہ شاندار امتیازی نمبروں سے کامیاب تو ہوجارہے ہیں لیکن اپنے نصاب کا ایک فیصد مواد بھی انکے حافظے میں باقی نہیں رہ پاتا –
کیونکہ کلاسز کا مقصد محض رٹ رٹاکر نمبر کھینچنا تھاجو رزلٹ آتے ہی پورا بھی ہوجاتا ہے لیکن ان سب کے بیچ نقصان تعلیم کے اصل مقصد کا ہوتا ہے نمبرات کے ڈھیر میں بچے کی صلاحیت , اس کی تعلیمی زرخیزی, محنت کا جذبہ اور حوصلہ ٹیوشن کلاسز کی گدھا مزدوری میں بنجر ہوکر رہ جاتی ہے,
ایسی ناقص کامیابیوں کا خمیازہ پھر ہمارا معاشرہ بھگتتا ہے-
ناقص تعلیم وتربیت کے سانچے پر ڈھلےبیشمار کاہل , کرپٹ , اور غیر ذمہ دار قسم کے افراد کی ایک کھیپ تیار ملتی ہے- تعلیمی ڈھانچہ کی کمزوری کے سبب پھر ضمیر فروش ڈاکٹر , انجینئر , وکیل ,سرکاری ایڈمنسٹر و ڈایریکٹر,
,سیاستداں, یا کبھی ٹیچر بنکر ہمارے سامنے آتے ہیں اور معاشرے کی سماجی اور معاشی اقدار کو کھوکھلا کرتے ہیں –
خرد کا نام جنوں رکھ دیا ,جنوں کا خرد
آج کے اس مسابقاتی دور میں ٹیوشن نہ پڑھنے والے بچے کو قابل اور محنت کش سمجھنے کی بجائےغریب تسلیم کرلیا جاتا ہے کیونکہ آج اسکول کے بہتر ہونے کا معیار کامیاب ہونے والے طلباء کی تعداد کی بجائے اسکول کی لمبی چوڑی فیس کو سمجھا جارہا ہے لہذا جو بچہ اسکول کے ساتھ کلاسز کی لمبی چوڑی فیس بآسانی افورڈ کرسکتا ہو وہی دراصل مقدر کا سکندر کہلاتا ہے
سچ تو یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں ٹیوشنز ,کلاسز کے دھندے کی آبیاری میں ہمارے اسکولوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے –
ٹیوشن کے پھلتے پھولتے کاروبار کے پیچھے کونسے اسباب و عوامل کارفرما ہیں آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں-
(۱) ایک جماعت میں بچوں کی ضرورت سے زیادہ بھیڑ , انکی عدم نگہبانی و تربیت کیوجہ سے سو میں سے ستر بچے دوران جماعت پڑھائی گئ چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں – بھیڑ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ معلم ہر ایک بچے پرانفرادی دھیان نہیں دے پاتا- جسکی وجہ سے بچے اسکول کے بعد پرسنل ٹیوشن یا کلاسز کا رخ کرتے ہیں –
(۲)اساتذہ کی اپنی کوتاہی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے بھی بچے درسی اسباق کو سمجھ نہیں پاتے جبکہ بات ایسی نہیں ہے کہ اب اساتذہ قابل نہیں رہے – لیکن ایک پوری زنجیر ہےجس کی کڑی کڑی اس تعلیمی نظام کے بگاڑ کا شکار ہےاسلئے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ کمزور کڑی کونسی ہے –
,اساتذہ پر ادارہ کی جانب سے پورشن (نصاب) ختم کرنے کا دباو ہوتا ہے جسکی وجہ سے اساتذہ اسباق کو برق رفتاری سے پڑھانا شروع کرتےہیں نتیجہ یہ ہوتا ہیکہ سبھی بچوں کی ذہنی استعداد ایک جیسی نہ ہونے کے سبب پھر وہ ٹیوشن کا رخ کرکے اس کمی کو پورا کرتے ہیں – ورنہ غور کرنےوالی بات ہےکہ بچہ اسکول میں چھ گھنٹہ گزارتا ہے جبکہ ٹیوشن میں صرف دو گھنٹہ تو وہ کونسی طلسماتی گولی ہے جو ٹیوشن والے کھلاتے ہیں اور اسکول والے اس سے محروم ہیں….
(۳)یہ بات بھی غور طلب ہیکہ بچوں کو ٹیوشن کی ضرورت کن مضامین میں پڑتی ہے زیادہ تر یہ وہی سبجیکٹس ہوتے ہیں جو ہماری مادری زبان میں نہیں ہوتے اور جب پورا میڈیم ہی غیر مادری ہو تب تو معاملہ کی سنگینی کااندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے -بچوں کو نفس مضمون سمجھ نہیں آتا جسکی وجہ سے وہ پریشان ہوکر کوچنگ کلاسز کا رخ کرتے ہیں –
(۴) آج جس طرح دوسری چیزوں کی قدریں انسانی معاشرے میں گھٹ گی ہیں ویسے ہی درس وتدریس اور تعلیم وتعلم کے اندربھی شدید قسم کا بحران آیا ہوا ہے بچے اپنی عقل ,توانائی وقت کا دس فیصد بھی استعمال نہیں کرتے – جس کی وجہ سے وہ دوران کلاس اس جذبہ سے مفقود ہوتے ہیں جو ایک طالب علم کے اندر درسگاہ میں ہونا چاہیے – نوے فیصد بچے اسکول میں صرف اس لیے غائب دماغی سے حاضر ہوتے ہیں کہ وہ اسکول کی چھ گھنٹہ کی پڑھائی کو ٹیوشن کی گھنٹہ دو گھنٹہ کلاس میں سیکھ لیں گے –
(۵) اکثر والدین ناخواندہ ہوتے ہیں ایک دوسرے کی دیکھی دیکھا جب ایسے والدین اپنے بچوں کو انگلش میڈیم میں داخل کرواتے ہیں تب انہیں ایک عدد ٹیچر کی ضرورت ہوتی ہے جو انکے بچے کی سیلف اسٹڈی کی ضرورت کو پورا کرسکے, اور گھر پر بھی انکے بچے کو انگریزی کی خوراک مل سکے – لیکن ٹہریے!!! بات یہیں ختم نہیں ہوتی , آجکل اسکول ,بچے اور والدین کے بیچ جو گھمسان کا رن ہے وہ ہے”نمبرکا وار ” (NUMBER WAR ) کیا ناخواندہ کیا تعلیم یافتہ- کیا غریب کیا امیر, متوسط طبقہ ہو یااشراف کا طبقہ سبھی زیادہ نمبرات اور پوزیشن کیلیے ٹیوشن کی طرف ہی دوڑ لگاتےہیں – ہر قیمت پر بچے کی ہوزیشن لانے کی ایک خطرناک دوڑ لگی ہوئی ہے –
فوائد و نقصانات :
بظاہر اسکے چند ایک فائدے ہیں لیکن نقصانات زیادہ ہیں جبکہ فوائد انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں –
(۱) اس کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہیکہ اگر آپ پڑھے لکھے نہیں ہیں تو ایک اچھا ٹیوٹرآپکے بچوں کی تعلیم وتربیت میں آپکی مدد کرسکتاہے ,اگر آپ کسی سبجیکٹ میں کمزور ہیں تو ٹیوشن جاکر اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں-
(۲) چھوٹے ٹیوشن کے بمقابلہ بڑے کلاسز یا ٹیوشن سینٹرز میں سند یافتہ ,قابل و ماہر اساتذہ کا تعیین کیا جاتا ہے جو اپنے علمی تجربات سے بچوں کو فیضیاب کرتے ہیں – ماہرین تعلیم کے ذریعے تیار شدہ نوٹس بچوں میں فراہم کیے جاتے ہیں جو بچوں کے نصابی سرگرمی میں معاون ہوتی ہے –
فیلو اسٹوڈنٹ : مختلف جگہوں کے مختلف طلباء کا اجتماع اور ملاپ جس سے بچوں کے اندر ایک تعلیمی بیداری برقرار رہتی ہے گاہے بگاہے پتہ چلتا رہتا ہے کہ کس مضمون کے متعلق کون سی نئ تحقیقات اور نئ ریسرچ دستیاب ہورہی ہیں -مختلف اساتذہ کے مجرب تعلیمی طریقوں کو طلباء باہم مذاکرہ کرتے ہیں-
(۴) ٹیوشن کلاسز آپکے یاد کرنے کی اسپرٹ میں خاطر خواہ اضافہ پیدا کرسکتے ہیں -اور آپکے یاد کرنے کی صلاحیت کو ابھار یا بڑھاسکتے ہیں –
اسکے علاوہ مجھے اور کوئی خوبی نظر نہیں آتی – جبکہ ان گنت نقصانات ہیں جنکا احاطہ نہیں کیا جاسکتا-
جب سے ٹیوشن سسٹم کا آغاز ہو اہے تب سے اساتذہ نے جماعت میں خلوص دل سے پڑھانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے جو باتیں وہ نہیں سمجھا پارہے ان باتوں کو کلاسز والے ان بچوں کو رٹادیں گے اور پھر یہی بچے سو میں سے سو لائیں گے اس طرح بغیر کسی محنت کے اساتذہ اور اسکولوں کا نام بڑے بڑے ہورڈنگ بورڈ پر سج جاتا ہے
ٹیوشن پر منحصر ہونے کی وجہ سے بچے سست , کاہل بن چکے ہیں اس انحصار کی وجہ سے کلاس میں انکا دھیان کم ہوتا ہے یا بالکل ہی غایب ہوتا ہے جسکی وجہ سے وہ اپنی تعلیم سے خاطر خواہ انصاف نہیں کرپاتے – ایسے بچے رٹ رٹآ کر کسی طرح پاس تو ہوجاتے ہیں یا پھر ننانوے فیصد سے کامیاب تو ہوجاتے ہیں لیکن تعلیمی روح پر اسکا بہت برا اثر پڑتا ہے –
ٹیوشن کلاسز نے طالب علموں کیلیے جس ایک بڑے سنگین اور مہلک عمل کو جنم دیا ہے وہ ہے “رٹا سسٹم” ,,,انگریزی زبان کی کتابیں اور انکے مشکل اسباق کی مہم کو سر کرنے کیلیے ہی ان کوچنگ کلاسز نے جنم لیا ہے –
آپ بغور اپنے آس پاس کا مشاھدہ کریں تو آپ پائیں گے کہ اردو میڈیم یا عربی میڈیم (مدارس )کے طلباء میں ٹیوشن کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے -جبکہ اس کے برعکس انگلش میڈیم بچوں کیلیے نرسری سے لیکر گریجویشن تک ٹیوشن لازمی ہے چونکہ ایسے طلبہ کو نفس مضمون کا فہم حاصل نہیں ہوپاتا اسلیے انہیں رٹا لگانا پڑتا ہے -اور ظاہر ہے جس عبارت کے الفاظ ,فقرےاور انمیں چھپے ہوئےتصورات سمجھ نہ آئیں تو انہیں ذہن نشین کرنے کو طالب علم کو رٹے کے عذاب سے گزرنا ہی پڑیگا جبکہ رٹّہ طالب علم کے اندر تعلیم اور اسکےاصل جوہر “جہد مسلسل “سے بیزاری پیدا کرتا ہے -کیونکہ رٹّہ لگاتے ہویےانسان کے اعصاب تناو کا شکار ہوجاتے ہیں مسلسل ذہنی تناو رٹے بازکو جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور کردیتا ہے –
دراصل رٹّے بازی ,اور ٹیوشن بزنس ہمارے فطرت گریز نظام تعلیم, کی دین ہے جس طرح کوئی شخص اگر غیر فطری طریقوں سے زندگی گزارے تو بیمار پڑجاتاہے بالکل اسی طرح ہمارے غیر متوازن ,غیر ہموار ,اور غیر فطری نظام تعلیم کے حاصلات میں سب سے بڑا حاصل رٹہ اور ٹیوشن سسٹم ہے – جس نے نظام تعلیم سے علوم وفنون کا حقیقی اور مطلوب فہم سلب کررکھا ہے –
اس ٹیوشن سسٹم نے جو سب سے بڑا نقصان کیا ہے وہ یہ کہ بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا -بچے اب کھیلنا بھول گئے ہیں- کیونکہ کھیل کی جگہ اب ٹیوشن نے لے لی ہے اور کھیل کی جگہ برقی کھلونوں نے لے رکھی ہے آج کھیل اور تفریح کے نام پر بچوں کے پاس الیکٹرانک گیٹجٹس کی ایک پوری دنیا آباد ہے – لیکن کھیلنے کو ایک بھی بچپن کا ساتھی نہیں –
ایک مشہور مقولہ ہے کہ جس شہر کے کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں اسکے اسپتال ویران ہوتے ہیں – بچوں کو چھوٹی عمر میں نت نئی بیماریوں کا لگ جانا ,قوت مدافعت میں کمی,کمزور حافظہ کی ایک بڑی وجہ کھیل کود میں حصہ نہ لیناہی ہے – بچے فون ,لیپ ٹاپ اور ٹی وی اسکرین سے چپک سے گئے ہیں اورطرف تماشہ یہ ہیکہ اس نشہ سے نجات دلانے کیلیے اب بڑے اونچے داموں پر الگ سے کورسز چلایے جارہے ہیں,ایپلیکیشنز بنائے جارہے ,عملہ تیار کیا جارہا ہے جو ان بچوں سے انٹرنیٹ کی لت چھڑا سکے-
ٹیوشن کا ایک اور سب سے بڑا نقصان ہے جو والدین کی جیب پر بار گراں کی صورت میں پڑتا ہے –
غریب آدمی کواپنے بچوں کو تعلیم دلانے کےلیے اپنے پیٹ میں گرہ دینی پڑتی یےوہ اپنی روز مرہ کی ضروریات کو ٹیوشن کلاسز کے اخراجات پر قربان کردیتا ہے –
میں کئ ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو سماج کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا معمولی حیثیت کے مالک ہیں لیکن بچوں کے مہنگے اسکول کے ساتھ انکی کلاسز کی فیس لاکھوں میں ادا کرتے ہیں- جتنا پیسہ آپکے اہل وعیال کی ماہانہ خوراک میں نہیں جاتا اس سے دگنی ,چار گنی رقم ایک مڈل کلاس آدمی اپنے بچے کی ٹیوشن فیس بھرنے میں ادا کردیتا ہے –
زبردست لمحہ فکریہ اور چیلنج ہے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جسکی بناء پر والدین,سرپرست اس حد تک مجبور ہیں کہ وہ ہرحال میں ,,سوکھی روٹی کھائیں گے لیکن بچوں کو ٹیوشن پڑھائیں گے “پر عمل پیرا ہیں –
ایک بچہ اساتذہ کے چھ گھنٹہ پڑھانے کے باوجودبھی اپنےعلمی شب وروز میں تشنہ طلب رہ جاتا ہے , جبکہ درسگاہیں ان عظیم مقامات میں سے ہے جس نے تو بے سرو ساماں ,تنگ داماں ہوکر بھی دنیا کو مالا مال کیا ہے , وسیع ترین دنیا میں کوہسار جیسی شخصيات کو اپنے پہلو میں جلاء بخشی ہے –
دنیا کے تمام تر علوم وفنون کے چشمے یہیں سے پھوٹے پھر وہ کونسی وجوھات ہیں جنکی بنا پر بغیر ٹیوشن لئے ہویے کامیابی کا تصور محال سمجھا جارہا ہے .,ذہانت ,محنت ,ہمت وحوصلہ اب کسی اور دنیا کے باسی ہوگئے کیا …..
یہ سوال ہمارے سامنے اب بھی ہمارے بچےبغیر ٹیوشن کے اپنے تعلیمی سفر کو کامیابی کے ساتھ آگے کیوں نہیں لے جاسکتے .. …
امتحان میں مقصد صرف پاس ہونا ہو یا پھر امتیازی نمبرات کا حصول , معاملہ کسی پروفیشنل کورس کی کلاسز کا ہو یامقابلہ جاتی امتحان کا ہر کامیابی تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ٹیوشن کیوں قرار پاتا ہے …..
جبکہ اگر سچائی کی تلاش کی جائے تو ہمارے ہاتھ کچھ ایسی حقیقتیں آتی ہیں جو ہمیں افسوس اور ملال کا آئینہ دکھاجاتی ہیں نچلے طبقے کے ٹیوشن کلاسز سے لیکر ( ماہانہ /100) ہائی کلاس کے (ماہانہ 5—–7 ہزار )تک کے کلاسز سبھی کا ایک جیسا حال ہے بلند وبانگ دعوے ہیں جو ائیر کنڈیشن کمروں اور فرنیش کلاس روم کے بل پر کئے جاتے ہیں لیکن تعلیم کا معیار اور اسکا پورا حق, دراصل انہی کے ہاتھوں مسخ کیا جارہا ہے – تعلیم کے رکھوالے ہی جب اسکی ساکھ بیچنے پر اتر جائیں تو پھر کوئی معمولی نہیں بلکہ ایک ناقابل فراموش تاریخی نقصان جنم لیتا ہے –
چھوٹے چھوٹے گلی محلوں کا جائزہ لیا جائے تو حالات مزید خراب دکھائی پڑتے ہیں
ہر ایک دوسرا گھر آج ٹیوشن کھول کر بیٹھا ہوا ہے -آٹھویں ,نویں جماعت پڑھے ہوئے بچے ایک اچھی رقم لیکر اپنے سے ایک کلاس پیچھے کے بچوں کو ٹیوشن دے رہے ہیں – مشاہدہ تو یہ ہیکہ جوں ہی کوئی فیل ہوتا ہے تو وہ ٹیوشن کے بزنس پر لگ جاتا ہے-
راقم الحروف نے اپنی نظروں سے ان لوگوں کو لٹریچر پڑھاتے ہوئے دیکھا ہے جنکا اپنا املاء اور نقل تک درست نہیں پیسے کمانے کا سب سے آسان اور سستا ذریعہ ہے کہ اپنی خود کی تعلیم بھلے ہی ادھوری چھوڑ دو لیکن گھریلو ٹیوشن یا سینٹر کی مدد سے پیسے کمانا شروع کردو-
خلاصہ کلام یہ ہیکہ ٹیوشن خواہ مڈل کلاس کا ہو یا اپر کلاس کے کلاسز سسٹم, سب کا واحد مقصد ….پیسے کمانا وہ بھی ہر شرط پراور اسی مقصد کے تحت اسکول سے لیکر اساتذہ ,ٹیوشن ٹیچر اور کلاسز سینٹر سبھی برابر کے ملوث ہیں –
“علم ایک دولت ہے ” یہ زرین قول کبھی طلباء کیلیے تحریک ہوا کرتی تھی -علم اب بھی ایک دولت ہے لیکن صرف ٹیوشن اور کلاسز والو کیلیے –
گھاٹے کا سودا فقط طلباء اور والدین کے حصے آتا ہے – یہاں والدین اور سرپرستوں سے میری مخلصانہ درخواست ہے کہ اگرآپ مندرجہ بالا فوائد ونقصانات کو ذہن نشین رکھتے ہیں اور پھر اگر ٹیوشن سینٹر کا انتخاب کرتے ہیں تو یہ ضرور یاد رکھیں
ٹیوشن اور کلاسز یہ طلباء کیلیے ان کا نصب العین نہیں ہیں – بلکہ انکے مقصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہیں اسلئے طلباء اور والدین کو اس گرداب سے باہر نکل کر اصل راستے کی طرف دھیان دینا ہوگا جوعلمی شاہراہ میں محنت ومشقت اور عرق ریزی کی کٹھن راہ ہے – والدین بھی اپنی غیر ضروری مصروفیات کوترک کرکے کچھ دھیان بچوں کی تعلیم کی جانب دیں تو بھی شایدایک بہت بڑی کمی کی بھرپائی ممکن ہوسکے گی اور والدین کی جانب سے بچوں کی تعلیم وتربیت میں یہ ایک بہت حصہ ہوگا –
اور عزیز طلباء !!!!! اگر آپ سو فیصد کی کامیابی چاہتے ہیں تو خود پڑھیے آپکی سیلف اسٹڈی آپکی کامیابی کی سو فیصد ضمانت دے سکتی ہے جو ٹیوشن یا کوچنگ سے کبھی ممکن نہ ہوگا , اگر آپکا مکمل انحصار کلاسز پر ہے تو آپکی کامیابی کے صرف تیس فیصد امکانات ہوتے ہیں جبکہ سیلف اسٹڈی میں ستر سے سو فیصد تک مکمل کامیابی کی ضمانت یقینی ہے –
اس لئے عقلمند بنیں وقت اور پیسوں کی قدر کرتے ہوئے, کلاسز کے تھکادینے والے رٹّا سسٹم سے بچیں اور سیلف اسٹڈی کے ذریعے اپنے مستقبل کو سنہرا بنائیں
کیونکہ ..
ہے جہد مسلسل کی جزا رفعت افلاک