ڈاکٹر عبداللہ اردو دنیا کی بے مثال ہستی۔ان کی نظمیں اردو ادب میں روشن مستقبل کا اعلان کرتی ہے:پروفیسر ابوالکلام

واشنگٹن(ملت ٹائمز)

اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’ادب‘‘ تہذیب کا چہرہ ہوتاہے اور شاعری چہرے کا حسن، چہرہ اورخاص طور پرچہرے کے حسن اور اس کی نزاکت کے بغیر دنیا کی کسی خوبصورت شے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر کے دل سے نکلی بات قاری یا سامع کے دل تک براہ راست پہنچتی ہے۔ اور دیر تک اپنا اثر قائم رکھتی ہے۔ یہ بات ہندوستانی نژاد امریکی اورامریکہ میں مشاعرے کے موجد کہے جانے والے ڈاکٹر عبداللہ نے روز نامہ خبریں سے بات کرتے ہوئے کہی۔ امریکہ میں اردوادب کے حوالہ سے بنجر زمین کوزر خیز بنانے کے لیے بے تاب نظر آنے والے ڈاکٹر عبداللہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1961میں ایم ایس سی کیا ۔ بعد ازاں امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر عبداللہ نظم کے شاعر ہیں، بقول پروفیسر ابواکلام عبداللہ کی نظمیں اردو ادب میں نظم کے روشن مستقبل کا اعلان ہیں۔ امریکہ میں لوگوں کو اردو زبان سے وابستہ رکھنے کی عملی کامیاب جد وجہد کرنے اور اجتماعی طاقت پر یقین رکھنے والے ڈاکٹرعبداللہ امریکہ کی متعدد ادبی،سماجی، رفاہی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ ان کو زندگی کے مختلف شعبہ ہائے حیات میں گرانقدر خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے سرفراز کیاجاچکاہے۔ دو شعری مجموعہ ’ریت کی لہریں‘، ’ان کہی باتیں‘ اور ایک مضامین پرمشتمل کتاب ستیہ پال آنند کی نظم نگاری کے خالق ڈاکٹر عبداللہ کا کہناہے کہ اردوشاعری نے مشاعرے کی روایت اور مشاعرے کی روایت نے اردو شاعری کو پروان چڑھایا ۔ مشاعرے کی روایت ایک تہذیبی قوت، عملی موشگافیوں کے بھرپور اظہار کی وجہ سے ہماری ثقافتی تاریخ کا ایک حصہ ہیں، لیکن وہ مشاعروں کی کم ہوتی ادبی معنویت اور بڑھتی تفریحی حیثیت سے کافی فکر مند ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی اجتماعی کوششوں سے ہم ہر سال امریکہ کے مختلف شہروں میں جمعہ اور سنیچر کو مشاعرہ منعقد کرتے ہیں لیکن ہمارے مشاعرے اخلاقی اقدار، ادبی تہذیب کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ہم نے 1975سے 2017تک کبھی بھی مشاعرے کے اسٹیج کوسامان نمائش اور تماش گاہ بننے نہیںدیا۔ اردو ادب کے فہم سے نابلد گلے بازوں اور حسن کی نمائش کرنے والی متشاعرات کے ذریعہ تہذیبی روایات کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ بعض کے (میںسب کونہیں کہتا) اسٹیج پر سج سنور کر بیٹھنے تجھ سے مجھ سے مانگ کر پڑھنے والی یا پڑھنے والے گلے بازوں سے دور رکھا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے مشاعروں میںاخلاقیات کوتباہ وبرباد کرنے والے مشروبات پر بھی پابندی ہے۔ انہوںنے کہاممکن ہے کہ میری باتیں کچھ لوگوں پر گراں گزریں لیکن میرے نزدیک مشاعروں کی ادبی معنویت کو برقرار رکھنے کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ نے کہاکہ شاعری کی بابت میرا ہمیشہ سے یہ نظریہ رہاہے کہ جذبے کی شدت سے پھوٹنے والی خوشبو ہے جو لفظوں کا بہترین لبادہ اوڑھ کر اپنے خدوخال بناتی ہے۔ یہ محنت اور مشقت والا کام نہیں ہے، یہ الہامی عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ البتہ اتنا ضرور ہے کہ مطالعہ انسان کے فہم وادراک کو بڑھاتاہے۔ جس سے شاعری کو نئے موضوعات ملتے ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کئی دہائیوں سے مشاعروں کا معیار گراہے؟ ڈاکٹر عبداللہ نے کہا یقینا تہذیبی رویے زوال پذیر ہوئے ہیں جس کی بنیادی وجہ مشاعروں کی تعداد میں اضافہ نیز کاروباری مشاعروں کاآغاز اور شعراء کے فہم وادراک میں کمی کا واقع ہوناہے۔

امریکہ کے واشنگٹن میں رہائش پذیر ڈاکٹر عبداللہ نے کہاکہ پہلے شاعر ایک مخصوص تہذیبی رویہ کے ساتھ مشاعرے میں شریک ہوتے تھے۔ شیروانی شعراء کا لباس تھا، حسب مراتب کا خیال رکھاجاتا تھا، نئے لکھنے اور پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ کیفی اعظمی ،ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، علی سردار جعفری، احمد  فراز، انور مسعود ،مجروح سلطانپوری ،راہی معصوم رضا، پروین شاکر ، شہریار، بشیر بدر جیسے شعراء کرام میری دعوت پر امریکہ مشاعرے میں شرکت کے لیے تشریف لاچکے ہیں۔ امریکہ میں ہونے والے مشاعروںمیں خواتین شاعرات کی حاضری کم ہوتی ہے لیکن جن کو بلایا جاتا ہے وہ اپنے تہذیبی رکھ رکھاؤ اور تخلیقی عمل کے حوالے سے مشاعرے کی تہذیبی اور ادبی فضا سے ہم آہنگ ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹر عامر عبداللہ نے کہاکہ مشاعرے کے ادبی اورتہذیبی مزاج کے تحفظ کے لیے منتظمین اورناظم مشاعرہ دونوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب ہندوستان میںمنعقدہونے والے مشاعروں میں چند مستثنیات کے علاوہ جن شعراء وشاعرات کے لیے محترم ومحترمہ کے لاحقے اور سابقے لگائے جاتے ہیں سنتے وقت دل پر جبر کرنا پڑتاہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ اچھی آواز اوراچھی صورت پڑھے لکھوں کو بھی خوب پسند آتی ہے یہ آواز ان لوگوں کو بھی مسحور کرتی ہے جن کارشتہ آزادی کے بعد سے اردو سے کاٹ دیاگیا یا کٹ گیا ہے،جوشعری محاسن سے نابلد ہیں ، نتیجتاً معیاری شاعری اور شاعر پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دوسرے مشاعرے اب کاروباری شکل اختیار کرچکے ہیں۔ مجھے لگتاہے کہ اردو کی صفوںمیں کچھ بے وضو گھس آئے ہیں جنہوں نے مشاعرے کی روح کے تقدس کو پامال کرنے کا کام کیا ہے۔ لہٰذا اب سرکاری مشاعروں کی فہرست بھی اردوکی الف سے ناواقف سیاستدانوں کی سفارش پر بنائی جاتی ہے۔ سیاستدانوں تک پہنچنے کے لیے لوگ واقف کار ڈھونتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے لال قلعہ کامشاعرہ اپنی اہمیت اورمعنویت کھوچکا ہے۔

انہوں نے کہاکہ میں بے غرض ہوں اور جس میں غرض نہ ہو اس کو کوئی تلوار بھی نہیںکاٹ سکتی۔انہوں نے کہاکہ اردومشاعرے کے انعقاد میںمیںنے سفارشی کلچرکو اپنے پاؤں تلے روند دیا اور کوئی بھی مصلحت میرے پاؤں کی زنجیر نہیںبنی یہی وجہ ہے کہ امریکہ میںہونے والے مشاعرے اپنی تہذیبی روایات کے تعلق سے منفرد ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشاعروں کی مجروح ہوتی ادبی فضا پراگرہم نے فوری طور پر دھیان نہیں دیا تو وہ دن دورنہیں کہ مشاعرہ ہماری سماجی زندگی میں اپناکردارادا کرنے سے قاصر رہیںگے۔ انہوں نے کہاکہ یہ المیہ ہے کہ شعراء اور منتظمین سب کاروباری ہوگئے ہیں۔ ناظم مشاعرہ نے بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے شاعر کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ڈاکٹر عبداللہ نے کہاکہ کسی بھی زندہ قوم کی پہچان اس کی تہذیب، زبان، ادب، فلسفہ اورفنون لطیفہ سے ہوتی ہے، اس لئے باشعور قومیں علم وادب کی سرپرستی کرتی ہیں اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ کیوں نہ اس سے تعمیری کام لیاجائے اس لئے وہ شاعری میں کمال حاصل کرتے ہیں اور اس سے تعمیری کاموں کوانجام دینے کی ترغیب دلاتے ہیں اس لئے جہاںبھی سماجی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور یاانقلاب برپا ہوا ہے اس میں شعراء کا کردار کلیدی رہاہے۔ ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ جو قومیں ماضی سے کٹ جاتی ہیں ان کا جغرافیہ مٹ جاتاہے وہ تمام قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں جو اپنی تہذیب اور اپنے ادب کی حفاظت نہیں کرسکتیں۔ وہ قومیں آج بھی زندہ ہیں اوراپنے وجود کا احساس ساری دنیا کودلاتی رہتی ہیں۔ جنہوں نے اپنی تہذیب اوراپنے ادب کو مٹنے نہیںدیا۔ لہٰذا ادب اور شاعری قوموں کو زندہ و تابندہ رکھنے کے وسیلے ہیں اور بیان کا سب سے بہترین ذریعہ ہیں۔

زمانہ گواہ ہے کہ مشاعرے اورادبی وشعری محفلیں جہاں عوامی تفریح کے ذرائع تھیں وہیں تہذیب سیکھنے ، ذہنی سکون حاصل کرنے اورتصوف کے پہلے زینہ سے آخری زینہ تک کا سفر طے کرنے کے لیے شاعری کی مدد لی جاتی تھی کیونکہ جذبات وخیالات کے اظہار کے لیے اس سے بہتر اورموثر ذریعہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ شاعری کا جادو خانقاہوں سے شرفا ء کی محفلوں تک اورگلی کوچوں سے طوائفوں کے کوٹھوں تک سرچڑھ کر بولتاتھا۔ میر، غالب، حالی، حسرت اور اقبال جیسی عظیم شخصیات نے شاعری کے ذریعہ معاشرے کی اصلاح کی بات کی اور شعر ونظم لکھ کر معاشرے کی اصلاح کی تحریکات چلائیں۔ شاعری کی زبان میںاپنے جذبات وخیالات کا اظہار کیا ہے۔ شاعری ہمیں عشق مجازی کے راستے عشق حقیقی کی منزل تک پہنچاتی ہے جہاں پہنچ کر انسان دنیا کے تمام غموں اورالجھنوں سے نجات پالیتاہے۔ اس بنا پر شاعری محض تفریح ہی نہیں بلکہ یہ ہمیں اعلیٰ اقدار اورفکر کی طرف لے جاتی ہے۔ڈاکٹر عبداللہ نے کہاکہ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ شاعری کو کثافتوں سے بجایاجائے،تاکہ ہمارے قوم کے نوجوان تفریح کے ساتھ ساتھ ہماری کھوئی ہوئی تہذیب سے روشناس ہوسکیں ۔

SHARE