محمد شمیم اختر ندوی
موت برحق ہے ہر جاندار کو موت کا مزہ چھکنا ہے ۔لیکن کچھ لوگوں کی موت کا صدمہ بہت دیر تک محسوس کیا جاتا ہے اور جنکو بھلانے میں زمانہ لگ جاتا ہے ایسی ہی شخصیت حضرت مولانا مظہر عالم قاسمی رحمہ اللہ علیہ بن عزیز الرحمان (بانی و مہتمم دارالعلوم عزیزیہ میراروڈ و صدر جمعیہ علماء میرا بھائیندر ) کی تھی جن کی وفات حسرت آیات آج مورخہ 3 ستمبر 2018 کو دوپہر تقریبا ڈھائ بجے میرا روڈ میں ہوئ اور اپنے پیچھے بہت سوں کو روتا بلکتا چھوڑ گئے (انا للہ و انا الیہ راجعون )
ولادت باسعادت
مولانا مرحوم کی ولادت اپنے آبائ گاوں برار ضلع سیتامڑھی بہار میں سن 1945 میں ایک خوش حال تعلیم یافتہ گھرانہ میں ہوئ
تعلیم و تربیت
مولانا مرحوم کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے نامور چچا اور مشہور عالم دین حضرت مولانا مفتی عبد العزیز بہاری رحمہ اللہ علیہ (بانی و مہتمم دارالعلوم امدادیہ ممبئ )کے زیر نگرانی ہوئ بلکہ کئ ایک کتابیں براہ راست چچا محترم سے پڑھیں ۔چچا کی وفات کے بعد انکے ہی تربیت یافتہ اپنے بڑے بھائ مفتی مظفر عالم قاسمی حفظہ اللہ کے زیر نگرانی تعلیمی سفر جاری رہا۔دارالعلوم امدادیہ کے بعد دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وقت کے اکابر علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے ہوئے اعلی علوم کی تکمیل فرمائ
عملی زندگی کا آغاز
دارالعلوم سے فراغت کے معا بعد آپ جب کسب معاش کے لئے ممبئ آئے تو بڑے بھائی کے مشورہ سے اسٹیشن سے متصل مسجد باندرہ ویسٹ(مسلک اعلی حضرت ) میں امام و خطیب کی حیثیت سے لگ گئے اورتقریبا سات سال مولانا مرحوم یہاں اس منصب پر حکمت کے ساتھ فائز رہے اور اس طرح الحمدللہ بہتوں کو بدعات و خرافات سےتوبہ و انابت کی توفیق ملی۔ویسے بھی اس دور میں آج کی طرح مسلکی تصادم نہیں تھا۔
دارالعلوم عزیزیہ میراروڈ کی بنیاد
باندرہ میں امامت کے دوران ہی مولانا مرحوم نے محسوس کیا کہ بدعات و خرافات کا قلع قمع کرنے کیلئے مضافات ممبئ میں بھی دارالعلوم قائم کیا جانا چاہئے ۔چنانچہ حاجی غلام رسول علیہ الرحمہ (سانتا گروز )حاجی عبد القیوم علیہ الرحمہ (باندرہ )و دیگر اکابر و سرمایہ داران ممبئ سے مشورہ کے بعد سن 19 76 میں دارالعلوم عزیزیہ میراروڈ کی داغ بیل ڈالی اور پھر باندرہ کی امامت سے مستعفی ہوکر ہمیشہ ہمیش کیلئے عزیزیہ کے ہی ہوکر رہ گئے ۔میرا روڈ آج کی طرح سر سبز و شاداب نہیں تھا نہ لائٹ کا نظم نہ کوئ بڑی آبادی صرف چند ایک مکانات تھے ۔بڑی مشکلات و مصائب سے گزر کر آج میراروڈ ترقی پذیر ہوا تو دارالعلوم عزیزیہ کو بھی ترقی ملی۔
دور اہتمام کی نمایاں خصوصیات
مولانا مرحوم کے دور اہتمام میں دارالعلوم عزیزیہ کو بے پناہ مقبولیت و محبوبیت حاصل ہوئ اور ہمہ جہت ترقی نصیب ہوئی ۔حفظ و قرات کے ساتھ عربی ششم تک کی عمدہ تعلیم کا نظام قائم ہوا اور طلبہ سال بسال دارالعلوم دیوبند جانے لگے اور کامیاب ہونے لگے۔اسی طرح کاشی میرا میں تقریبا 18 ایکڑ جگہ خریدی گئی اور ایک بڑی بلڈنگ بھی بنائ گئ مگر افسوس کہ کسی سبب گورنمنٹ نے اس بلڈنگ کو منھدم کرادیا لیکن الحمد للہ پوری جگہ کی باونڈری ہوگئ یے اور دارالعلوم عزیزیہ کی تحویل میں ہے ۔مستقبل میں ایک بڑی اسلامک یونیورسٹی وہاں قائم کی جاسکتی ہے ۔ذمہ داران اس تعلق سے کوشاں بھی ہیں ۔ادھر گذشتہ چند سالوں سے مولانا مرحوم دارالعلوم عزیزیہ میراروڈ کے منصب اہتمام سے سبکدوش ہوگئے تھے البتہ تادم آخر دارالعلوم عزیزیہ کی میٹینگ میں شریک ہوتے رہے بلکہ ابھی دو ہفتہ پہلے بھی علالت کے باوجود میٹینگ میں شریک ہوئے۔
ایک مثالی خطیب و صاحب قلم تھے
مولانا مرحوم ایک مثالی خطیب تھے تاوقت علالت دارالعلوم عزیزیہ کی جامع مسجد میں خطابت کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔شہر کے دور دراز کے لوگ صرف آپ کا خطاب سننے آتے تھے ۔خطاب بلیغ اور انتہائی موثر بر وقت برمحل ہوا کرتا تھا۔لکھتے بھی بھت اچھا تھے۔کم لکھتے تھے لیکن جو کچھ لکھتے بہت خوب لکھتے تھے ۔ابھی اندنوں مولانا عبدالعزیز بہاری اپنے چچا کی سوانح حیات لکھ رہے تھے لیکن اسی دوران مرض لاحق ہوا اورافسوس پھر یہ کام ادھورا ہی رہ گیا ۔
چھوٹوں کے ساتھ بڑی شفقت فرماتے
مولانا مرحوم ایک انتہائی مشفق انسان تھے۔علماء و عوام کو حسب صلاحیت استعمال کرتے بلکہ انکی صلاحیتوں کو نکھارتے اور مناسب جگہ خدمات پر مامور فرماتے۔میراروڈ تا نالاسوپارہ علماء کرام کی ایک بڑی جماعت آپ کی محبتوں کا نتیجہ ہے۔خود میرا روڈ میں کئ ایک دینی اداروں کا وجود آپکی مرہون منت ہے ۔
علالت و وفات
گزشتہ 9 ماہ پیشتر مولانا مرحوم کے گلے میں کینسر جیسا مہلک و لا علاج مرض لاحق ہوا اور پھر باہم مشورہ سے طے پایا کہ کیمو تھروپی و سرجری کے بجائے کوئی اور علاج تجویز کیا جائے کیونکہ اس علاج سے مریض کی حالت اور غیر ہوجایا کرتی ہے الا ما شا۶ اللہ چنانچہ کولہا پور کے مشہور ہومیوپیتھک معالج سے رابطہ کیا گیا جو کہ حضرت مولانا سجاد نعمانی حفظہ اللہ کے بھی معالج ہیں لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بالآخر مولانا جانبر نہ ہوسکے اور 74 سال کی عمر میں راہی عدم ہوگئے ۔
اولاد و احفاد
مولانا مرحوم کو اللہ نے ایک لڑکا اور چار لڑکیاں عطا کی تھیں ۔اکلوتا بیٹا عین جوانی میں ہی آج سے گیارہ سال پہلے اللہ کو پیارا ہوگیا اور اپنے پیچھے ایک لڑکی یادگار چھوڑ گیا ۔چاروں لڑکیاں بقید حیات ہیں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ الحمد للہ خوش و خرم ہیں ۔
جائیداد و خوشحالی
مولانا مرحوم نے جس زمانے میں دارالعلوم عزیزیہ میراروڈ میں قائم کیا تھا اسی دور میں آپ نے مدرسہ کے صدر حاجی غلام رسول علیہ الرحمہ کے اصرارپر چند قطعہ آراضی بھی خرید لی تھی۔ میرا روڈ میں بلڈروں کی آمد کے بعد اس زمین کے عوض کروڑوں کے فلیٹس و دکانات مولانا مرحوم کو ملے اور اس طرح مولانا مرحوم دنیا کے اعتبار سے بھی فارغ البال و خوش حال ہوگئے۔ آخرت کی دولت کے ساتھ اللہ نے دنیاوی نعمت سے بھی خوب خوب سرفراز فرمایا ۔ آج مولانا کی ساری اولاد کروڑ پتی ہیں ۔
تجہیز و تکفین
مولانا مرحوم کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر ممبئ میں پھیل گئی اور عشاء کی نماز کے بعد دارالعلوم عزیزیہ میراروڈ کے سامنے تقریبا سات ہزار سوگوار کی موجودگی میں نماز جنازہ آپ کے بڑے بھائی مفتی مظفر عالم قاسمی حفظہ اللہ نے پڑھائی اور پھر میرا روڈ کے ریلوے سے متصل قبرستان میں سپرد خاک ہوگئے (آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے )
اللہ اللہ تعالٰی حضرت والا کی مغفرت فرمائے اور جملہ اہل خانہ بالخصوص بیوہ کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین
(مہتمم جامعہ الابرار وسئی ایسٹ )