سیتامڑھی (امین الرشید )
علمائے دیوبند کا علمی کارنامہ اورآزاد ہند میں کلیدی کردارکے عنوان پر گذشتہ دنوں سیتامڑھی ضلع کے مہسول چوک پر واقع مدنی مسافر خانہ میں ایک اہم مجلس منعقد کی گئی،اجلاس کی صدارت مولانا حکیم ظہیر احمد صاحب قاسمی ناظم وبانی جامعہ طیب المدارس پریہار نے کی ۔نظامت مولانا رضوان القاسمی نے کی ۔مجلس کا آغاز قاری محمد مامون الرشید استاد مدرسہ طیب المدارس پریہار کی تلاوت سے ہوا، مولانا عظمت نے عمدہ آواز میں نعت نبی پیش کیا، مولانا شوکت صاحب قاسمی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا مقام اور انکے کارنامے پر روشنی ڈالی اور فرمایا۔حافظ ابن کثیر شافعی نے امام اعظم ابوحنیفہ کے بارے میں فرمایا ہے : وہ امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی ہیں ، عراق کے فقیہ ، ائمہ اسلام میں سے ایک ہیں ، عظیم سرداروں میں سے ایک ہیں ، ارکان علماءمیں سے ہیں ، صاحب مذاہب متبوعہ کے چار اماموں میں سے ایک ہیں ، طویل حیات پائے ، اس لیے انہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا ۔حدیث میں ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ پرہاتھ رکھ کر فرمایا “اس کی قوم “اور فرمایا” خدا کی قسم اگر ایمان ثریا پر جا پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار لائیں گے۔
مولانا عبدالودود صاحب مظاہری پرنسپل مدرسہ رحمانیہ مہسول نے فرمایا کہ مسلمانوں کی موجودہ صورت حال ان کا اپنے رب سے رشتہ کمزور کر لینے کی وجہ سے ہے اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا میں آپ کو عزت کا مقام حاصل ہو اور آپ اللہ کے پسندیدہ بن کر زندگی گزاریں تو آپ کو اپنے ایمان اور عمل صالح کا محاسبہ کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ علمائ کی جہاں یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امت کے اندر اعمال صالحہ کی تڑپ پیدا کرنے کی فکر کریں وہیں عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عملی کردار کا محاسبہ کر کے اپنی زندگی میں اصلاح پیدا کرنے کو یقینی بنائیں انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اپنی نسلوں میں مکمل دین کو پیدا نہیں کر دیتے اس وقت تک صالح معاشرہ کی تعمیر ممکن نہیں ۔
مولانا اظہار الحق صاحب مظاھری نائب ناظم الجامعة العربیہ اشرف العلوم کنہواں نے فرمایا کہ علمائے دیوبند ہمیشہ تعمیری کام کیاہے ۔اور مثبت فکر و کردار کے ساتھ میدان عمل میں کار نامے انجام دے رہے ہیں آپ نے فرمایاکہ تقلید انسان کی فطری ضرورت ہے اور اس سے آزادی بے راہ روی اور بے دینی کے دروازے کو کھول دے گی۔مولانا قاری شبیر صاحب قاسمی ناظم مدرسہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ نے دارالعلوم دیوبند کا قیام اور اس کاپس منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہان تمام حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد جو ہم بارہویں صدی ہجری میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور آپ کے اہل خاندان کی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو آپ نے رجوع الی القرآن کے مقصد سے آسان تفہیم کے لیے فتح الرحمن نامی فارسی ترجمہ کی خدمت انجام دی اور آپ کے صاحبزادوں میں حضرت شاہ عبدالعزیز نے فارسی میں ایک عظیم تفسیر لکھنی شروع کی جو مکمل نہ ہوسکی اور اس تشنگی کا آج بھی اہل علم میں احساس پایا جاتا ہے۔ پھر ان کے بعد آپ کے برادران حضرت شاہ عبدالقادر وفات ۱۲۳۰ھ اور شاہ رفیع الدین وفات ۱۲۳۳ھ نے بامحاورہ اور تحت اللفظ ترجمے تحریر فرمائے جو بعد کے تفسیری کام کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کے نصاب کے لیے آپ نے مختلف علوم وفنون پر کتابیں مدون فرمائیں جو آئندہ مدارس کے لیے ایک مشعل ہدایت ثابت ہوئیں۔
اس کے علاوہ حضرت شاہ ولی اللہ اوران کے ہمنوا علمائ کرام نے ایک انقلابی جماعت کی بنیاد ڈالی جس کے تیسرے امام حضرت شاہ عبدالغنی اورآپ کی وفات کے بعد چوتھے امام حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (وفات ۱۳۱۷ھ ۱۸۹۹/)(۸) مقرر ہوئے۔ نیز آپ کے شرکا میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (وفات ۸/۶/۱۳۲۳ھ) اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی خاص طور پر شامل تھے۔ ان حضرات نے ایک طرف عملاً انگریز کے خلاف جہاد کا آغاز کیا جو بہمہ وجوہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوا۔ دوسری طرف حضرت حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی (وفات ۱۲۲۷ھ- ۱۸۸۰/) اور آپ کے رفقائ نے اپنی فراست ایمانی اور دیدہ بصیرت سے اندازہ لگایا تھا کہ ان نازک حالات میں اگر مسلمانوں کو قرآن وحدیث اور دیگر علوم اسلامیہ سے واقف کرانے کا کوئی معقول اورمستحکم بندوبست نہ کیاگیا تو سخت خطرہ ہے کہ مسلمان کہیں نصرانیت کے جال میں نہ پھنس جائیں۔ بس انھیں خیالات کے پیش نظر مورخہ ۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ بمطابق ۱۸۶۷/ بروز جمعرات کو دیوبند کی مبارک سرزمین پر چھتہ کی مسجد میں انار کے درخت کے نیچے ہدایت کا یہ شجرطوبیٰ وجود میں آیا۔اس طرح ابتدا میں یہ مدرسہ عربی اور پھر دارالعلوم کے معروف نام سے موسوم ہوا۔اس کی مقبولیت کا اندازہ صرف ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۲۸۷ھ سے لے کر ۱۴۲۷ھ تک یعنی تقریباً ۱۴۴ سال میں ایک لاکھ پچھتّرہزار اٹھارہ فضلائ دارالعلوم سے فارغ ہوکر دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ چکے ہیں۔(۹) اور دین مبین کی والہانہ خدمت کا فریضہ انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کی مساعی جمیلہ کو قبولیت سے نوازے اور دارالعلوم کا چشمہ فیضان تشنگان علوم دینیہ کو سیراب کرتا رہے۔ آمین۔مولانا محمد انوار الحق صاحب قاسمی پھلوریہ نے علمائے دیوبند کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی لوگ اصل میں قرآن وسنت کوسمجھ کر لوگوں کے سامنے پیش کر نے والے ہیں ۔اخیر میں حضرت مولانا حکیم ظہیر احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کے رقت آمیز دعاءپر مجلس کااختتام ہوا۔اجلاس کاانعقاد” نوجوانان یواکمیٹی مہسول چوک “سیتامڑھی نے کیا ۔
اجلاس میں بڑی تعداد میں علماءو عوام نے شرکت کی جن میں مفتی فیاض احمد حمیدالقاسمی ناظم وبانی مدرسہ مدینتہ المعارف مرزاپور، حضرت مولانا خورشید عالم صاحب قاسمی بلہا منورتھ، محمد امین الرشید سیتامڑھی، مولانا ممتاز احمد صاحب قاسمی امام جامع مسجد مہسول چوک،حضرت مولانا بچے صاحب، جناب شمش شاہنواز صاحب ضلع یواکانگریس کمیٹی، جناب حاجی محمد مختار صاحب، جناب حاجی صغیر احمد صاحب، جناب نغمی انورصاحب، حاجی عبداللہ صاحب وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں ۔