مفتی محمد اللہ قیصر
مدرسہ میں جب رمضان کی چھٹی ہوتی تو ہمارے علاقہ میں دارالعلوم دیوبند کے نئے فارغین اور زیر تعلیم طلبہ کی ایک کھیپ پہونچتی، ان کی چہل پہل اور آؤ بھاؤ سے لگتا کہ یہ لوگ کسی قسم کی تحریک کے سلسلہ میں کام کر رہے ہیں، پوسٹر شائع ہوا تو پتہ چلا کہ “اسٹوڈنٹس اسلامک فیڈریشن” نامی کوئی تنظیم ہے جو علاقہ میں “تعلیمی بیداری” کے عنوان سے ایک تحریک چلارہی ہے، ذمہ داران میں ایک نام تو جانا پہچانا تھا ” مفتی اعجاز ارشد قاسمی” انہیں بچپن سے جانتا تھا، دوسرا نام تھا “مفتی ضیاء الحق قاسمی” میں اس نام سے انجان تھا، لیکن لیکن اپنے بڑے بھائی مولانا سعداللہ قاسمی ،گاؤں کے دیگر طلبہ اور علم دوست نوجوانوں کی زبان پر اس نام کا بڑا چرچا تھا۔
مفتی ضیاء الحق صاحب کی خوبیوں کا بیان ہوتا، ان کی متحرک اور فعال شخصیت کا تذکرہ ہوتا، عزم و حوصلے کی ستائش کی جاتی، وسائل کی کمی کا شکوہ کئے بغیر کچھ کر گزرنے کے لا محدود جذبہ کی مدح سرائی کی جاتی، ان کی خورد نوازی کو سراہا جاتا، گاؤں اور علاقہ کے تمام طلبہ خواہ مدرسہ کے ہوں یا اسکول کے ان کی چھوٹی چھوٹی کامیابی پر حوصلہ افزائی کے انوکھے انداز کا چرچا ہوتا، غرضیکہ کہ ہم چھوٹے طلبہ جب اپنے بڑوں کو مفتی ضیاء الحق صاحب کی مدح سرائی اور ان کی خوبیوں کی ستائش میں رطب اللسان دیکھتے تو دل میں ایک تجسس اور ٹوہ کا جذبہ پیدا ہوتا ان کو جاننے اور دیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی، ہم نے ان کے بارے میں اتنا سنا کہ بن دیکھے اور جانے ہم (میں اور دیگر مدارس میں پڑھنے والے گاؤں کے اکثر طلبہ) انہیں اپنا آئیڈیل بنا چکے تھے،پھر 1999 کے اخیر میں دورۃ حفظ کےلئے مدرسہ حسینیہ رانچی پہونچا تو ہر کسی کی زبان پر ایک مفتی صاحب کا تذکرہ تھا،علم دوست ہیں، پڑھانے کا انداز انوکھا ہے،عسیر الفہم اسباق کو سمجھانے کا انہیں بڑا ملکہ ہے، طلبہ کی حوصلہ افزائی اس طرح کرتے ہیں کہ لنگڑاتے ہوئے طالب علم میں دوڑنے کا حوصلہ پیدا ہو جاتاہے، طلبہ کو مانوس کرنے کے انیک ہنر سے واقف ہیں، طلبہ میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے نت نئے طریقے جانتے ہیں، وہ بیباک ہیں، جری ہیں، مرعوبیت چھوکر نہیں گذرتی وغیرہ وغیرہ دیکھنے کا شوق ہوا ساتھیوں سے معلوم کیا تو کسی نے بتایا کہ یہی ہیں وہ مفتی صاحب، ان کا پورا نام ہے مفتی ضیاء الحق قاسمی، گول مٹول چہرہ، گندمی رنگ، میانہ قد، گٹھیل جسم،چوڑی پیشانی، اور چمک دار آنکھیں حرکت و نشاط سے لبریز بھر پور زندگی کی غمازی کر رہی تھیں، پھر دھیرے دھیرے ان کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا گیا، یہ تفصیلات بھی معلوم ہوئیں کہ مفتی ضیاء الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا آبائی وطن مدھوبنی کا ایک مشہور گاؤں بھیروا تھا، بچپن میں ہی والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی کی ذہانت، محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے ان کی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا،حصول علم کے جذبہ سے سرشار نوخیز طالب علم نے مصائب و مشکلات کی زنجیروں کو روئی کے گالوں کی طرح روندتے ہوئے کامیابی کی ہر منزل طے کرکے ثابت کر دیا کہ …
جو ہو عزم سفر پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ۔
مدرسہ حسینیہ میں حفظ کرنے کے بعد دیوبند آئے ،ابتدائی درجہ میں دارالعلوم میں داخلہ مل گیا، تمام درجات میں مسلسل اعلی درجے سے کامیابی حاصل کرنے کی وجہ سے بہت جلد اساتذہ کے منظور نظر بن گئے، اساتذہ کی توجہ نیز اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے بہت جلد کامیابی کے زینے طے کرنے لگے، ضلعی اور مرکزی انجمنوں کے ہر پروگرام میں پیش پیش رہتے، دارالعلوم کے مشہور شعبہ مناظرہ سے مفتی صاحب کو اندرون دارالعلوم نمایاں شہرت ملی، زمانہ طالب علمی میں ہی ہندو مت کے خلاف ان کا مطالعہ بہت وسیع ہوگیا تھا جس سے ان کی خوداعتمادی قابل رشک ہوگئی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ سفر ہو یا حضر کہیں بھی کسی پنڈت یا ہندومت کے ماہرین، کسی سے علمی مباحثہ کرنے سے نہیں چوکتے، 1995 میں دورۃ حدیث شریف کے بعد 1996 میں شعبئہ افتاء میں داخل ہوئے، اس کے بعد درس و تدریس سے جڑ گئے، اسی دوران انگلش کیلئے ٹیوشن بھی لیتے رہے، دھن کے پکے تھے، اس لئے بہت جلد یہ زبان بھی ان کی دسترس میں آگئی۔
احترام اور رعب میں دقیق فرق سے بخوبی آگاہ تھے، اس لئے بڑی سے بڑی عظیم شخصیت کے مکمل احترام کے ساتھ ان سے مرعوب نہ ہونے کے ہنر سے جتناوہ واقف تھے کسی اور کو نہیں دیکھا، عموما دیکھا جاتا ہے کہ فارغین مدارس اپنے حلقہ سے نکلنے کے بعد علوم عصریہ کے واقف کاروں کے بیچ بہت جلد مرعوبیت کا شکار ہو جاتے ہیں، نئی دنیا اور نئے لوگوں میں پہوچتے ہی بالکل خاموش ہوجاتے ہیں یا تکلفاً خود اعتمادی ظاہر کرتے کرتے حد سے زیادہ خود اعتماد (over confidence) کا شکار، جس کے اندر عموماً آداب مجلس کی تمیز تقریبا معدوم ہوتی ہے، اب اسے خود اعتمادی کی کمی کہئے یا زمانے کی چال سے عدم واقفیت، لیکن عموماً ہوتا یہی ہے۔
مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مکمل متوازن خود اعتمادی کی دولت سے پوری طرح مالا مال تھے، اسلئے جب کبھی کسی مجلس میں اپنی بات رکھتے تو اس اعتماد کے ساتھ کے مخاطب کا اعتقاد خود اپنی رائے کے تئیں متزلزل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ مجلس کے آداب سے ایسے واقف تھے جیسے مالی اپنے باغ کے پھولوں اور ان کی خوشبو سے آگاہ ہوتا ہے،جتنی دیر محفل میں رہتے کیا مجال کہ وہاں خاموشی کا گذر ہو، ظرافت اور خوش طبعی ان کی فطرت تھی، خوب ہنستے ہنساتے، سنجیدہ گفتگو کا حق اداکرنا ان کا خاصہ تھا، یاروں کے باوفا یار تھے، اور دشمن کے تئیں انتہائی نرم رویہ اپناتے، یہی وجہ ہے کہ ان کے دوستوں کی تعداد لا متناہی اور دشمن ڈھونڈنے پر نہیں ملتے ہیں، وہ کسی مجلس میں جاتے ہی چھاجاتے، وہ خطابت میں اپنی مثال آپ تھے، سنسکرت میں بھی شد بد حاصل کر چکے تھے، ہندو مذہبی کتابوں کے جملے ازبر تھے، جب جلسوں میں سنسکرت کے جملے سناتے تو لگتا کسی پنڈت کا پاٹھ چل رہا ہے، خوش بیانی پر آتے تو محفل میں قہقہوں کی بارش ہوتی، اور کبھی شعلہ بار تقریر کی ضرورت پڑتی تو لوگوں کے قلب ودماغ کو جھنجھوڑ دیتے، جھاڑکھنڈ کے دیہی علاقوں میں قادیانیوں نے جب پیر پسارنے شروع کئے تو مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہاں بھی سینہ سپر نظر آئے ۔
مفتی صاحب طلبہ کو جسمانی ورزش کی خصوصی تلقین کرتے تھے،چونکہ خود کراٹا سیکھ چکے تھے لہذا وہ مدرسہ حسینیہ میں ایک عرصہ تک طلبہ کو کراٹا سکھاتے رہے، ان کاکہناتھاکہ تھا کہ جسمانی ورزش سے جسم میں چستی اور دماغ میں نشاط رہتا ہے جو دماغی کام کرنے والوں کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ مفتی صاحب کا اصل زور طلبہ کی ذہنی تربیت پر تھا، عموما درس کے بعد عوام میں اسلامی کاز کے نت نئے طریقوں پر، دور حاضر کے جدید چلینجز ، اورکبھی کبھی ملک کے موجودہ سیاسی حالات پر طلبہ کے ساتھ اس طرح بحث کرتے جیسے خود کچھ نہیں جانتے، وہ ابتداء اپنے تجربات اور معلومات پیش کرنے سے زیادہ طلبہ کی رائے لیتے، ہر ایک کو اپنا موقف ثابت کرنے کا بھر پور موقع دیتے، پھر گفتگو کے اخیر میں ان کی صحیح رہنمائی کرتے ،مقصد یہ تھا کہ طلبہ میں حالات کے تئیں رائے پیش کرنے کا سلیقہ پیدا ہو اور ان کے اندر نئے ماحول اور نئے حالات میں مشکلات کے بھنور سے نکلنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ ان کا مزاج تحریکی تھا، جس فکر پر جم جاتے اس سے سر مو انحراف کی گنجائش نہیں تھی، پوری قوت سے اپنا موقف پیش کرتے اور شدت سے اس کیلئے ذہن سازی کرتے، ان کے بعض خصائل قابل رشک تھے، پتہ نہیں ناامیدی اور قنوطیت کو ان سے اتنابیر کیوں تھا، اللہ پر مکمل بھروسہ کا نتیجہ تھا یا کچھ اور،ہم نے دیکھا کہ بدترین حالات میں بھی سد سکندری کی طرح ڈٹے رہنا ان کی جبلت میں شامل تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی مثال آپ تھے، اتنی کم عمری میں اتنا کمال پیدا کرنا اور بغیر کسی بیک گراؤنڈ کے ایسے سماج میں خودکو منوانا جہاں بغیر خاندانی سپورٹ کے ایک منٹ کیلئے ٹک پانا مشکل ہوتا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے اندر خوب سے خوب تر کی تلاش کا جذبہ کس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، انہوں نے جتنی زندگی گذاری بھرپور گذاری ہر لمحہ سے فایدہ اٹھایا، ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی امت کے نونہالوں کو ان سے بہت کچھ ملنے والا ہے لیکن موت نے کس کا انتظار کیا ہے، وہ تو اپنے وقت سے ایک ثانیہ آگے پیچھے نہیں ہوتی، وہ نہیں دیکھتی کہ فلاں کی ذات انسانیت کیلئے کتنی مفید اور کتنی مضر ہے، وہ تو اپنے مقررہ وقت پر آکر انسان کو لے جاتی ہے یہ بھی نہیں دیکھتی کہ اس کا کام ادھورا پڑا ہے، اس کے جانے سے انسانیت کا کیا نقصان ہونے والاہے، “وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ”
ہم آپ روتے رہیں بلکتے رہیں، یقین کریں نہ کریں لیکن مفتی صاحب تو اس دار فانی کو الوداع کر مالک حقیقی کی رحمت کی آغوش میں چلے گئے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا