نئے ہندوستان کے پریشان حال عوام 

نقطۂ نظر : ڈاکٹر محمد منظور عالم 

ہندوستان کی خوبصورتی اور بہتری میں سے ایک اس ملک کا جمہوری نظام ہے ،جمہوریت ہر ایک کو اپنی بات کہنے ،اقتدار میں حصہ لینے اور رہنما چننے کا موقع دیتی ہے۔آزاد اور جمہوری ہندوستان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر پانچ سال پر مسلسل انتخابات کا انعقاد ہورہاہے۔ عوام حق رائے دہی کا استعمال کرکے اپنا رہنما اور لیڈر منتخب کررہی ہے۔ 2014 میں اسی حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے بی جے پی اور آر ایس ایس نے اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، آر ایس ایس اور بی جے پی پر عوام نے اعتماد کرتے ہوئے انہیں اقتدار تک پہنچایا تھا ، 31 فیصد ہندوستانیوں نے انہیں ووٹ کیا۔ عوام چاہ رہی تھی کہ ملک کی تصویر بدلے گی، ہندوستان میں معاشی اصلاحات ہو گی، ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں گے ،غربت ،بھوک مری اور پسماندگی ختم ہوگی،کرپشن کا خاتمہ ہوگا، رشوت کے کلچر پر بین لگے گی ،نظام میں شفافیت آئے گی ،عوام راحت کی سانس لے گی ،فرقہ پرستی کم ہوگی ، انتہا پسندی اور فساد پر کنٹرول کیا جائے گا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

بی جے پی حکومت میں ہندوستانیوں کا خواب مکمل طور پر چکنا چور ہوگیا ،31 فیصد عوام کو سوائے دھوکہ کے کچھ اور نہیں مل سکا ،جن امیدوں اور توقعات کے ساتھ ووٹ ڈالے گئے تھے اس میں سراسر ناامیدی ہاتھ لگی ،بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی تصویر اور شبیہ سدھارنے کے بجائے اور بگاڑنی شروع کردی ، مہنگائی بڑھتی گئی ،پٹرول اور ڈیز ل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے ،بھوک اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔روزگار کے مواقع نہ کے برابر ہیں ،نئی نسل اور تعلیم یافتہ نوجوان شدید ڈپریشن کے شکار ہیں،کارخانے اور فیکٹری بند ہونے کے کگاڑ پر ہیں تو بہت سارے لوگ بند کرکے گھر بیٹھ چکے ہیں،لائ اینڈ آڈر کی صورت حال بد سے بدتر ہوچکی ہے ، ریپ اور عصمت دری کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے ،قتل وغارت گری ، دہشت گردی اور بے گناہوں پر حملہ اس حکومت میں ایک عام بات سمجھی جانے لگی ہے۔تعلیمی ادارے پریشان حال ہیں ، ایجوکیشن بجٹ تک کو کم کردیا گیا ہے۔ اگر ایک جملہ میں بی جے پی سرکار کی ساڑھے چار سالہ کارکردگی بیان کی جائے وہ کہاجائے گا کہ اس حکومت میں صرف وعدے کئے گئے کچھ نبھائے نہیں گئے۔بہلانے کیلئے کانگریس کے دور میں شروع کی گئی اسکیموں کا نام بدل کراسے لاو ¿نچ کیاگیاہے لیکن وہ بھی ناقص اور ادھور اہے ،کسی پر بھی کام نہیں ہورہاہے۔

غربت ،بھوک مری اور پسماندگی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم گلوبل ہنگری انڈیکس کی تازہ رپوٹ کے مطابق بھوک مری میں ہندوستان 55 ویں سے 103 ویں مقام پر پہونچ گیاہے ، جی ایچ آئی ہر سال 119 ممالک میں بھوک ،غربت اور عوام کو ملنے والی غذا کا جائزہ لیتی ہے ا ور اپنی رپوٹ شائع کرتی ہے۔اس تنظیم کے مطابق چار سال پہلے ہندوستان کی تصویر بہتر تھی۔ 2014 اور اس سے قبل بھوک مری ہندوستان میں 55 ویں نمبر پر تھی ،بی جے پی سرکار آنے کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھنے لگا اور اب 2018 میں 103 ویں مقام پر پہونچ چکاہے۔ اس معاملے میں ہندوستان سے بہتر صورت حال بنگلہ دیش ،نیپال اور میانمار کی ہے جس کی شرح بھوک مری ہندوستان سے بہت کم ہے۔

کرپشن کے خلاف مہم چلاکر بی جے پی سرکار میں آئی تھی ،اناہزار ے نام کے ضعیف شخص کا اس کیلئے بھر پور استعمال کیا گیا جس نے خود کو گاندھیائی لیڈر کہکر کانگریس کے خلاف ایک محاذ قائم کیا لیکن آج یہ سرکار خود سر کے بال سے لیکر پاؤں کے ناخن تک کرپشن میں ملوث ہے ،پی ایم سے لیکر ایم پی اور ایم ایل اے تک کھلے عام کرپشن کررہے ہیں۔ رافیل گھوٹالہ اس وقت موضوع بحث ہے جسے ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا گھوٹالہ کہا جارہا ہے اور شاید یہ پہلا واقعہ ہے بھی جس میں کسی ملک کے سربراہ نے از خود اس کے بارے میں انکشاف کیاہے لیکن اس کے علاوہ بھی دسیوں گھوٹالے اس سرکار میں ہوئے ہیں۔

موجودہ دور میں پوری دنیا کی توجہ تعلیم کے فروغ اور نئی تسل کو تعلیم یافتہ بنانے پر ہے لیکن ہندوستان میں یہ معاملہ الٹا ہے۔ مودی سرکار میں تعلیم پر توجہ کم ہوگئی ہے، ایجوکیشن بجٹ پہلے کے مقابلے میں گھٹادیا گیا ہے۔ 2014-15 میں تعلیمی بجٹ 1103 کڑورروپے تھا ،تعلیمی سال 2015-16 میں یہ گھٹ کر 966 کروڑ ہوگیا، 2016-17 میں یہ 926 کروڑ ہوگیااور 2017-18 میں 796 کروڑ ہوگیا ہے۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ مودی سرکار کی توجہ تعلیم کے فروغ اور ملک کو تعلیم یافتہ بنانے پر نہیں ہے۔ اس کے ثبوت کیلئے یہ نظیر بھی کافی ہے کہ ملک کی اہم ترین یونیورسیٹی جے این یو میں بیرونی زبان کے شعبہ میں بی اے سال دوم کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔ طلبہ پڑھنا چاہتے ہیں، ملک کے نوجوان سیکھنا چاہتے ہیں لیکن حکومت اور انتظامیہ انہیں روک رہی ہے۔

کسانوں کا قرض معاف نہیں کیا جارہا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ملک میں کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں، بینکوں سے ایسے لوگوں کو لون دیا جارہا ہے جو ملک چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں ، جنہیں ضرورت ہے ، جو قرض کے محتاج ہیں ان پر کئی توجہ نہیں ہے۔ ملک کا بینکنگ نظام ڈگمگا چکا ہے۔ جی ڈی پی میں گرواٹ آچکی ہے ،معیشت کی صورت حال بدتر ہوچکی ہے۔ ریپ اور عصمت دری کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایک بین الاقوامی تنظیم کے مطابق ہندوستان خواتین کیلئے سب سے غیر محفوظ ملک بن چکا ہے۔ گذشتہ ایک کالم میں ہم ان تمام امور کو مکمل تفصیلات اور ڈیٹا کے ساتھ سپرد قرطاس بھی کرچکے ہیں۔ انتہائ پسندی ،فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردانہ واقعات اس حکومت کی شناخت بن چکی ہے، گؤ کشی، لوجہاد اور دیگر چیزوں کو ایشو بناکر پہلے مسلمانوں پر حملہ کیا گیا، پھر دلتوں کو نشانہ بنایا گیا اور اب علاقائی بنیاد پر خود آپس میں ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں۔

ہندوستان کے یہ مسائل نئے نہیں ہیں ، ستر سالوں سے یہاں کی عوام اسے جھیل رہی ہے، انہیں سب سے چھٹکارا پانے کیلئے 2014 میں عوام نے تبدیلی کا موڈ بنایا ، نئے ہندوستان کا خواب دیکھتے ہوئے ایک نئی سرکار انتخاب کیا لیکن معاملہ اور الٹا ہوگیا ، نئی سرکار نے نئے ہندوستان کا نقشہ ہی بگاڑ دیا ،تعمیر ،ترقی ،امن وآشتی ،سہولیات اور دیگر تمام شعبوں میں عوام کو ساڑھے چار سالوں میں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، ہم یہ بھی نہیں کہنا چاہیں گے کہ ہندوستان ستر سال پیچھے چلا گیا ہے کیوں کہ معاشی سطح پر آزادی کے وقت ہندوستان کی صورت آج سے بہتر تھی آج کی صورت حال کی نظیر پیش کرنے کیلئے ماضی کی کوئی مثال نہیں ہے اور نہ کوئی دوسرا ملک بچا ہے جس پر قیا س کیا جاسکتا ہے۔ بنگلہ دیش ،نیپال ،بھوٹان اور میانمار جیسا ملک ہم سے بہتر ہوچکا ہے۔ ان ساڑھے چار سالو ں میں بی جے پی اور آر ایس ایس نے اگر کوئی کام کیا بھی ہے تو صرف نفرت کا فروغ اور انتہائ پسندی کی تشہیر ہے۔ہندومسلم کے درمیان نفرت کی سیاست ہوئی ہے ، فرقہ پرستی کے ایجنڈے کو پروان چڑھا گیا ہے ، مذہب کے نام پر جنونیوں اور دہشت گردوں کی فوج تیار کی گئی ہے جو ہندوستان کیلئے مستقل ایک سنگین خطرہ ہے۔

2014 کے بعد اب 2019 سامنے ہے۔ عام انتخابات ہم عوام کو موقع دیتا ہے سرکار منتخب کرنے کا ،کسی پارٹی کو اقتدار تک پہونچانے اور اپنا لیڈر منتخب کرنے کا۔2014میں ہمیں یہ موقع ملا تھا جس میں ہم دھوکہ کھاچکے ہیں اس لئے اب ماضی کی غلطیوں سے ہمیں سبق سیکھنا ہوگا۔ جملوں اور وعدوں میں آئے بغیر حقائق دیکھنا ہوگا کہ کس سرکار نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔کس کی حکومت میں کن پریشانیوں سے گزر نا پڑا ہے اور کس پارٹی نے ہمیں ترقی کے راستے پر گامزن کیاہے۔عوام ذی شعور ہے ، اسے سیاسی بصیرت ہے، حالات پر گہری نظر ہے اب ان پرنہ تو اخبارات اور ٹی وی چینل کے پیڈ نیوز اور اشتہارات اثر انداز ہوسکتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت وعدے انہیں گمراہ کرسکتے ہیں۔

(کالم نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں