عبدالغنی (ارریہ)
صالح، پاک، صحت مند اور ترقی پذیر معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں اساتذہ کا کلیدی رول ہواکرتا ہے
کوئی بھی قوم اور معاشرہ تعلیم کے بغیر کامیابی کی منزل کو نہیں پاسکتا ہے ظاہر ہے تعلیم کی ترویج و اشاعت اور فروغ میں اساتذہ کا اہم کرداف ہوتا ہے تعلیم کا حصول استاد کے بغیر ممکن نہیں ہے اساتذہ قوم و ملک کے معمار ہیں قوم کے نونہالوں اور قوم کے نوجوانوں کو کامیاب اور فرض شناس شہری بنانے سے لیکر طلبا کی سیرت کو سنوارنے اور کردار سازی کا فریضہ اساتذہ ہی سرانجام دیتے ہیں جس طرح ٹھوس تعلیمی پالیسی اور ہدف کے بغیر کوئی قوم ترقی کے شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتی ہے بعینہ اساتذہ کے بغیر علمی فتوحات اور سائنسی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے گویا قوموں کی قسمت کا انحصار اساتذہ کے کاندھوں پر ہے اور قوم کی اقبال مندی، ترقی و تنزکی میں معکم کا کلیدی ہوا کرتا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صالح، پاک، صحت مند اور ترقی پذیر معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں اساتذہ کا کلیدی رول ہواکرتا ہے اساتذہ ہمارے معاشرہ کی وہ عظیم ہستیاں ہیں جو قوم ہے نونہالوں اور نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ و پراستہ کرتے ہیں، سلیقہ سکھاتے ہیں اور قوموں کو نئی زندگی دیتے ہیں نیز طلبا کو روزمرہ کی تعلیم و تربیت دینے کے علاوہ ایک مضبوط، اصول پسند، فرض شناس اور ذمہ دار شہری بناتے ہیں خون جگر صرف کرکے طلبا کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں آداب زندگی اور مقصد حیات سے بچوں کو واقف کراتے ہیں طلبا کو زندگی جینے کا شعور و سلیقہ بخشتے ہیں مستقبل کے چیلنجوں کے لئے طلبا کی ذہنی تربیت کرتے ہیں چونکہ آج کا طالب علم ہی کل ہندوستان کا مستقبل اور امید ہے اساتذہ اور طلبا کے مابین کی رشتہ کی صداقت کے مختلف مثالیں ہیں جو استاد کی عظمت کے لئے کافی ہے اسی طرح طلبا کا اساتذہ کے تئیں فرمانبردار ،خوش مزاج ہونا بھی جگ ظاہر ہے معلم انسانیت حضرت محمدؐ نے ابوک ثلاثہ سے ارشاد فرمایاکہ” تمہارے تین باپ ہیں ایک وہ جو تمہیں اس دنیا میں لایا، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم دیا اور فرمایاکہ ان سب میں افضل تمہارے لئے وہ ہے جس نے تم کو علم دیا” استاد کے مقام و مرتبہ اور عظمت کے لئے اس سے زیادہ اور کیا کہا جاسکتا ہے ۔
زمانہ کی مختلف خرابوں کی زد میں تعلیمی ادارے بھی ہے تعلیم جب سے منفعت بخش تجارت کی شکل اختیار کرگیا ہے اس کی وجہ سے اساتذہ اور طلبا کے درمیان جو ایک شفیق استاد اور فرمانبردار طالب کے درمیان آداب و احترام اور شفقت کا جذبہ موجزن تھا اس میں کمی واقع ہوئی ہے البتہ ختم نہیں ہوا ہے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اسٹرائک، گینگ وار ، اور پسٹل بازی اور اساتذہ کے ساتھ دست و گریباں ہونا طلبا کی اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے تاہم رشتے ختم نہیں ہوئے ہیں بالکہ اب باضابطہ طور پر اساتذہ کے لئے ان کے اکرام و اعزاز کے لئے ان کی پذیرائی کے لئے ایک خاص دن مقرر ہے ہرسال پانچ ستمبر کو ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں نہایت تزک و احتشام کے یوم اساتذہ تقریب کا انعقاد ہوا کرتا ہے جس میں ننھے منھے بچے سے لیکر یونیورسٹی کے طالب علم اپنے اساتذہ کو پیار،خلوص، محبت، اور ادب و احترام کی ملی جلی کیفیات سے لبریز ہوکر قیمتی تحائف پیش کرتے ہیں اساتذہ بھی فوری طوری پر ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتے ہیں جبکہ یوم اطفال پر بچے بھی نوازے جاتے ہیں یوم اساتذہ کی مناسبت سے درسگاہوں میں تقریبات کا بھی اہتمام ہوتا ہے جس میں استاد کی عظمت بیان کی جاتی ہے ان کے احترام کرنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں ان کے خدمات کو یاد کیا جاتا ہے ملک و سماج کے لئے بمثل شمع جل روشنی بخشنے اور ان کی عظیم خدمات کو یاد کیا جاتا ہے ان کے کاموں کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے جبکہ طلبا اساتذہ کی عزت و احترام کریں گے کا حلف لیتا ہے عہد کرتا ہے۔
سماج، سوسائٹی اور قوم کو بھی استاد کی قدر کرنی چاہئے ان کا عزت و اکرام کرنا چاہئے چونکہ اساتذہ ہی واحد ذریعہ ہے جو قوموں کو سر بلند کرکے جینے کا شعور و سلیقہ اور حوصلہ بخشتا ہے ان کے درسگاہ سے ہی علاقہ اقبالؒ جیسے فلسفی مفکر شاعر اور اے پی جے عبدالکلام جیسے سائنسدانوں نے جنم لیا ہے اساتذہ کرام کو بھی اپنے عہدے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے نہایت تندہی اور ایمانداری و اخلاص کے ساتھ فرائض منصبی کو اداکرنا چاہئے،مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج جب کہ قارئین اس مضمون کو پڑھ رہے ہونگے وہ پانچ ستمبر ہوگا جس وقت ملک کے بڑے بڑے شہروں سے لیکر گاؤں اور قصبوں تک میں قائم چھوٹے بڑے سرکاری اور غیر تعلیمی اِداروں میں ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ اور ماہرین تعلیم ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش کی مناسبت سے یوم اساتذہ منایا جارہا ہے اور آج ہی کے دن وطن عزیز ہندوستان کے صوبہ بہار کے کانٹریکٹ پر تقریبا چار لاکھ اساتذہ اپنے دیرینہ مانگ ” مساوی کام کے بدلہ مساوی تنخواہ” کی حمایت میں بطور احتجاج کالا بلہ لگاکر اپنے فرائض منصبی اداکررہے ہیں نیز آج ہی کے دن سپریم کورٹ میں اساتذہ یونین بنام بہار اسٹیٹ گورنمنٹ کیس کی سماعت بھی ہوگی جہاں سرکار اور اساتذہ یونین برسرپیکار ہیں حکومت بہار کی مسلسل عدم توجہی کے سبب بہار کے تقریبا ۴ چار لاکھ کانٹریکٹ اساتذہ ذہنی کرب اور معاشی سنگینیوں میں مبتلا ہیں تنخواہ اور دیگر مراعات کے اضافہ کی مطاکبہ کے تحریک میں گزشتہ چار سالوں سے بہار کا تعلیمی نظام متأثر ہوکر رہ گیا ہے جس میں اساتذہ یونین اور سرکار کی رسہ کشی میں قوم کے نونہالوں کا مستقبل تاریک ہورہا ہے اساتذہ یونین کی اسکولوں میں تالابندی، کاپی جانچ کا بائیکاٹ کو قطعی سراہا نہیں جاسکتا ہے مگر حکومت بہار کا اساتذہ کے ساتھ سوتیلا سلوک رویہ بھی نازیبا عمل ہے ۔
سرکار کے اڑیل رویہ کے سبب بہار کے کانٹریکٹ اساتذہ کے تقریبا دو درجن سے زائد یونین گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے مساوی کام کے بدلہ مساوی تنخواہ کے لئے سراپا احتجاج ہے جس میں پٹنہ ہائی کورٹ میں حکومت بہار کو منھ کی کھانی پڑی تھی اس کے بعد سرکار نے ریوینیو کے مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس میں سال رواں کے مارچ سے اب تک کیس زیر سماعت ہے سرکار مختلف حیلوں اور بہانوں سے اپنی گردن چھڑانا چاہتی ہے سرکار کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ اپنے ہی ملازمین کو اپنا ماننے سے سرے سے انکاری ہے اور فنڈنگ کا رونا بھی روتی ہے جبکہ بیشتر حضرات کے علم میں ہے کہ تعلیمی مد میں اخراجات کے لئے اسٹیٹ کو کم ہی خرچ کرنا پڑتا ہے ۶۰ فیصدی اخراجات مرکز کے ذمہ ہے علاوہ ازیں محکمہ تعلیم کا مختص فنڈ بھی خرچ نہیں ہونے کے سبب مختلف موقعوں پر ریٹرن ہوجاتا ہے۔
غورطلب پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹش جگدیش کھیہروالی صدارت کی بنچ نے ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۶ کو جگجیت سنگھ بنام پنجاب اسٹیٹ کیس میں مساوی کام بدلہ مساوی تنخواہ اور کم ازکم پے اسکیل کی سماعت کرتے ہوئے تاریخی فیصلہ سنایا تھا اور مرکز سمیت تمام ریاستی حکومت کو مساوی کام کے بدلہ مساوی تنخواہ اور مینیمم پے اسکیل کے نفاذ کا فیصلہ سنایا تھا اور صوبائی سرکاروں کو اس کا مکلف بھی کیا تھا کہ مذکورہ فیصلہ کے مطابق آڈر کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے اس کے بعد پنچاب سمیت چھتیس گڑھ وغیرہ میں کانٹریکٹ پر بحال اساتذہ اور دیگر ملازمین کو اس کا فائدہ ملا مگر حکومت بہار نے ہائی کورٹ پٹنہ کا رخ کیا جہاں شکست ملی اس کے بعد پھر سپریم کورٹ میں اپنی ناتوانی کا ڈھونگ رچ رہی ہے پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے یہ طے ہے کہ اساتذہ کو ان کا جائز حق ملےگا حقوق کی حصولیابی کی خاطر اساتذہ یونین سپریم کورٹ میں پانی کی طرح پیسہ بہارہا ہے تاریخ پہ تاریخ مل رہی ہے ظاہرہ سپریم کورٹ کپل جیسے وکلاء کی فیس جو لاکھوں روپئے میں ہے اس کو اساتذہ ہی ادا کررہے ہیں مگرہ موجودہ سرکار کی اساتذہ کے تئیں سوتیلا رویہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جس میں قوم کے معماروں کے جائز مطالبات کو درگزر کیا جارہا ہے اساتذہ کا مالی تنگی کے سبب نظام زندگی بری طرح متأثر ہوکر رہ گیا ہے۔
کسی بھی قوم یا معاشرہ کی تنزلی کا ایک اہم سبب “قومی اثاثوں” کی بے حرمتی بے وقعتی بھی ہے لہذا حکومت بہار کو قوم کی خاطر بہار کے لاکھوں اساتذہ کے دیرینہ مطاکبہ کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے تاکہ ریاست میں خوشگوار ماحول میں تعلیم و تعلم کا نظام قائم ہوسکے اور بہار پھر سے دنیا کے نقشے پر ماضی طرح وکرم شیلا اور نالندہ یونیورسٹی جیسا مقام پاسکے اساتذہ اور طلبا کو یوم اساتذہ کی مبارکباد زندہ قومیں اپنے بزرگوں بڑوں اور اساتذہ کا احترام و عزت کرتی ہے لہذا آج کے دن طلبا کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم اساتذہ کا احترام کریں گے اور اساتذہ کو مخلص و مشفق بن کر قوم کی خدمت کا عزم بالجزم کرنا ہوگا یوم اساتذہ کادن ہمیں یہی پیغام دیتا ہے۔
abdulghani630@gmail.com