آنیناز جان علی
فواد میں خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ زندگی کے ہر میدان کا نمبر ایک کھلاڑی تھا۔ اس نے موریشس کے ایک نامور اسکول سے ایچ۔ ایس۔ سی تک تعلیم حاصل کی۔ وہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہو کر ملیشیا کی ایک معتبر یونیورسٹی میں زیرِتعلیم رہا۔ ملیشیا سے ریاضی کی ڈگڑی لے کر جب وہ موریشس واپس آیا تو اسے بطور ریاضی معلّم سرکاری کالج میں نوکری ملی۔
دو سالوں تک محنت سے کام کرتے کرتے اس نے اتنے پیسے جمع کر لئے کہ وہ ایک مکان کی بنیاد ڈال سکا۔ اس کے والدین کے آبائی مکان کے پیچھے سات گز زمین تھی جس پر فواد نے اپنا مکان بنانے کا تہیہ کیا۔ پھر بنک سے قرض لے کر فواد نے تعمیرات کے باقی کاموں کو آگے بڑھایا۔ چھ مہینوں میں مکان تیار ہو گیا۔
فواد اسکول کے دنوں سے اپنی پڑوسن حیا کو چاہتا تھا۔ حیا اور وہ ایک ہی پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے۔ وہ دونوں مکتب میں بھی ساتھ میں قرآن شریف کی آموزش کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ اس قربت نے انسیت کے جذبات کو بیدار کیا۔ پندرہ سال کی عمر میں ہی دونوں نے شادی کرنے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ اسی خواب کی تعبیر کے لئے فواد نے اپنی پہلی تنخواہ پاتے ہی مکان کے لئے پیسے یکجا کرنے شروع کر دئے تھے۔
حیا شروع سے پڑھائی میں کمزور تھی۔ سی۔پی۔ای میں کم نمبر حاصل کرنے کے باعث حیا کو اتنے اچھے کالج میں داخلہ نہیں ملا جتنا کہ فواد کو ملا تھا۔ فارم ۳ تک آتے آتے حیا کا دل پڑھائی سے اوبھ چکا تھا اور بالآخر اس نے اپنی پڑھائی روک لی تھی۔ کالج چھوڑنے کے بعد اس نے سلائی کڑھائی کا کام سیکھا۔ پھر وہ درزن بن گئی۔ لوگ اس کے گھر کپڑے چھوڑنے آتے۔ حیا ان کا ناپ لے کر ان کے پسند کردہ ڈزائن کے مطابق ان کے کپڑے بناتی۔ سلائی کے ساتھ ساتھ حیا نے نمکین اور مٹھائیاں بنانے بھی سیکھے اورآڈر لے کر وہ سالگرہ، شادی یا کسی جشن کے لئے کھانے کی چیزیں تیار کرتی۔
فواد کو حیا کی سادگی بہت لبھاتی تھی۔ حیا مخلص تھی اوراس کا دل دنیا کے مکر و فریب سے پاک تھا۔ فواد کی صبحیں لڑکپن کے دنوں سے حیا سے فون پربات کرتے ہوئے شروع ہوتیں اور راتیں بھی حیا سے لمبی اورمیٹھی باتیں کرتے ہی ختم ہوتیں۔ ملیشیا جانے سے پہلے فواد نے حیا سے وعدہ کیا تھا: ” میں تمہارا تھا، تمہارا ہوں اور تمہارا رہوں گا۔“ اس پر حیا فواد کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ ملیشیا میں گزارے تین سالوں کے دوران حیا اور فواد روز رابطے میں رہے۔ ان کا پیار دوری کے بسبب مضبوط تر ہو گیا۔
جیسے ہی فواد کا مکان تیار ہو گیا، اس نے حیا کے گھر والوں سے اس کا ہاتھ مانگا اور نکاح کی مقدّس رسم سے حیا فواد کی ذمے داری بن گئی۔ دونوں نے شاد و خرم سے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔ شادی کے ایک سال بعد خدا نے ان کو ایک پیارا بیٹا عطا کیا۔ فواد اور حیا کی دنیا خوشیوں سے مہک اٹھی۔ حیا گھر سمبھالتی اور اپنے لختِ جگر کی دیکھ بھال میں اپنا دن گزارتی۔ فواد نوکر ی کر کے گھر چلاتا۔
فواد زندگی میں آگے پڑھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے موریشس کی یونیورسٹی میں ایم۔ ایس۔ سی کا کورس شروع کیا۔ یہ دو سال بہت مصروف کن رہے۔ نوکری کے بعد ہفتے میں چار بار دو پہر کو یونیورسٹی میں کلاس کے لئے جاتا۔ اس کے علاوہ اسے اسائنمنٹ اور ٹیسٹ کے لئے بھی تیاری کرنی پڑتی۔ کام اور پڑھائی کو ایک ساتھ سمبھالنا جوئے شیر کے لانے کے برابر ثابت ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ بیوی اور بچے کے لئے بھی وقت درکار تھا۔ لیکن فوادنے ہمت نہیں ہاری اور اس نے اپنا ذاتی نظامِ اوقات اس طرح بنایا کہ سب کے لئے برابر وقت نکال سکے۔ حیا اس وقت ایک حساس بیوی ثابت ہوئی۔ اس نے فواد کے نزدیک گھر کی کسی بھی پریشانی کو آنے نہیں دیا۔ وہ تمام حالات کو خندہ پیشانی سے سنبھالتی۔
ایم۔ایس۔سی کے کورس کے دوران بعض اوقات گروپ ورک بھی دیا جاتا۔ اس کے لئے کلاس کے طلباءکو ٹولیوں میں منقسم کر دیا جاتا اور وہ ساتھ میں اسائنمنٹ تیار کرتے جس کے لئے انہیں مارکس ملتے۔ اس گروپ ورک کے ذریعے طلباءایک دوسرے سے واقف بھی ہوتے اور تبادلئہ خیالات بھی ہوتے۔ فواد اپنی جماعت کے دوستوں سے بے حد متاثر تھا۔چونکہ سب ایک ہی شعبے میں تھے و ہ ان سے بہت کچھ سیکھ پایا۔ کورس کے علاوہ فواد ان کی طرزِ زیست سے بھی واقف ہوا۔ اس کی جماعت میں تمام طلبا پیشہ وارانہ لوگ تھے اور ان کا معیارِ زندگی بھی بلند رتھا۔ ان کے ساتھ اتنا وقت گزارنے کے بعد فواد کے اندر مزید ترقی کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا۔ ایم۔ایس۔سی ختم کرنے کے بعد فواد نے لکچرار کی نوکری کے لئے عرضی دی۔ دورانِ انٹرویو فواد سے پوچھا گیاکہ وہ لکچرار کیوں بنبا چاہتا تھا۔ فواد نے جواب دیا ”زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔ میں طلبا کے اندر کچھ کر دکھانے کے جذبے کو بڑھاوا دینا چاہوں گا۔ میں ان میں وہ چنگاری جلانا چاہوں گا جن سے وہ اپنے شعبے میں کامیابی کے معراج تک پہنچیں۔“
جب فواد کو لکچرار کی نوکری ملی تو وہ ساتویں آسمان پر تھا۔ لکچرارکا کا م آسان نہ تھا۔ فواد کو زیادہ وقت یونیورسٹی میںگذارنا پڑا۔ یہاں تک کہ سنیچر کو بھی طلبا کو کلاس دینی تھی۔ چونکہ یونیورسٹی کا معیار بلند ہوتا ہے، فواد کو مزید تیاری کرنی پڑتی۔ اس کے علاوہ وہ تارے گن گن کے پاورپوئٹ سلائڈس پر نوٹس بناتا۔ فواد میں بہترین کارکردگی دکھانے کا جنون تھا۔ وہ اسی دھن میں لگا رہا۔ اس کے پاس حیا اور بچے کے لئے اتنا وقت نہیں بچتا۔ اس کا بیٹا اب پڑی پرائمری اسکول جانے لگا تھا۔
فواد نے دو سال کی نوکری کے اندر اندر ڈیوٹی فری گاڑی خرید لی۔ یہ سہولت اسی نوکری کی دین ہے۔ وہ بہت خوش ہوا اور آس پڑوس میں اپنی گاڑی چلاتے وقت وہ انتہائی پر مسرت ہوتا۔اس کی نوکری میں اسے اکثر افریقہ، یورپ اور امریکہ میں کانفرنسوں میں شرکت کرنے کا موقعہ ملتا۔ ان کانفرنسوں میں فواد نے بہت کچھ سیکھا اور ان چیزوں کو اپنی تدریس میں مشمول کر کے وہ دلی تسلی محسوس کرتا۔
فواد نے اب پی۔ایچ۔ڈی شروع کر لی۔ اپنی تحقیق کے لئے وہ اکثر ملیشیاجاتا۔ ملیشیا کی یونیورسٹی میں دستیاب کتابوں سے استفادہ کرتا۔ اس نے اپنی پوری قوت اپنی پی۔ ایچ ۔ ڈی میں لگا دی۔ بالآخر اس کی محنت رنگ لائی اور وہ ریاضی کا ڈاکٹر بن گیا۔
اسی دوران حیا بھی حاملہ ہوئی اور فواد اور حیا کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ اس بار ایامِ حاملہ میں اس کی طبیعت ناساز رہتی۔ ایسے میں وہ
فواد کی الفت اور قربت کے لئے زیادہ تڑپتی لیکن فوادکے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔ وہ یونیورسٹی اور پی ۔ ایچ۔ ڈی کے کام میں اس قدر الجھا ہوا تھاکہ اس کے پاس حیا کے جذباتی تقاضوں کے لئے فرصت نہیں رہی۔
حیا کے لئے اکیلے دو بچوں کو سنبھالنا اور گھرکی دیکھ بھال کرنا مشکل تر ہو گیا تھا۔ اب وہ دوسروں کے لئے سلائی اور مٹھائی بھی نہیں بناتی۔ ویسے بھی اسے پیسوں کی ضرورت نہیں تھی۔ فواد کی اجرت پورے گھر کے لئے کافی تھی۔ پہلے بھی فواد کی بدولت اسے کبھی پیسوں کی فکر نہیں رہی۔ لیکن سلائی کرنے اور مٹھائی بناتے وقت حیا کو روحانی تسکین ہوتی۔ وہ اس کے لئے تفریح کا سامان تھا۔ اب دو بچوں کے باعث وہ اس تسکین سے بھی محروم ہو گئی۔ اس کی طبیعت میں ایک اضطرار آنے لگا اوروہ اس کا الزام فواد پر لگاتی۔ وہ فواد کو سمجھتے سمجھتے تھک گئی تھی۔ اس وقت اسے ضرورت تھی کہ فواد اس کو سمجھے لیکن فواد ابھی بھی اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں اس قدر مشعول تھا کہ اسے حیا کی کیفیت کا علم ہی نہیں تھا۔
حیا کے رویے کی تبدیلی فواد پر اثر کرنے لگی۔ حیا کے چڑچڑاپن اور طنزیہ لہجے سے اس کا جی گھبرانے لگا اور وہ حیا سے مزید دوری اختیار کرنے لگا۔ وہ زیادہ وقت یونیورسٹی میں گزارنے لگا۔ لائبریری میں ضخیم اور غبار آلود کتابوں کے درمیان رہنے سے اس کے خواب اس کو آگے بڑھنے کے لئے اکساتے۔ یونیورسٹی کی آب و ہوا بھی سازگا ر تھی۔ چاروں طرف اونچے اور گھنے درخت تھے۔ وسیع میدان کی ہری گھاس پر چل کر اور ٹھنڈی ہوا سے وہ تازہ دم ہوتا۔یونیورسٹی میں ان چیزوں کے علاوہ کوئی اور بھی تھی جو اسے اپنی طرف راغب کر رہی تھی۔
تذکیہ اس کی ہم کار تھی۔ دونوں ایک ہی شعبے میں ایک ساتھ مقرر ہوئے۔ اتنے سالوں ساتھ کام کرتے کرتے دونوں ایک دوسرے کے مزاج اور شخصیت سے پوری طرح اوقف ہوگئے۔ فواد تذکیہ کی ذہانت پر فدا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے ایک خاتوں کو اپنے پیشے سے منسلک اتنے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے پایا۔ تذکیہ نے متعدد کتابیں لکھیں اور کئی پراجیک میں فعال و متحرک تھی۔ تذکیہ ایک خود مختار لڑکی تھی جس نے اپنا مکان خود بنایا اور وہ اپنی خود کی گاڑی چلاتی تھی۔ فواد کو خود میں اور تذکیہ میںمماثلتیں نظر آئیں۔ وہ تذکیہ سے اعلیٰ سطح کی باتیں کر سکتاتھا اور تذکیہ نہ صرف ان باتون کو سمجھتی بلکہ اپنا ذاوئیہ نظر بھی پیش کرتی۔
تذکیہ نے اب تک شادی نہیںکی تھی۔ فواد کے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ”پرانے زمانے میں شاید لڑکوں کو اتنا نہیں پڑھایا جاتا تھا کیونکہ ان کے لئے پھر لڑکا ڈھونڈھنا مشکل پڑ جاتا تھا۔ میرا بھی یہی حال ہے۔ اتنی پڑھائی اور اتنی بلندی پر پہنچنے کے بعد کو ئی ہم پلہ ملتا ہی نہیں جو میرے باغی تدبر کی حامی بھر سکے۔“
تذکہ کے الفاظ میں فواد کو اپنا عکس نظر آتا۔ زندگی کے آغازِ سفر میں اس نے حیا کے ساتھ کارواں باندھا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ حیا کہاں گم ہو گئی اور اس کا ساتھ کب چھوٹا فواد کو پتہ ہی نہیں چلا۔
فواد اور تذکیہ ساتھ میں بیرونی ممالک میں کانفرنس پر جایا کرتے تھے۔ان ترقی یافتہ ممالک کی سیر نے ان کے ذہن کو وسیع تر بنایا۔
موریشس واپس آکر وہ ان چیزوں پر گھنٹوں گفت و شنید کرتے اور یونیورسٹی میں تھی تجاویزپیش کرتے تاکہ نظامِ تعلیم میںتمدن آئے۔
فواد کی بڑھتی ہوئی غیر موجودگی نے حیا اور اس کے بیچ کے تناﺅ کو اور سنجیدہ بنایا۔
”تمہارے پاس میرے لئے کبھی وقت نہیں رہتا۔ بچے کیا کر رہے ہیں؟ تم اس سے بے زار ہو۔ تمہیں گھر کا کبھی خیال رہا ہی نہیں۔“ حیا بلند آواز میںشکایت کرتی۔
”اگر خیال نہیں ہوتا تو ہر مہینے گھر چلانے کے لئے پیسے نہیں دیتا۔“ فواد نے پلٹ کر جواب دیا۔
”پیسے سب کچھ نہیں ہوتے۔ مجھے تمہارا سہارا چاہئے۔“ حیا تیز آواز میں کہتی۔
فواد کو حیا کے الفاظ سنائی نہیں دے رہے تھے بلکہ اس کی چیخ و پکار فواد کے کان کے پردوں سے ٹکڑا رہی تھیں۔ وہ اس تناﺅ سے تنگ آگیا تھا۔ اسے تذکیہ کے تصّور میں ویسے ہی سکون ملتاجس طرح سمندر کی اضطراب موجوں کو ساحل پر آکر قرار ملتا تھا۔تذکیہ سے اظہارِ عشق کرتے وقت محبت کے وہ الفاظ نئے معلوم نہیں ہو رہے تھے۔ تذکیہ اور فواد کے اطوار و عادات اور ان دونوں کے بیچ اتنی قربت تھی کہ وہ انکہی الفاظ وہ پہلے ہی سن چکے تھے۔
تذکیہ کو اپنی آغوش میں لیتے ہوئے فواد کے بےقرار دل کو آخر قرار آیا جیسے کوئی جہازی طویل مسافت طے کر کے لبِ ساحل پر آتا ہے۔
(افسانہ نگار کا تعلق موریشس سے ہے ۔آپ نے ہندوستان سے اردو کی تعلیم حاصل کی ہے اور موریشش میں اردو استاذ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں)