عبدالعزیز
مفتی محمد سعید کی پارٹی پی ڈی پی کو 28سیٹوں پر اور بی جے پی کو 25سیٹوں پر کشمیر اسمبلی کے گزشتہ الیکشن میں کامیابی ہوئی تھی۔ دونوں پارٹیوں نے مل کر تین سال پہلے حکومت کی تشکیل کی تھی۔ مفتی اور مودی کے ملاپ اور اتحاد کو تاریخی اتحاد بتایا گیا تھا اور دونوں نے بلند باگ دعوے بھی کئے تھے مگر جو لوگ دونوں کو جانتے تھے ان کو معلوم تھا کہ یہ دونوں پارٹیوں یا دونوں شخصیتوں کا موقع پرستانہ اتحاد ہے جسے Unholy Alliance (غیر مقدس اتحاد) سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ مفتی سعید کی موت کے بعد کئی مہینوں تک پی ڈی پی کے اندر کشمکش جاری تھی کہ بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت کی جائے یا نہیں۔ کچھ لوگ پارٹی کے اندر مخلوط یا بی جے پی کے اتحاد کے سخت مخالف تھے مگر محبوبہ مفتی اور ان کے خاندان کے لوگوں کو اقتدار اور حکومت سے دلچسپی تھی جس کی وجہ سے بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت پھر دوبارہ قائم ہوگئی۔ اب جبکہ اچانک بی جے پی نے حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی تو محبوبہ مفتی کو استعفیٰ دینا پڑا اور حکومت ختم ہوگئی۔ اب دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کے بوچھار کئے جارہے ہیں۔ بی جے پی انتہائی ناقص قسم کی باتیں کر رہی ہے، مثلاً یہ کہ دہشت گردی میں اضافہ ہوا، سیکوریٹی کا مسئلہ پیچیدہ ہوتا گیا۔ کشمیر کی فلاح و ترقی نہیں ہوئی، لہٰذا ملک و قوم کے مفاد میں حکومت سے حمایت و تائید ختم کرنی پڑی۔
دنیا جانتی ہے کہ دونوں پارٹیاں مشترکہ پروگرام کے تحت حکومت کر رہی تھیں۔ بی جے پی کے بھی حکومت میں اتنے ہی وزراءتھے جتنے پی ڈی پی کے۔ نریندر مودی نے کئی بار محبوبہ مفتی کے کاموں کی جم کر سراہنا کی۔ کل تک سب کچھ ٹھیک تھا مگر اچانک سب کچھ خراب ہوگیا۔ حقیقت بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی یا ان کی پارٹی کے نزدیک نہ کشمیر کی فلاح مطلوب ہے اور نہ ملک و قوم کا مفاد ان کو عزیز ہے۔ ان کو صرف 2019ءکے الیکشن میں کسی طرح بھی کامیابی چاہئے، اس کیلئے وہ ہر ایک سے دوستی کرسکتے ہیں اور ہر ایک سے دشمنی اور بگاڑ مول لے سکتے ہیں۔ جب تک مودی جی کو یہ بتانا تھا کہ ایک دو ریاستوں کو چھوڑ کر تمام ریاستوں میں ان کی حکومت ہے۔ وہ کشمیر میں بھی اپنی پارٹی کی حکومت قائم رکھنا چاہتے تھے مگر اب 2019ءمیں ان کو کشمیر کے معاملے میں کشمیریوں کو خاص طور سے اور باقی ہندستانیوں کو حساب کتاب دینا ہے اور ووٹ لینا ہے تو ان کی ضرورت تھی کہ بی جے پی اور پی ڈی پی کی حکومت قائم نہ رہے کیونکہ کشمیر کی حالت سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔ شدت پسندی بڑھ چکی تھی، نظم و نسق کی حالت بالکل بگڑ چکی تھی۔ محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ ضرور تھیں مگر وہ کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہ تھیں۔ ان کو مرکز سے جو ہدایت دی جاتی تھی اس کے مطابق انھیں کام کرنا پڑتا تھا۔ اب محبوبہ مفتی کا منہ بھی کھلا ہے۔ وہ بھی مودی کا گن گاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ مودی ہی کشمیر کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ ان کو اچھی طرح سے نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے بارے میں معلوم تھا کہ ان کی کیا پالیسی ہے۔
بی جے پی یا آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم کا نام ہے جو کشمیر کے مسئلہ کو حل کے بجائے لاینحل رکھنا پسند کرتی ہے تاکہ اس سے پارٹی کو ترقی ہو۔ اٹل بہاری واجپئی آگرہ سمّیٹ میں جب سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کشمیر کے مسئلہ پر حل کے قریب پہنچ گئے تو آر ایس ایس کے خیمے میں کھلبلی مچ گئی۔ بالآخر ایل کے ایڈوانی کو آر ایس ایس نے واجپئی کو روکنے کا کام سونپا اور ایڈوانی کامیاب ہوگئے۔ مسئلہ ویسا کا ویسا ہی رہ گیا۔ کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ واجپئی کہتے تھے کہ کشمیریت، جمہوریت اور انسانیت سے ہی مسئلہ حل ہوگا۔ مسٹر مودی نے بھی کشمیر کی تقریروں میں یہ موٹے موٹے الفاظ دہرائے مگر یہ سب زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں تھے۔
بی جے پی نے اپنی گندی چال اور سیاست سے کشمیر کے ماحول کو پہلے بھی زیادہ بگاڑ دیا۔ کٹھوعہ میں ایک نابالغ لڑکی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کی بی جے پی کی پارٹی کے دو وزراءاور کئی ایم ایل اے نے حمایت کی۔ جب بہت شور و غوغا ہوا تو دو وزراءکو استعفیٰ دینا پڑا لیکن جو ایم ایم ایل اے اپنے وزیروں کے ساتھ حمایت میں کھڑے تھے انھیں کابینہ میں شامل کرلیا گیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا فرقہ پرستی ہوسکتی ہے کہ عصمت دری کی بھی حمایت محض اس لئے کی گئی کہ واقعہ کسی ہندو لڑکی کے ساتھ نہیں بلکہ ایک مسلم لڑکی کے ساتھ ہوا تھا۔ کیپٹن گگوئی نے ایک کشمیری لڑکے کو اپنی چلتی کار کے ساتھ باندھ کر دوڑایا۔ بی جے پی نے کیپٹن کی حمایت کی اور جب وہ ایک لڑکی کے ساتھ ہوٹل میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیاتو اس کی بھی بی جے پی والوں نے حمایت میں آواز بلند کی۔ ایسی فرقہ پرستی کو کشمیر میں بی جے پی اور آر ایس ایس والوں نے جنم دیا ہے کہ کشمیر کا یہ غیر مقدس اتحاد (مودی -محبوبہ اتحاد) ناپاکی، گندگی، بیہودگی اور بربادی کے سوا تین سال میں کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ دور اپنی بربریت کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔
بی جے پی کی طرف سے آر ایس ایس کے پرانے پرچارک اور ترجمان رام مادھو کشمیر معاملہ کے نگراں تھے، وہ بھی مخلوط حکومت کے بہت بڑے حامی تھے۔ اب وہ محبوبہ مفتی کی خرابیوں کو بیان کرنے میں رطب اللسان ہیں جو آر ایس ایس کے پرچارکوں کی عادت ثانیہ ہے۔ محبوبہ مفتی کا یہ کہنا کہ ان کو دھوکہ دیا گیا غلط ہے کیونکہ انھوں نے دھوکے بازوں سے ہی جان بوجھ کر دوستی کیلئے ہاتھ بڑھایا تھا۔ اُس وقت کانگریس اور نیشنل کانفرنس دونوں نے ان کی حرکتوں پر روکا تھا اور حمایت کی پیشکش کی تھی مگر محبوبہ مفتی کی جو ذلت ہوئی ہے اس کی وہ سو فیصد خود ذمہ دارہیں۔ خود کردہ را علاجے نیست (اپنے کئے ہوئے کا کوئی علاج نہیں)۔ غلام نبی آزاد نے صحیح کہا ہے کہ بی جے پی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا مگربہت دیر ہوگئی۔ جب کشمیر کی حالت کو دگرگوں کردیا اور بالکل بگاڑ دیا اس وقت یہ احساس ہوا کہ دونوں کی ملی جلی سرکار ناکام ہوگئی۔ غلام نبی آزاد نے یہ بھی کہاکہ دونوں خاص طور سے مودی جی اور ان کی مرکزی سرکار اپنی ذمہ داریوں سے دامن نہیں جھاڑ سکتی۔ ان کو کشمیر کی بگڑی ہوئی حالت کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی جی نہ کشمیر میں کامیاب ہیں اور نہ باقی ہندستان میں ان کی کوئی کامیابی ہوئی ہے۔ باقی ہندستان کی حالت بھی خراب ہے۔ نظم و نسق کے لحاظ سے اور معاشی لحاظ سے بھی چار سال میں ہندستان بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ اب 2019ءمیں مودی جی اقتدار میں آنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آزمائے ہوئے کو پھر آزمانا جہالت ہوگی۔ امید ہے عوام و خواص اپنی جہالت کو دہرانے کی غلطی نہیں کریں گے۔
azizabdul03@gmail.com