ڈرائیونگ خواتین کی ذاتی ضروریات

سیف الرحمن
ایک فیس بک گروپ میں ایک صاحب منسلک تصویر ڈال کر پوچھا کہ کیا لڑکیاں بائک چلا سکتی ہے؟ ۔میرے خیال میں یہ سوال شرعی نقطہ نظر سے متعلق پوچھا گیا تھا
اس پر زیادہ تر لوگوں نے نہی میں جواب دیا اب مجھے سمجھ میں نہی آرہا ہے کہ آخر لڑکیاں بائک کیوں نہی چلاسکتی ہے؟پہلا معاملہ پردہ کا ہے حیا کا ہے تو بتائیے ایک عورت ٹیمپو یا بس سے سفر کرتی ہے دوسری عورت بائک سے یا اپنی کار ڈرائیو کر سفر کر رہی ہے تو دونوں میں سے کس کا جسم غیر مرد سے مس ہوگا؟کس کو زیادہ وقت تک غیر مرد کے ساتھ بیٹھنا پڑیگا اور انکی نظروں کا نشانہ بننا ہوگا؟
ظاہر سی بات ہے ٹیمپو و بس سے سفر کرنے والی عورت کا جسم غیر مرد سے مس ہوگا اور لمبے وقت تک غیر مرد کی نظروں کا نشانہ بننا پڑیگا اس لحاظ سے بائک سے یا اپنی کار سے سفر کرنے والی عورت کا پردہ زیادہ ہوا اور تحفظ کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو جو عورت بائک سے یا اپنی کار سے سفر کر رہی ہو اسکے ساتھ حادثات کے ہونے کا امکان کم ہوگا کیونکہ بھاگ نکلنے یا دشمن کا مقابلہ کرنے کا راستہ اس کے سامنے زیادہ کھلا ہوگا لیکن بس یا ٹیمپو سے سفر کرنے والی عورت کے ساتھ نربھیا جیسے حادثات کا خطرہ زیادہ بنا رہتا ہے
دوسری بات صحابیات (نبی کے زمانے کی مومنہ عورتیں) گھوڑ سواری جانتی تھی اونٹ کی سواری جانتی تھی اور اس سے سفر بھی کرتی تھی یہاں تک کی جنگی ہتھیار چلانا بھی جانتی تھی بہت سے مواقع پر انہیں اور انکے بعد کی مسلم عورتوں کو مجاہد بھائیوں کے ساتھ باطل طاقتوں سے پنجہ آزمائی کرتے بھی دیکھا گیا غزوہ خندق میں نبی کی پھوپھی حضرت صفیہ کا عورتوں کے قلعے پر حملہ کرنے والے ایک یہودی کا قتل کر اس کا سر دشمنوں کی طرف پھینک کر ان میں خوف و ہراس پیدا کردینے کا واقعہ بہت مشہور ہے اور خود نبی کی سب سے چہیتی بیوی ام المومنین حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں لڑائی کی قیادت کی تھی گر چہ زیادہ تر عورتوں کی ذمہ داری مریضوں کی مرہم پٹی ہوتی تھی لہٰذایہ چیزیں تو ان صحابیات کی سنت ہوئی جسکی وجہ سے ہماری عورتوں کو بھی وہ چیزیں سیکھنی چاہئے جوکہ آج کا گھوڑا آج کے اونٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور کراٹا جوکہ آج کا سب سے مضبوط دفاعی آرٹ ہے یا دیگر دفاعی آرٹ و دفاعی آلہ کا چلانا بھی سیکھنا چاہئے تاکہ وقت پڑنے پر اپنی حفاظت بھی کرسکے اور صحابیات کی طرح اپنے مردوں کے ساتھ ملکر اپنے قوم و وطن کی حفاظت بھی کرسکے
کچھ لوگ عورتوں کی تعلیم و ہنر کے سیکھنے پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں انہیں بھولنا نہی چاہئے کہ حضرت عائشہ بہت سے مرد صحابہ و صحابیات کی استاد تھی اور احادیث کی ایک بڑی تعداد ان سے مروی ہے انہیں سونچنا چاہئے کہ انسان کا پہلا تعلیمی ادارہ اس کے ماں کا گود ہوتا ہے اب اگر ماں پڑھی نہی ہونگی تو بچے کی صالح دینی تربیت کیسے ہوگی؟ اب اگر ماں اس بچے کو جہاد کی کہانیاں و نظمیں نہی سنا پائنگی تو وہ بچہ صلاح الدین ایوبی و محمد بن قاسم کیسے بنے گا؟ اس کے ساتھ ہی انہیں سونچنا چاہئے کہ کسی عورت کی طبیعت ناساز ہو اسے مرد ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے وہ اس کا چیک اپ کرے جسمیں بعض دفعہ جانگھ,پیٹ,سینہ جیسے اعظائ جسم بھی دکھانے ہوتے ہیں تو کیا یہاں پردہ و حیا کے مسائل ختم ہوجاتے ہیں؟ کیا وہ مرد عورت کیلئے محرم ہوتا ہے؟ کیا یہاں فطرت انسانی اور شیطان متحرک نہیں ہوتا ہے؟ یقیناً وہ ڈاکٹر غیر محرم ہوتا ہے اور فطرت انسانی و شیطان یہاں بھی متحرک ہوتا ہے (نوٹ:لیڈی ڈاکٹر نہ ہو یا جو لیڈی ڈاکٹر ہو اس سے صحیح علاج مممکن نہی لگ رہاہو یا اس کا علاج بساط سے باہر ہو و دیگر مجبوریوں میں مرد ڈاکٹر سے علاج و انکے سامنے پردہ والے اعظائ کا کھولنا جائز ہوگا) اس لئے عورتوں کا ڈاکٹر بننا نہ صرف ضروری ہے بلکہ ضرورت کے مطابق لیڈی ڈاکٹر کا پیدا کرنا قوم پر فرض کفایہ ہے اسی طرح اور بھی دیگر تعلیمی محاذ ہے جہاں عورتوں کا جانا سماج اور قوم کیلئے بیحد ضروری اور دینی ذمہ داری ہے۔
جہاں تک معاملہ ہنر کے جاننے کا ہے تو نبی کی بیوی و صحابہ کی بیویاں اسکی بہتر مثال ہے جو سلائی,دباغت,کتابت و دیگر ہنر جانتی تھی اس کے ذریعہ پیسے کماتی تھی بعض گھر والوں پر بھی خرچ کرتی تھی اور بعض پورے پیسے صدقہ کردیا کرتی تھی کیونکہ گھر کا خرچ اٹھانا انکے شوہر کی ذمہ داری ہوتی تھی جو وہ بہتر ادا بھی کرتے تھے اسلئے یہ سارے پیسے کماکر صدقہ کر آخرت کیلئے انتظام کرتی تھی سماجی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ کسی عورت کے ساتھ حادثہ ہوجائے شوہر کا انتقال ہوجائے اس کے کئی بچے ہوں ویسے وقت میں بھائی بہن مدد کرنے کے لائق نہ ہو یا مدد کا مزاج نہی رکھتے ہوں دوسری شادی بھی ممکن نہ ہو (کیونکہ ہمارے سماج نے اسے بھی عیب اور ناممکن بنادیا ہے)
تو وہ عورت کیا کریگی؟کیسے اپنے بچوں کو پالے گی؟ اگر وہ سلائی یا دیگر ہنر جانتی ہوگی تو پردہ میں کماکر اپنے بچوں کو بہتر تربیت والی خوشگوار زندگی دیدیگی لیکن اگر نہی جانتی ہوتو میکے یا سسرال میں ذلت کی زندگی گزاریگی اپنے بچوں کو بھی تعلیم و تربیت نہی دے پائیگی جسکی وجہ سے ایک پوری نسل برباد ہوکر رہ جائیگی جسکی مثالیں ہمارے سماج میں بکھری پڑی ہے اور بعض دفعہ تو یہ مجبوریاں اس عورت کو اپنی نسل سمیت یا وہ بچ جائے تو اسکی اگلی نسل کو گناہوں کی سیاہ ترین دنیا میں دھکیل دیتی یے جسکا اندازہ ہم کوٹھوں کی دنیا میں جسم فروشی کا کاروبار کررہی عورتوں کی زندگی کو پڑھ کر بہتر طریقے سے لگا سکتے ہیں. لہذا ان خدشات کے مدنظر ہر عورت کو ہر لڑکی کو کوئی نہ کوئی ایسا ہنر سیکھنا ہی چاہئے جسکے ذریعہ وقت پڑنے پر وہ پردہ میں رہتے ہوئے اپنے لئے ضرورت کے مطابق پیسے حاصل کر اپنے مسائل حل کرسکیں اور خود باعزت زندگی گزار کر آنے والی نسل کوبھی باعزت زندگی فراہم کرسکے ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے حیدرآباد سے بیوروچیف ہیں )

SHARE