مالدیپ صداتی الیکشن کا نتیجہ !

مالدیپ صدارتی الیکشن کا نتیجہ سامنے آنے کے بعد یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آگئی ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران غیر مسلم ممالک میں انتہاءپسندوں کو جیت مل رہی ہے جبکہ مسلم ممالک میں اسلام پسندوں کی جگہ لبرل خیال کے حامل رہنما اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں
خبر درخبر (571)
شمس تبریز قاسمی
مالدیپ کے صدارتی انتخاب میں سیکولر اقدار کی حامل پارٹی مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی ( پی ڈی پی) کے امیدوار محمد ابراہیم سہیل نے جیت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ،2011 میںاس پارٹی کو مذہبی اقدار کی خلاف ورزی اوردہریت پھیلانے کی بناپر شدید احتجاج کا سامنا کرناپڑاتھا جس کے بعد پارٹی کے بانی اور اس وقت کے صدر محمد نشید کو استعفی دینا پڑا ۔ پروگریسیو پارٹی آف مالدیپ (پی پی ایم )کے بانی اور صدر یامین عبد اللہ اسلام پسند مانے جاتے ہیں ۔اپنی حکومت کے دوران انہوں نے دیگر ترقیاتی کاموں کے ساتھ اسلامیات کے فروغ اور پوری ریاست میں مذہبی علوم کی اشاعت پر خصوصی توجہ مرکوز کی ،کہایہی جارہاتھاکہ یامین عبد اللہ کی جیت یقینی ہے تاہم نتیجہ خلاف توقع آیاہے ۔
اس الیکشن میں امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ہندوستان نے بھی بھر پور مداخلت کی کوشش کی تھی ،ان سبھی کی یہ کوشش تھی کہ یامین عبد اللہ اقتدار میں نہ آئے اور نتیجہ ویسا ہی آیا ۔یامین عبد اللہ نے ہندوستان کو نظر انداز کرکے چین اور کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کیا اور اسلامی ایجنڈے کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائی تھی جو بیرونی طاقتوں کو برداشت نہیں تھی ۔اسی لئے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی ۔
مالدیپ الیکشن کمیشن نے مالدیپ ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوارمحمد ابراہیم سہیل کی جیت کا اعلان کرتے ہوئے بتایاہے کہ انہیں 38484 ووٹ ملے ہیں۔الیکشن پر کسی طرح کی دھاندھی کا الزام نہیں لگاہے اس لئے یہ صاف شفاف الیکشن رہاہے اور نتیجہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تاہم یہ نتیجہ ابھی آفیشیل نہیں ہے ۔مالدیپ کے الیکشن قانون کے مطابق اگلے سات دنوں بعد آفیشیل نتائج کا اعلان ہوگا ۔اس دوران تمام بیلٹ بوکس کی جانچ ہوگی جو الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر میں بھیجے گئے ہیں ۔مالدیپ میں کل 4 لاکھ کی آباد ی ہے جس میں سے 2 لاکھ 62 ہزار ووٹ دینے کے اہل تھے ۔ملک بھر میں 474 بیلٹ سینٹر قائم کئے گئے تھے ۔گذشتہ اتوار یعنی 23 ستمبر کو ووٹ ڈالنے کا عمل شروع ہوا اور صبح 8 بجے سے شام کے سات بجے تک سلسلہ جاری رہا ،ووٹنگ کا وقت پانچ بجے تک کا تھا تاہم قطار میں لگی بھیڑ کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے تین گھنٹے کا اضافہ کیا ۔
مالدیپ میں ایک ماہ سے زائد عرصہ راقم الحروف کا قیام ہوچکاہے ،2016 میں وہاں کی اسلامی وزرات کی دعوت پر میں نے متعدد اسکولوں ،تعلیمی اداروں اور مساجدکا دور ہ کیاتھا ۔اس دوران مالدیپ کے بہت سے نوجوان شہری سے میر ے تعلقات بھی ہوگئے جن اب تک رابطہ برقرار ہے اور موقع بہ موقع بات ہوتی رہتی ہے ۔الیکشن کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی اور تقریبا سبھی نے یامین عبد اللہ کو بہتر بتایا تاہم نتیجہ خلاف توقع اور حیران کن آیاہے ۔
صدر یامین عبداللہ اسلام پسند مانے جاتے ہیں،ان کی پارٹی پروگروسیو پارٹی آف مالدیپ(پی پی ایم) اسلامی اقدار کی حامل ہے اور اسلام کی برتری پارٹی کا ایجنڈا ہے جبکہ مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی سیکولزم کے نظریہ پر عمل کرتی ہے ،اس پارٹی کو پہلی مرتبہ 2008 میں کامیابی ملی تھی جب پارٹی کے بانی محمد نشید نے جیت حاصل کی تھی تاہم مذہبی اقدار کے خلاف پالیسی اپنانے کی پاداش میں انہیں عوام کی شدید مخالفت کا سامنا کرناپڑا،2013 میں وہاں دوبارہ صدارتی الیکشن ہواجس میں پی پی ایم کے صدر یامین عبد اللہ نے جیت حاصل کی تھی ۔
مالدیپ کا یہ صدارتی الیکشن مالدیپ سمیت چین اور ہندوستان دونوں کیلئے کافی اہم تھا ، صدر یامین عبد اللہ اور ان کی پارٹی کو چین کی حمایت حاصل رہی ہے ۔اپنی حکومت کے دوران یامین عبداللہ نے ہندوستان کی مداخلت کو کم کرکے چین کے ساتھ سرمایہ کاری ،دوسری طرف انہوں نے پاکستان سے بھی گہرے رابطے بنائے اور ہندوستان کو نظر انداز کیا ۔پی ڈی پی اور اس کے بانی محمد نشید سیاسی طور پر ہندوستان کے قریب مانے جاتے ہیں ۔تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ اس الیکشن میں بھی پی ڈی پی کو ہندوستان کی بھر پور حمایت حاصل تھی ۔پی ڈی پی کے سابق صدر محمد نشید کی گرفتاری کے موقع پر بھی ہندوستان نے کھل کر مخالفت کی تھی جس کے بعد صدر یامین عبد اللہ تلخ لہجہ اپناتے ہوئے کہاتھاکہ ہندوستان اپنی اوقات میں رہے ہمارے اندورنی معاملات میں مداخلت نہ کرے ۔ ہندوستان کے علاوہ امریکہ ،برطانیہ سمیت کوئی ملکوں نے بھی مالدیپ کے صدارتی الیکشن میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تھی ۔
مالدیپ بحرالہند میں واقع ایک جزیرہ نماملک ہے جہاں کی مکمل آبادی مسلمانوں کی ہے ،بارہویں صدی میں وہاں کے بادشاہ نے پوری رعایاکے ساتھ اسلام قبول کیاتھا ۔سیاحت اور فش وہاں کی آمدنی کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔ہندوستان کی ریاست کیرالہ سے اس کی دوری صرف 700 کیلومیٹر ہے ۔
مالدیپ صدارتی الیکشن کا نتیجہ سامنے آنے کے بعد یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آگئی ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران غیر مسلم ممالک میں انتہاءپسندوں کو جیت مل رہی ہے جبکہ مسلم ممالک میں اسلام پسندوں کی جگہ لبرل خیال کے حامل رہنما اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں البتتہ ترکی اس سے مثتثنی ہے جہاں عوام کی ترجیحات لبرل رہنما کو منتخب کرنے کے بجا اسلام پسند رہنما کواقتدار تک پہونچانے میں ہے ۔رجب طیب ایردوان کی مسلسل کامیابی اس کی واضح مثال ہے ۔
stqasmi@gmail.com

SHARE