ہندوسماج کی خاموشی ،مسلمانوں کا ہنگامہ !

ہندوستان میں ا س فیصلے سب سے زیادہ متاثر ہندو سماج ہوگا ، کئی فیملی تباہ وبرباد ہوجائے گی ،رشتے بکھر جائیں گے ،اعتماد ،محبت اور بھروسہ ختم ہوجائے گا ،کیوں کہ ان کے یہاں کوئی قانون نہیں ہے ، شادی کے سلسلے میں جو ان کا دستور تھا وہ ہندو کوڈ بل کے ذریعہ بہت پہلے منسوخ کیا جاچکاہے
خبر درخبر (572)
شمس تبریز قاسمی
سپریم کورٹ سے رواں ماہ میں کئی اہم فیصلے آئے ہیں جن میں سے دو فیصلوں کا تعلق ہندوستانی معاشرہ ،ثقافت اور کلچر سے ہے ،سب سے پہلے 6 ستمبر 2018کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی بینچ نے ایل جی بی ٹی کو جائز ٹھہراتے ہوئے 156 سالہ قدیم آئین کی دفعہ 377 کو منسوخ کردیا جس کے بعد اب باہم جنسی پرستی کا شمار جرائم میں نہیں ہوگا جو لوگ اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوسکتی ہے ۔دوسرا فیصلہ تین روز قبل 27 ستمبر2018 کو غیر ازدوجی تعلقات کے سلسلے میں آیاہے جس کے تحت اسے جائز ٹھہراتے ہوئے جرائم کی فہرست سے خارج کردیاگیاہے اور 158 سالہ قانون منسوخ کردیاگیاہے ۔ اب اگر کوئی مرد اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی دوسر ی عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتاہے یا بیوی شوہر کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے جسمانی رشتہ بناتی ہے تو قانون کی نظر میں یہ جرم نہیں ماناجائے گا پہلے ایسا کرنے والوں کو کریمنل ایکٹ کے تحت پانچ سال جیل کی سزا ہوتی تھی ۔
ججز حضرات نے یہ دونوں فیصلے مغربی کلچر سے متاثر ہوکر دیئے ہیں، ان کے یہاں اس کی بنیاد آزادی اور مساوات ہے،تاہم ہندوستانی ثقافت اور کلچر کے خلاف ہے ،ہندوستان میں ا س فیصلے سب سے زیادہ متاثر ہندو سماج ہوگا ، کئی فیملی تباہ وبرباد ہوجائے گی ،رشتے بکھر جائیں گے ،اعتماد ،محبت اور بھروسہ ختم ہوجائے گا ،کیوں کہ ان کے یہاں کوئی قانون نہیں ہے ، شادی کے سلسلے میں جو ان کا دستور تھا وہ ہندو کوڈ بل کے ذریعہ بہت پہلے منسوخ کیا جاچکاہے ،ایمان اور غیبی طاقت سے خوف وڈر کا ان کے یہاں کوئی تصور نہیں ہے ۔ہندوسماج کی بیشتر لبرل مردو خواتین بھی اس کے خلاف ہیں،27 ستمبر کو سپریم کورٹ سے یہ فیصلہ آنے کے بعد ملت ٹائمز کے اینکر منور عالم نے دہلی کے عوامی مقامات پر مردو خواتین کی رائے جاننے کی کوشش تو ان میں سے بیشتر نے اسے ایک غلط فیصلہ قرار دیا ،ہندوستانی ثقافت اور کلچر کے خلاف بتایا ،عورتوں پر ظلم وزیادتی سے تعبیر کیا ،ایک خاتون نے تو یہاں تک صاف لفظوں میں کہاکہ سوری !میں اپنے شوہر کو کسی اور کے ساتھ شیئر نہیں کرسکتی ہوں ۔ اس پوری رپوٹ کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے جس کا لنک یہاں بھی شیئر کیا جارہاہے ۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات دیکھ سکتے ہیں ۔دہلی خواتین کمیشن کی چیرمین سواتی مالیوال نے بھی اس کے خلاف سخت رخ اپنایاہے حالاں کہ قومی خواتین کمیشن کی چیرمین نے اس کا خیر مقدم کیا ہے ۔

جہاں تک بات مسلم سماج کی ہے تو اس پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ،عائلی مسائل کے سلسلے میں دنیا کا ہر مسلمان قرآن وحدیث کو اپناآئین تسلیم کرتاہے او راسی کے مطابق معاشرتی زندگی گزارتاہے،قانون کے ذریعہ جائز ٹھہرانے کے باوجود بھی ان معاملوں میں مسلمانوں کی نگاہ شریعت کے قانون پر ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں خاندانی نظام تباہ ہوجانے کے باوجود وہاں کے مسلمان ایسے جرائم سے محفوظ ہیں ۔خدانخواستہ اگر کوئی مسلمان اس میں ملوث ہوجاتاہے تو اس کے ذہن میں یہ بات ضرورہوتی ہے کہ ہم شریعت کی نگاہ میں مجرم ہیں ،ہمار ا یہ عمل گناہ کبیر ہ ہے اور وہ بارگاہ ایزدی میں توبہ کرتاہے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ہندوسماج براہ راست متاثرہورہاہے اس کے باوجو د اس پر وہ خاموش ہیں اور مسلمانوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہاہے ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ،جمعیت علماءہند سمیت متعدد مسلم تنظیموں اور شخصیات نے اس کی شدید مذمت کی ہے جبکہ مسلمان اس فیصلے کو نظیر بناکر مسلم پرسنل لاءمیں حکومت کی ہونے والی مداخلت کو باآسانی عدلیہ میں چیلنج کرسکتے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے کہاہے کہ Adultery جرم نہیں ہے ،اگر میاں اور بیوی ساتھ نہیں رہنا چاہتے ہیں تو دونوں طلاق لیکر علاحدہ ہوجائیں ،آپسی اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے اگر دونوں میں سے کسی کا جسمانی تعلق کسی اورسے قائم ہوتاہے تو یہ جرم کے دائرے میں نہیں آئے گا اور اس بنیاد پر طلاق لینے کا دونوں کو اختیار ہوگا ،دوسری طرف حکومت نے تین طلاق کو کریمنل ایکٹ کے تحت جرم بنادیاہے ستم بالائے ستم یہ کہ طلاق کو طلاق بھی مانا نہیں گیاہے ۔یعنی اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو تین طلاق دیتاہے تو یہ طلاق نہیں ہوگی اور ایف آر درج ہونے کے بعد تین سالوں کیلئے جیل کی سزا بھی ہوجائے گی ۔ یہ قانون سپریم کورٹ کے فیصلے کے بالکل خلاف ہے او رآئین کی دفعہ 14سے ٹکراٹی ہے ۔عدلیہ کہہ رہی ہے کہ اگر میاں بیوی ایک ساتھ نہیں رہنا چاہتے ہیں تو وہ اس بنیاد پر طلاق لیکر جدا ہوجائیں ،آپسی اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے طلاق سے قبل بھی کسی اور سے جسمانی تعلق بن جاتاہے تو بھی جرم شما رنہیں ہوگا دوسری طرف تین طلاق آر ڈیننس میاں بیوی کو آپسی نااتفاقی کے باوجود جدا ہونے سے روک رہاہے ،اس قانون کا مطلب ہے کہ مسلم مردو عورت کو آزادی اور مساوات حاصل نہیں ہے ،یہ دونوں چاہ کر بھی علاحدہ نہیں ہوسکتے ہیں،اگر کسی نے علاحدہ ہونے کی کوشش کی اور طلاق کے اختیار کا استعمال کیا تو اسے جیل بھی جاناہوگا اور جدائیگی بھی نہیں مانی جائے گی ،تین سالوں تک جیل میں رہنے کے بعد پھر اسی بیوی کے ساتھ رہنا ہوگا ،خاتون کو بھی چھٹکار انہیں مل پائے گا ۔آئین کی دفعہ 14 کہتی ہے کہ تمام شہریوں کو یکساں حقوق ملنے چاہیئے ،کسی کے ساتھ مذہب کے نا م پر بھید بھاﺅ نہیں ہونا چاہیئے جبکہ یہاں واضح طور پر مودی سرکار نے کیا ہے ۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور اقدامات کی بنیاد پر طلاق آر ڈیننس سراسر زیادتی ،انصافی اور غیر اخلاقی ہے ،ان فیصلوں کو بنیاد بناکر بآسانی اس آرڈیننس کو چیلنج کیا جاسکتاہے ۔ا سی موضوع پر ملت ٹائمز کے پروگرام خبر در خبرمیں ہم نے سپریم کورٹ آف انڈیا کی وکیل اور حقوق انسانی کارکن ایڈوکیٹ پلوی سے بات چیت بھی کی ہے۔ ان کا یہی کہناہے کہ آرڈیننس مسلم خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ،2019 کے الیکشن کے تناظر میں اسے لایاگیاہے ،حکومت کو ایسا لگتاہے کہ مسلم خواتین ان سے خوش ہوکر ووٹ کریں گی لیکن سچائی اس کے برعکس ہے ،یہ مسلم خواتین کے ساتھ دھوکہ کیاگیاہے اور انہیں حالات سمجھنا چاہیئے ۔ چند دنوں قبل ٹائمز آف انڈیا کے سابق صحافی اور تجزیہ نگار جناب ضیاءالحق صاحب سے ایل جی بی ٹی کے مسئلے پر گفتگو ہوئی تو ان کا کہناتھاکہ مسلمانوں کی اعلی قیادت کو سپریم کورٹ کے ایسے فیصلوں پر خاموشی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے ان کے مطابق ان سب فیصلوں کی بنیاد انفرادی آزادی ،اقلیتی حقوق اور مساوات ہے ،ایسے فیصلوں کو بنیاد بناکر مسلمان اپنے خلاف ہونے والے امتیاز ی سلوک کو بآسانی چیلنج کرسکتے ہیں ، حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاج میں یہی لوگ مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں ۔اس طرح کے فیصلوں سے مسلم سماج پر کوئی اثر نہیں پڑسکتاہے ہاں ! ہندوسماج کیلئے تباہی کا سبب بنے گا ،یہ فیصلے ہر گز اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ذرہ برابر اس کا خیر مقدم کیاجائے ،اس کی ستائش کی جائے ہاں ! یہ ضرور ہے کہ ایسے امور پر خاموش رہ کر اور اسے نظیر بناکر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور قانون کو چیلنج کیا جائے ۔ سیکولرزم ،مساوات ،آزادی اور اقلیتی حقوق کی اکیسوی صدی میں زیادہ باتیں ہورہی ہیں ۔ انہیں امور کو بنیاد بناکر ہم بھی اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاسکتے ہیں ۔ہندوستان جیسے ملک میں سیکولرزم جتنی زیادہ مضبوط ہوگی مسلمانوں کیلئے اتناہی بہتر ہوگا، کامن سول کوڈ کی راہیںمزید مسدود ہوجائیں گی اور سبھی کیلئے یکساں قانون بنانے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوپائے گی ۔

SHARE