تشدد ،نفرت اور انتہاءپسندی کسی بھی سماج ،معاشرہ اور ملک کیلئے ناسور ہے ،جس سوسائٹی میں یہ چیزیں پنپتی ہیں یا اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اس کا انجام بھیانک او رخطرناک ہوتاہے
خبر در خبر (573)
شمس تبریز قاسمی
عدم تشدد کے علمبردار اور ہتھیار اٹھائے بغیر آزادی کی جنگ لڑنے والے کرم داس موہن چند کا تعلق گجرات سے تھاجنہیں تاریخ میں مہاتماگاندھی کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔لیکن اب یہ صوبہ تشدد ،انتہاءپسندی اور نفرت کی آماجگاہ بنتاجارہاہے، سیاسی طور پر اس صوبہ کانام آتے ہی تشدد ،نفرت اور انتہاءپسندی کا خیال ذہنوں میں گردش کرنے لگتاہے ایسا احساس ہوتاہے کہ یہاں کے لوگ متشدد اور انتہاءپسند ہوتے ہیں،انہیں مسلمانوں سے نفرت ہوتی ہے ،وہ انسانیت کی خون کے پیاسے ہوتے ہیں ۔اس احساس اور تصور کا تعلق براہ راست 2002 کے گجرات فساد سے ہے جس میں ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں پر حملہ کیاگیا ،شرپسندوں ،بلوائیوں اور فسادیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ،فوج کو سہولیات نہیں فراہم کرائی گئی ،پولس نے خاموشی کا مظاہرہ کیا اور یوں تین دنوں تک مسلسل مسلمانوں کو چن چن کا ماراگیا ۔اس فساد نے عالمی سطح پر گجرات کی تصویر بگاڑ دی ،دنیا یہ بھول گئی کہ عدم تشدد کے علمبردار سمجھے جانے والے مہاتماگاندھی وہیں سے تھے ۔ذہنوں میں بس یہ تصویر حاوی ہوگئی کہ گجرات نفرت ،انتہاءپسندی اور تشدد کی آماجگاہ ۔عالمی سطح پر وہاں کے باشندوں کو ذلت ورسوائی کا سامناکرناپڑا،تاجروں کو پریشانیاں جھیلنی پڑی خودنریندر مودی صاحب پر امریکہ برطانیہ سمیت کئی ممالک میں جانے پر پابندی عائد تھی کیوں کہ وہاں کے وزیر اعلی ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اپنا فرض ادا نہیں کیا نہ تو فساد کے دوران کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی فساد کے بعد خاطی افسران اور ملوث شرپسند عناصر کے خلاف کوئی کاروائی کی گئی ۔16 سالوں کے بعد گجرات میں ایک مرتبہ پھر فساد اور تشدد کی آگ بھڑ ک اٹھی ہے ، فرق صرف اتناہی کہ 2002 میں شرپسندوں اور دہشت گردوں نے وہیں کے مسلمانوں کا خون بہایاتھا اس مرتبہ وہ شمالی ہندوستان کے غریب مزدور پیشہ لوگوں پر ظلم وستم ڈھارہے ہیں ،انہیں تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں ۔قانون کی گرفت سے خود کو آزاد سمجھ کر بے قصوروں ،بے گناہوں اور مزدوروں پر مظالم کی انتہاءکرچکے ہیں ۔تقریبا اب تک ایک لاکھ سے زائد مزدور پیشہ افراد گجرات چھوڑ کر اپنے وطن واپس لوٹ چکے ہیں ۔
تشدد ،نفرت اور انتہاءپسندی کسی بھی سماج ،معاشرہ اور ملک کیلئے ناسور ہے ،جس سوسائٹی میں یہ چیزیں پنپتی ہیں یا اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اس کا انجام بھیانک او رخطرناک ہوتاہے ۔2002 میں نفرت انتہا پسندی اور تشدد کو بڑھاوادیاگیا ،سرکاری سرپرستی میں اس کی حوصلہ افزائی کی گئی کیوں کہ اس وقت مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی ،2014 کے بعد سے ماب لنچنگ اور ہجومی دہشت گردی کے واقعات کی مسلسل پس پردہ پشت پناہی کی جارہی ہے ،جرائم پیشہ افراد اور مجرمین کے خلاف کاروائی سے گریزکیا جاتاہے،مکمل ثبوت کے باوجود ایکشن نہیں لیاجاتاہے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں کے بعد دلتوں کو انہوں نے نشانہ بنانا شروع کردیا اور اب خود ان لوگوں نے بغیر کسی تفریق کے اپنے ہی لوگوں کو مارنا شروع کردیاہے ۔کہاجاتاہے کہ شیر کو جب خون کی لت لگ جاتی ہے تو پھروہ اسے پانے کیلئے اپنے اور پرائے کے درمیان امیتاز نہیں کرتاہے بلکہ کیلے خون کیلئے کچھ بھی کرگزرتاہے کسی کا بھی شکار کرلیتاہے ۔یہی کچھ ہندوستان میں ہورہاہے ۔بھیڑ کے حملہ اور ماب لنچنگ کی حوصلہ افزائی کی گئی ،مجرموں کے خلاف کاروئی نہیں کی گئی،چنگاری کو بجھانے کے بجائے اسے ہوادی گئی جس کا نتیجہ اب یہ سامنے آیا ہے کہ یہ بھیڑ بھیڑیا بن کر علاقائی اور نسلی بنیاد پر فساد برپا کرنے لگی ہے ،مذہبی تفریق کے بغیر اب حملہ آور ہوچکی ہے اور انتہاءپسندی کے جنون میں کچھ دیکھے بغیر ہر ایک کو نشانہ بنارہی ہے ۔
یہ اتفاق کہیے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی ہیں جن کے وزیر اعلی رہتے ہوئے 2002 کا فساد رونما ہواتھا ،آج بھی گجرات میں بی جے پی ہی بر سر اقتدار ہے ۔یوپی میں یوگی آدتیہ ناتھ وزیر علی ہیں جنہیں نفرت اور انتہاءپسندی کے حوالے سے دنیا بھر میں جاناجاتاہے ۔بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کی پارٹی کا بی جے پی سے اتحاد ہے ۔یہ تینوں ریاست ایک ہی پارٹی کے زیر اقتدار ہے ،تینوں جگہ کے وزیر اعلی کی ذہنیت بھی تقریبا یکساں ہیں ۔وزیر اعظم بھی ان کے ہم خیال ہیں لیکن ان سب کے باوجودان کے بھکتوں میں کوئی پاس ولحاظ اور اپنائیت نہیں ہے ۔علاقائیت اور نفرت کی بنیاد پر یوپی ،بہار اور مدھیہ پردیش سمیت ہندی ریاستوں کی عوام کا وجود انہیں ناگوار گزررہاہے اور ان سے خالی کرانے کیلئے تشدد کا راستہ اپنا رکھاہے ۔روزی روٹی کمانے کیلئے ،اپنے بچوں کی پرورش وپرداخت کیلئے گجرات میں مزدوری کرنے والوں شمالی ہندوستان کے لوگوں کا وجود انہیں برداشت نہیں ہے ۔
2013 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہاتھا ” جب بہار کا ایک بچہ روزی روٹی کمانے کیلئے اپنے گھر سے نکلتاہے تواس کی ماں کا دل دھڑکتارہتاہے ،گجرات کی سرحد میں داخل ہوتے ہی ماں کو سکو ن مل جاتاہے وہ بولتی ہے کہ اب کچھ نہیں ہوگا ،تم محفو ظ زون میں پہونچ گئے ہو “۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا یہ بیان ایک مرتبہ پھر سننا چاہیئے ،لاءاینڈکا جائزہ لینا چاہیئئے اور اس کے اسباب پر غور کرنا چاہیئے کہ آخر ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھیڑ بے قابو کیوں ہوچکی ہے ،تشدد اور انتہاءپسندی کو فروغ کیوں مل رہاہے ،جرائم پیشہ افراد کیوں اپنے جرائم کو چھپانے کے بجائے دنیا کے سامنے ثبوت پیش کرہے ہیں کہ ہم نے یہ کیاہے ۔ تشدد کے شکار مسلمانوں ،دلتوں اور پسماندہ طبقات کے بعد اب خود اکثریتی فرقہ کے مزدور پیشہ لوگ کیوں ہوگئے ہیں ۔نسلی عصبیت کیوں اور کس وجہ سے بڑھ رہی ہے؟۔
نفرت ،تشدد اور انتہاءپسندی سے عالمی سطح پر ملک کا وقار مسلسل خراب ہوتاجارہے ،انتہاءپسند تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہونے کے بعد ہندوستان کا شمار اب افغانستان اور پاکستان کے زمرے میں ہونے لگاہے اوراس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ شروع میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے حوصلہ افزائی کی گئی لیکن اب اس کی آگ خودان کے گھروں تک پہونچ چکی ہے جو اسے بھڑکارہے تھے ۔شاید ایسے ہی مواقع کیلئے راحت اندوری نے کہاتھاکہ
لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
stqasmi@gmail.com