’’چھوٹے صاحب کا درد‘‘

یومِ مادر کے موقع پرمیری آپ بیتی
اشرف استھانوی
زندگی کی کشتی بد نصیبی کے گرداب میں پھنس کر اچانک اس طرح تباہ وبربادہو جائے گی یہ زندگی کے نشیب و فراز سے ناآشناچھوٹے صاحب کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اپنی زندگی کی جس حقیقت پر انہیں بہت ناز ہے، وہ جلد ہی خواب کی شکل اختیار کر لے گی۔ پچھلے ہفتہ جب وہ ایک ضروری کام سے ہفتہ دس دنوں کے سفر پر شہر سے باہر جا رہے تھے تو ان کے ذہن میں آیا تھا کہ بس واپس لوٹتے ہی ادھوری زندگی کو پھر سے مکمل کر لیا جائے گا۔ مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ اب ایسا کبھی نہیں ہونے والا ہے۔ اس دن جو سفر انہوں نے شروع کیا تھا وہ تو کب کاختم ہو چکا تھا۔ لیکن اس سفر کے اختتام کے ساتھ ان کی زندگی میں بے چینی، بے کیفی اور اداسی کا جو سفر شروع ہوا تھا وہ شاید تا حیات جاری رہے گا۔
گھپ اندھیری رات میں آوراہ کتوں کے کبھی رونے اور کبھی بھونکنے کی آواز سے بے نیاز چھوٹے صاحب اسٹیشن سے چل کر اپنی رہائش گاہ اور قریب ہفتہ دنوں بعد جب اپنے کمرے میں داخل ہوئے تو انہیں کچھ عجیب سامحسوس ہو رہا تھا۔ فوراً بستر پر پڑ گئے۔ لاکھ کوششوں کے باوجود نیند کا دور دور تک اتا پتا نہیں تھا۔ وہ کافی دیر تک چھت کو ایسے گھورتے رہے جیسے کسی کھوئی ہوئی چیز کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ خود ہی کہیں گم ہو گئے ہوں۔
’’ ٹرن،ٹرن۔۔۔‘‘ فون کی گھنٹی نے چھوٹے صاحب کو بری طرح چونکا دیا’’ ہیلو!، ہاں، میں ہی بول رہا ہوں۔ کچھ ہی دیر قبل دہلی سے آرہا ہوں۔ ہاں ایک ہفتہ پہلے گیا تھا اور سب خیریت ہے نا؟ کیا۔۔۔ ؟ نہیں! نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سب جھوٹ ہے۔ سراسر جھوٹ ہے۔‘‘ چھوٹے صاحب بے ساختہ ایسے بڑبڑانے لگے جیسے غیر یقینی کے شدید احساس نے انہیں پاگل بنا دیا ہو۔ ایک ایسا پاگل جو یادوں کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو جلدی جلدی اپنے دامن میں سمیٹنے کے لئے بے تاب ہو۔
بھراپرا خاندان باوقار وضعدار ، ایسے ماحول میں چھوٹے صاحب کی پرورش وپرداخت ہوئی تھی اور تربیت پائی تھی، ایسے گھنے درخت کی چھاؤں میں جس نے کبھی خزاں کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ ممتا کی لطیف چھاؤں میں پلتے اور بڑھتے ہوئے چھوٹے صاحب کب چالیس پار کر گئے ، انہیں کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ انہیں چھاؤں کا کمال تھاکہ نا مساعد حالات کی تیز دھوپ بھی چھوٹے صاحب کا کبھی کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ لیکن آج اس درخت کے اچانک ٹوٹ جانے کی خبر سن کر چھوٹے صاحب پوری طرح ٹوٹ چکے تھے۔ ماں کے وجود کو اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھنے والے چھوٹے صاحب کی گویا کائنات ہی لٹ چکی تھی۔ بھرا پرا گلشن تاراج ہو چکاتھا۔ ایسے میں ماں کے ساتھ گزرے لمحات چھوٹے صاحب کے ذہن میں بڑی تیزی کے ساتھ گھوم رہے تھے۔
ماں کافی دنوں سے بیمار تھیں۔کبھی کبھی مرض ان پر اس قدر غالب ہو جاتا کہ فوراً اب تب کی حالت ہو جاتی ۔ لیکن چھوٹے صاحب نے اس حالت میں بھی ماں کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی ہمت اور حوصلہ کے سبب کئی بار ماں نے موت کو بھی شکست دے دی تھی۔ زندگی اور موت کے درمیان جنگ میں ماں کی جب جیت ہوتی تو گھر میں رونق لوٹ آتی اور جب ماں کمزور پرنے لگتیں، تو خوشیوں کی جگہ چاروں طرف مایوسیاں پھیل جاتیں۔ یہ سلسلہ تقریباً تین برسوں سے چل رہا تھا۔
ماں پر پچھلے دنوں جب مرض کا شدید غلبہ ہوا تھا تو ان کے چہرے پر اضمحلال کی کیفیت کچھ زیادہ ہی نمایاں تھی۔ لیکن ان کی ہمت اور حوصلہ کا تیور وہی تھا ۔ کیا مجال کہ ایک وقت کی نماز بھی قضا ہو جائے۔ فرائض و نوافل، اذکار و افکار اور قرآن شریف کی تلاوت ان کی روز مرہ کی معمولات میں شامل تھی۔ وہ گاؤں کے بچے ، بچیوں کو قرآنی تعلیمات سے آراستہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں۔ گاؤں میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا، جسے ماں کی نصیحتیں از بر نہیں ہوں۔ نماز کی پابندی، حق گوئی، ضرورت مندوں کی حاجت روائی ، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کی تلقین ماں کا شیوہ تھا۔ بیماری کی حالت میں بھی ماں نے اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ ان کی ہمت کو دیکھ کر گھر کے سبھی لوگوں کو یہی لگ رہا تھا کہ اس بار بھی موت کی شکست فاش ہوگی اور گھر کی رونق پھر سے لوٹ آئے گی۔ گھر کے تمام لوگوں کو چھوٹے صاحب کا بھی شدت سے انتظار تھا۔ چھوٹے صاحب مہینوں سے گھر نہیں آسکے تھے۔ کیوں کہ ان میں ماں کو اس حال میں دیکھنے کی تاب نہ تھی۔ ماں کی صحت یابی کی دعاء کے علاوہ ان کی زندگی میں کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ چھوٹے صاحب نے سوچا تھا کہ جب ماں اچھی ہو جائیں گی تو انہیں پھر اپنے پاس بلا لوں گا۔لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور وہی ہوا جسے چھوٹے صاحب نے سوچا بھی نہیں تھا۔
رات کافی بیت چکی تھی۔ چاند بھی نکل آیا تھا۔ وہی چاند جو کبھی چندا ماما کہنے پر کھلکھلاکر ہنسنے لگتا تھا۔ آج بے حد اداس تھا۔ اس کی چاندنی کی دمک پتا نہیں کہاں گم ہو گئی تھی۔ چھوٹے صاحب کو اچھی طرح یاد ہے کہ چھوٹی موٹی باتوں پر روٹھنے میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ماں اکثر چھوٹے صاحب کے ضدی مزاج بچپن کے واقعات کو سنا سنا کر خوب ہنستی تھیں۔ چھوٹے صاحب کسی بات پر جب بھی روٹھتے، اعلانیہ طور پر کھانا پینا چھوڑ دیتے تھے اور جب تک چندا ماما کی مداخلت نہیں ہوتی ایک دانا تک منہ میں رکھنے نہیں دیتے۔ جب بھی ایسا موقع آتا، ماں بلا تاخیر چندا ماما کو پکارتیں اور پھر دودھ بھات کا نوالہ جیسے ہی حاضر کرتیں چھوٹے صاحب اچھل کر ان کی گود میں بیٹھ جاتے اور پھر شکم سیر ہو جاتے۔ اسی طرح جب ماں ان کی کسی شرارت سے ممتا بھرے غصے کا اظہار کرتیں تو چھوٹے صاحب اچھل کر ان کی گود میں بیٹھ جاتے اور پھر شکم سیر ہو جاتے۔ اسی طرح جب ماں ان کی کسی شرارت سے ممتا بھرے غصے کا اظہار کرتیں تو چھوٹے صاحب انہیں منانے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے اور اپنی توتلی زبان میں چندا ماما کو پکارتے ہوئے دودھ بھارت کا فرضی نوالہ فوراً ماں کے منہ میں ڈال دیا کرتے تھے۔ اپنے لاڈلے کی اس معصومیت پر آنچل سے منہ کو ڈھانپ کر ماں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتیں۔ ماں کی اس انبساط آمیز ہنسی کی یاد نے جب چھوٹے صاحب کو حد سے زیادہ بے چین کر دیا تو وہ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ کمرے سے باہر آئے۔ اشک بار آنکھوں سے اپنے بچپن کے چندا ماما کو ایک ٹک دیکھتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ چندا ماما بھی رو رہے ہوں۔
تھوڑی دیر میں ہی فجر کی اذان کی آواز سنائی دینے لگی تھی۔ چھوٹے صاحب فوراً با وضو ہوئے، نماز پڑھی اور اپنے آبائی گھر کے لئے روانہ ہو گئے۔ وہ راستہ بھر ان خوشگوار لمحات سے اپنے ذہن کو الگ نہیں کر سکے جو انہوں نے ماں کے ساتھ بتائے تھے۔ گھر پہنچے تو چھوٹی بہن روہانسی ہو کر کہنے لگی’’ بھائی جان! آپ نے آنے میں بہت دیر کردی۔ آخری وقت تک ماں کی نگاہیں آپ کا انتظار کر تی رہیں۔ وہ لگاتار دروازہ کی طرف دیکھتی رہیں۔ لیکن آپ آتے اس سے پہلے موت نے ہی دروازہ پر دستک دے دی اور اب ماں ہمیشہ کے لئے ہم لوگوں سے جدا ہو گئی ہیں۔ ان کا سایہ ہم لوگوں کے سر سے اٹھ گیا ہے۔ دیکھئے نا یہ ان کی جائے نماز ہے، یہ ان کا بستر ہے، یہ ان کا تکیہ ہے۔۔۔۔‘‘چھوٹی بہن دھیرے دھیرے جذباتی ہوتی جا رہی تھی۔ اور چھوٹے صاحب اپنی حرماں نصیبی پر کف افسوس مل رہے تھے۔ انہیں اس بات کا شدید ملال تھا کہ آخری وقت میں ماں کو ایک چمچ پانی تک نہیں پلا سکا۔ انہیں اس کا بھی بہت افسوس تھا کہ آخری سفر میں ان کے جنازہ کو کاندھا تک نہیں دے سکا۔ ان کی تربت پردومٹھی مٹی تک نہیں ڈال سکا۔ انہیں لگ رہا تھا کہ ان کی زندگی نامراد بن کر رہ گئی ہے۔ بھرے پرے گھر میں ایک شخص کی غیر موجودگی نے پورے گھر میں ویرانی پھیلادی تھی۔ اور اس ویران و سنسان گھر میں رہ رہ کر ماں کی آواز باز گشت سنائی دے جاتی تھی۔ ماں اپنی بہوؤں کو تلقین کرتی رہتیں کہ دیکھنا چھوٹے صاحب کے کھانے پینے، پہننے او راوڑھنے اور دیگر چھوٹی بڑی ضروریات کی تکمیل میں کوئی کمی نہ رہ جائے ۔ ماں کو چھوٹے صاحب کی نفیس طبیعت کا بڑا گہرا مطالعہ تھا۔ تاحیات انہوں نے چھوٹے صاحب کا خاص خیال رکھا۔ ماں کی آواز باز گشت میں گم چھوٹے صاحب کے کانوں میں ایک بار پھر چھوٹی بہن کی آواز آنے لگے۔’’ بھائی جان! آپ بھی اللہ سے دعاء کیجئے کہ وہ مرحومہ کو جنت میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا کرے۔ وہ واقعی جنّتی تھیں۔ آخری آرام گاہ میں جاتے وقت ان کا چہرہ بہت ہی پر نور تھا۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ اس بات کی علامت تھی کہ اہل جہاں سے انہیں کوئی شکایت نہیں تھی۔ دنیا چھوڑنے کا انہیں کوئی غم نہیں تھا۔ ان کی نماز جنازہ میں سینکڑوں لوگ شریک تھے۔۔۔۔‘‘ چھوٹے صاحب بہن کی باتوں کو سنتے سنتے ایک بار پھر ماضی کی یادوں میں کھو گئے ۔ لیکن اہل خانہ کی تسلی آمیز باتوں نے انہیں پھر سے حقیقی دنیا میں واپس بلا لیا۔
چھوٹے صاحب بوجھل قدموں سے اپنے آبائی قبرستان گئے۔ تازہ قبرستان کا نشان چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں شفقت و محبت کی کائنات دفن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کو ابدیت حاصل ہے۔ اور جو زندگی کی انتہا کی علامت ہے۔ چھوٹے صاحب وہاں پہنچ کر اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکے۔ وہ فاتحہ پڑھ رہے تھے اور آنکھیں آنسوؤں کا خراج پیش کر رہی تھیں۔ چھوٹے صاحب بہت دیر تک وہیں کھڑے رہے ۔ ماں کی مغفرت کے لئے اللہ کے حضور میں گڑگڑاتے رہے اور جب واپس ہونے لگے تو انہیں محسوس ہو رہا تھاکہ اب محض ایک ڈھانچہ ہی گھر لوٹ رہا ہے۔
چھوٹے صاحب نے گھر آکر ماں کی استعمال شدہ ایک ایک چیز کو ایک بار پھر غور سے دیکھنا شروع کیا۔ جائے نماز تیمم کی مٹّی، تسبیح دانے۔۔۔ ساری چیزیں کچھ اس انداز میں اپنی جگہ پڑی تھیں۔ جیسے انہیں امّی جان کا شدت سے انتظار ہو۔ چھوٹے صاحب دیر تک ان چیزوں کو ایک ٹک دیکھتے رہے۔ دیکھتے دیکھتے پھر بے اختیار ان کی جانب لپک کر بڑھے اور انہیں اپنی گرفت میں اس طرح لیا جیسے ماں کے انتظار میں پڑی ان بے جان چیزوں کی صف میں وہ خود بھی کھڑے ہو گئے ہوں۔(ملت ٹائمز)