ترک میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ترک کی تاریخ میں پہلی بار ایک ساتھ ہونے والی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں طیب اردگان کے حریفوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
صدارتی انتخابات کے نتائج میں طیب اردوان کی جماعت نے 53فیصد سے زائد ووٹ حاصل کئے جبکہ پارلیمانی الیکشن میں حکمران اتحاد نے 54فیصد سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک صدارتی انتخابات کے 90 سے زائد نتائج میں طیب اردوان نے حریفوں شکست سے دوچار کیا ہے ،تاہم ووٹ کی گنتی کا عمل جاری ہے ،دارالحکومت انقرہ سے صدارتی انتخابات میں طیب اردگان اور پارلیمانی الیکشن میں اپوزیشن جماعت کامیاب ہوئی ہے ۔
ترک میڈیا کے مطابق اپوزیش کے امید محرم انسے ساڑھے 30فیصد کے قریب ووٹ لینے میں کامیاب رہے ہیں،دیگر صدارتی امیدواروں میں کوئی بھی 8فیصد ووٹ لینے میں کامیاب نہیں رہا ۔
پارلیمانی الیکشن میں طیب اردوان کی جماعت نے اب تک 600 میں سے295 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے جبکہ اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی نے 146نشستوں پر کامیابی سمیٹی ہے ۔
ترکی کے مقامی وقت کے مطابق پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی جو شام 5 بجے تک بلاتعطل جاری رہی اور پاکستانی وقت کے مطابق شام 7 بجے ووٹنگ کا عمل مکمل ہوا،ووٹرز کا ٹرن آئوٹ 87فیصد رہا ۔
ترکی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ ہورہے ہیں اور صدارتی انتخاب کے لیے رجب طیب اردگان سمیت 6 امیدوار میدان میں ہیں جن میں محرم انسے، میرل ایکسینر، سلاحیتن دیمارتس، تیمل، دوگو پرینسک شامل ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق رجب طیب اردگان کی جیت کے واضح امکانات ہیں تاہم حزب اختلاف کے رہنما محرم انسے انھیں مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔
2016 کی ناکام فوجی بغاوت اور صدارتی اختیارات میں اضافے کی ترامیم کے بعد الیکشن کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے تاہم فوج اور اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں سمیت اہم اختیارات نئے صدر کو ترکی کا مضبوط ترین سربراہ بنا دیں گی۔
صدارتی انتخابات میں کسی امیدوار کا 50 فیصد سے زائد ووٹ لینا ضروری ہے اگر کوئی ایک امیدوار یہ ہدف حاصل نہ کر سکا تو پھر زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں میں ایک بار پھر 8 جولائی کو مقابلہ ہوگا۔
(بشکریہ جنگ)