مسلمانوں میں بڑھتی انتہاءپسندی !

ہم اپنے اختلافات کے وقت عدم تحمل کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی غیروں میں بھی کبھی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔شدت اور انتہاءپسندی کا یہ مظاہر ہ ہم مسلمان دوسری قوم کے بجائے اپنی قوم کے ساتھ زیادہ کرتے ہیں

خبر درخبر (567)
شمس تبریز قاسمی

تبلیغی جماعت دنیا کی سب سے پرامن تحریک کہلاتی ہے ،یہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو تشدد ،انتہاءپسندی اور قتل وقتال سے شدید نفرت کرتے ہیں،اپنے مخصوص کام کے علاوہ کسی اور چیز سے مطلب نہیں رکھتے ہیں۔عوام کو دین کی باتیں سکھانا ،شریعت کے راستے پر لانا ،تشدد اور انتہاءپسندی کے بجائے دلوں میں نرمی اور محبت پیدا کرنا اس جماعت کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔تبلیغی جماعت میں جن چھ باتوں پرتوجہ دی جاتی ہے اس میں اکرام مسلم بھی شامل ہے جس کا مطلب کسی بھی مسلمان کو تکلیف اور نقصان پہونچانے سے گریز کرناہے ۔یہ دنیا کی واحد تحریک ہے جس کے خلاف کسی طرح کا کوئی الزام نہیں لگایاجاسکاہے ،دنیاکے کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے اس کی تحقیق وتفتیش کرکے یہی رپوٹ پیش کی ہے یہ لوگ صرف مسلمانوں کے درمیان تبلیغ کا کام کرتے ہیں،کسی طرح کی شدت پسندی ان میں نہیں پائی جاتی ہے اور نہ ہی یہ لوگ کبھی بھی ملک مخالف عناصر میں ملوث پائے جاتے ہیں،قانون اور آئین کی پاسدار ی کرتے ہوئے اپنا تمام کام انجام دیتے ہیں ۔
لیکن گذشتہ چند سالوں سے پے درپے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں ، اس جماعت وابستہ کچھ لوگ ایسی حرکتیں کررہے ہیں جو نہ صرف شرمناک ہیں بلکہ کبھی کبھی ایسا احساس ہوتاہے کہ ان میں اور بجرنگ دل ۔ ہندویووا واہنی جیسی شدت پسند تنظیموں کی حرکتوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ان دنوں سوشل میڈیا پر غازی آباد کی ایک مسجد کی ایک ویڈیو گردش کررہی ہے جس میں تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگ مسجد میں قاری سفیان نام کے ایک شخص کی بے دردی سے پٹائی کررہے ہیں ۔اس دوران فحش گالیاں دی جارہی ہے اور کہاجارہاہے کہ آئندہ اگر مولانا سعد صاحب کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات کی تو انجام بہت برا ہوگا ۔باضابطہ ویڈیو بنانے کیلئے بھی کہاجارہاہے ۔ایک اور ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں اس شخص سے مولانا سعد صاحب کی بارے میںرجوع کرنے کیلئے کہاجارہاہے ۔اسی طرح کی ایک ویڈیو حیدر آباد کی گردش کررہی ہے جس میں تبلیغی جماعت کے ایک گروپ کو مسجد سے دھکے دیکر باہر نکال دیاجاتاہے محض اس وجہ سے کہ یہ لوگ مولانا سعد صاحب کے بجائے شورائی نظام پر عمل پیرا ہیں ۔گذشتہ سال مرکز نظام الدین میں متعدد مرتبہ لڑائی ہوچکی ہے جس میں کئی لوگوں کو زخمی ہوناپڑا ۔
اس پورے اختلاف اور جنگ کی بنیاد یہ ہے کہ تبلیغی جماعت دوگروپ میں تقسیم ہے ۔ایک گروپ مولانا سعد صاحب کے ساتھ ہے جو انہیں اپنا امیر تسلیم کرتے ہیں ۔دوسرا گروپ وہ ہے جو مولانا سعد صاحب کو امیر تسلیم کرنے کے بجائے شورائی نظام کا قائل ہے ۔یہی بنیادی وجہ ہے جس کی بنیاد پر ہندوستان سمیت دنیا کا کئی علاقہ اس سے متاثر ہوچکاہے جہاں تبلیغی جماعت کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔دونوں گروپ باہم دست وگریباں ہیں اور اس لڑائی میں یہ لوگ انتہاءپسندی جیسی حرکتوں پر اترنے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں ۔یہ مسئلہ صرف تبلیغی جماعت کا ہی نہیں ہے بلکہ اور بھی کئی موقر تنظیمیں آپسی اختلافات کے وقت یہی رویہ اپناچکی ہے۔ مخالف گروپ پر قابو پانے کیلئے انہوں نے ڈنڈا اور اسلحہ کا استعمال کیاہے ۔کبھی اقتدار تک رسائی کا غلط فائدہ اٹھاکرپولس کابیجا استعمال کیاگیاہے ۔
رمضان کے آغاز میں بھی ایک شرمناک واقعہ بہار کے گیا میں پیش آیاتھا جہاں ایک مسلم نوجوان کا قتل دوسرے مسلم نوجوان نے محض اس وجہ سے کردیاتھا کہ اسے مسجد میں تروایح کی نماز کے دوران اے سی کے پاس بیٹھنے کیلئے جگہ نہیں دی گئی ۔
تحمل ،صبر ،قوت برداشت اور ٹولرینس مسلمانوں کی نمایاں ترین خصوصیت مانی جاتی ہیں۔قرآن وحدیث ،انبیاءکرام کی زندگی اور سیرت صحابہ میں ہمیں سب سے زیادہ اس کی تعلیم دی گئی ہے لیکن ہمارا عمل اس کے برعکس ہے ،ہم اپنے اختلافات کے وقت عدم تحمل کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی غیروں میں بھی کبھی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔شدت اور انتہاءپسندی کا یہ مظاہر ہ ہم مسلمان دوسری قوم کے بجائے اپنی قوم کے ساتھ زیادہ کرتے ہیں۔بجرنگ دل ،وشو ہندو پریشد اور دیگر انتہاءپسند بھگوا تنظیمیں مسلمانوں پر حملہ کرتی ہیں،انہیں تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بناتی ہیں دوسری طرف مسلمان ایسی انتہاءپسندانہ حرکتیں خود مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں ۔
یہ بات صر ف حقیقی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا کا بھی یہی حال ہے جہاں مسلمان تنقید اور تبصرہ کرتے وقت اخلاقیات کی تمام سرحدوں کو پارکرکے نفرت ،تشدد اور انتہاءپسندی پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔دشمنی میں سنگین ترین الزامات لگادیتے ہیں ۔خفیہ ایجنسیوں میں رپوٹ تک درج کرانے سے گریز نہیں کرتے ہیں ہمارے قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دیوبند سے تعلق رکھنے ولاے ایک مولانا صاحب نے ملت ٹائمز کے خلاف دہشت گردی کا الزام عائد کرکے اسے ملک کی داخلہ سلامتی کیلئے شدید خطرہ بتارکھاہے ،سپریم کورٹ سے انہوں نے اپیل کی ہے کہ سی بی آئی سمیت ملک کی متعدد خفیہ ایجنسیوں سے ملت ٹائمز کی تحقیق کرائی جائے ۔
عدم تحمل اور انتہاءپسندی جیسی حرکتوں کو چھوڑ کر ہمیں صبر اور قوت برداشت کی صفت اپنانی ہوگی ،جب عدلیہ سے ہمارے خلاف فیصلہ آتاہے ،پارلیمنٹ میں ہماری شریعت کے خلاف قانون پاس ہوتاہے تو ہم مکمل تحمل اور قوت برداشت کا مظاہرہ کرکے ایک مثال قائم کرتے ہیں ،ہمارے اس عمل کی چوطرفہ ستائش ہوتی ہے لیکن جب ہمارا اپنوں سے اختلاف ہوجاتاہے تو ہماری حرکتیں انتہاءپسند بھگوا تنظیموں کی طرح ہوجاتی ہیں۔
آخر کیوں ؟ کس وجہ سے ؟اس پر سوچنے ،غور کرنے اور دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے اپنی زندگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ایسی حرکتوں میں کئی مرتبہ قوم کے قائدین ،ملت کے رہبران اور دانشوران بھی شامل ہوتے ہیں ۔
تبلیغی جماعت کا مسئلہ سنگین ہوتاجارہاہے ، عوام میں اس طرح کے واقعات سے بے چینی اور پریشانی بڑھتی جارہی ہے ۔ان چیزوں پر قابو پاناہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ،ملت کے قائدین اور معرزعلماءکرام کو چاہیئے کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کے آپسی انتشار کو ختم کرائیں ۔ تشدد اورانتہاءپسندی کو ختم کرنے کے سلسلے میں کوئی عملی قدم اٹھائیں ۔

SHARE