ہاشم پورہ قتل عام پر عدالت عالیہ کا فیصلہ !

مارچ 2016 میں دہلی کی ذیلی عدالت سے مظلومین کو مایوسی کا سامناکرناپڑاتھا ،ا ن دنوں راقم الحروف نے ایک مضمون لکھاتھا جسے آج ہم ہو بہو قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں

خبر در خبر(577)
شمس تبریز قاسمی
میرٹھ کے ہاشم پورہ میں 1987 کو کئے گئے قتل عام میں دہلی ہائی کورٹ نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے ذیلی عدالت کے اس فیصلہ کو پلٹ دیا ہے جس میں 16 پی اے سی (پرونشیل آرمڈ کانسٹیبلری) اہلکاروں کو بری کر دیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے تمام ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قیدت کی سزا سنائی ہے۔مارچ 2016 میں دہلی کی ذیلی عدالت سے مظلومین کو مایوسی کا سامناکرناپڑاتھا ،ا ن دنوں راقم الحروف نے ایک مضمون لکھاتھا جسے آج ہم ہو بہو قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔
22 مئی 1987کی سیاہ رات دن بہ دن تاریک ترین ہوتی جارہی ہے ۔ انصاف کی امید کررہے مظلومین کے ورثا ءکے زخموں کو ملک کی عدلیہ نے28 سالوں کی طویل مدت تک انتظارکرانے کے بعد پھر تروتازہ کردیا ہے ۔ انصاف کی آس لگائے بیٹھے ہاشم پورہ کی گلیوں میں پھر صف ماتم بچھ گئی ہے ۔ ہر طرف آہ وبکا اور چیخ وپکار کا عالم ہے ۔ ان کا زخم لہولہان ہوچکا ہے ۔ 21 مارچ کی تاریخ ان کے لئے ایک نئی قیامت بپا کرچکی ہے ۔ ہر گھر اور گلی میں اندوہناک منظر ہے ۔ ہر کسی کی چہرے پر افسردگی اور رنجیدگی ہے ۔رنج وغم کی اس گھڑی میں نہ کوئی ان کا پرسان حال ہے اور نہ کوئی انہیں انصاف دلانے کے لئے قانونی جنگ لڑنے ولا غم گسار مل رہا ہے۔ نہ ہی سیاست کی روٹیاں سیکنے والے ان کے ماتم میں شریک ہورہے ہیں نہ ملی قیادت کا دعوی کرنے والے رہنما ہاشم پورہ کی سیر کرکے مظلومین کی تسلی کے لئے کو ئی اقدام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ 28 سالوں تک خاموش رہنے والی میڈیا اب ان کے زخموں کو کرید رہی ہے کہ اس رات کیا ہوا تھا ۔ کیسے ہوا تھا کتنے لوگوں کو اٹھایا گیا تھا ۔ کیسے گزرے ہیں اب تک یہ رات ودن ۔
سچائی یہ ہے کہ ہاشم پورہ فساد نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کا قتل عام تھا ۔ کانگریس کی مسلم دشمنی اور اس کی فرعونیت تھی ۔ راجیو گاندھی اور ویر بہادر سنگھ کی سازش تھی۔ پی اے سی کے ظلم و بربریت کی خونچکاں مثال تھی ۔ظلم وستم کی داستان دلخراش تھی جس کے تحت نہ صرف 42 مسلمانوں کو تہ تیغ کیا گیا بلکہ تمام ترثبوت وشواہدکو مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن قدرت نے ان کے جرائم کو بے نقاب کرہی دیا ۔ جن مسلمانوں کو پی اے سی کے درندوں نے گولی سے چھلنی کرکے غرق آب کردیا تھا ان میں سے چار زندہ بچ نکل آئے اور ظالموں کے ظلم کو بے نقاب کیا۔ دنیا کے سامنے حکومت اور پولس کے کالے کرتوت سے پردہ اٹھایا لیکن افسوس کہ ملک کی عدلیہ نے ثبوتوں و شواہد سے قطع نظر کرتے ہوئے 21 مارچ 2015 کو اس قتل عام میں ایک اور شرمناک باب کا اضافہ کردیا ۔ مقننہ اور انتظامیہ کے ساتھ عدلیہ نے بھی اپنا بھرم توڑ دیا ۔
22 مئی 1987 کوآرمی اور پی اے سی کا دستہ ہاشم پورہ کا احاطہ کرچکا تھا۔ پورے محلے میں سرچ آپریشن جاری تھا ۔ ہر ہر گھر کی تلاشی لی جارہی تھی ۔ تین سو پچاس لوگوں کو تھانہ لے جاکر ان سے تحقیق و تفتیش کی گئی ۔اسی رات پی اے سی کے نوجوانوں نے ٹرک پرمزید پچاس مسلمانوں کویہ کہ کر سوار کیاہم اسے تحقیق کے لئے تھانہ لے جارہے ہیں ۔لیکن اب تک ان کی واپسی نہیں ہوسکی ۔اتر پردیش کے ضلع غازی آباد کے مراد نگر میں واقع گنگ ندی کے کنار ے لے جاکر بندوق کی گولیوں سے چھلنی کردیا ۔ ان کی لاشوں کی دریا میں بہادیا ۔ چند سال قبل اس ندی سے چند لاشیں برآمد ہوئیں ہیں جو پی اے سی کے ذریعہ قتل کئے گئے مسلمانوں کی تھی ۔30 مئی 1987 کو راجیو گاندھی نے یوپی کے وزیر اعلی ویر بہاد سنگھ کے ساتھ جائے حادثہ کا دورہ کیا ۔پی سی یو ایل نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کی صدارت میں معاملے کی تحقیق کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ۔23 جون 1987 کو کمیٹی کی یہ رپوٹ پیش ہوئی ۔1988 میں اتر پردیش حکومت نے سی بی سی آئی ڈی کو اس معاملے کی تفتیش کا حکم دیا ۔تفتیشی ٹیم کے سربراہ سابق ایڈیٹر جنرل گین پرکاش تھے جنہوں نے یہ رپوٹ 1994 میں سونپی ۔ ایک سال تک یہ رپورٹ پردہ خفا میں رکھی گئی ۔سی بی سی آئی ڈی نے اس رپورٹ میں پی اے سی کے 37 ملازمین کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی ۔1996 میں یکم جون 1996 کو اتر پردیش کی مایاوتی حکومت نے 19 ملزمین کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دی ۔سی بی سی آئی ڈی کی انکوائری کے بعد غازی آباد کی عدالت میں چارج شیٹ داخل کی گئی ۔ لیکن اس درمیان مقدمہ کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔2002 میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر یہ مقدمہ غازی آباد سے دہلی کی تیس ہزاری کورٹ منتقل کردیا گیا ۔لیکن 2004 تک ریاستی حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا جس کی بناپر یہ معاملہ جوں کا توں کاپڑا رہا۔ بالآخر 2006میںایس وردھا کی طرف سے پی اے سی کے تمام ملزموںکے خلاف قتل اقدام اور دیگر دفعات کے تحت ازسرنو چارج شیٹ داخل کی گئی ۔2006 میں دہلی کی عدالت میں مقدمہ کی شروعات ہوئی ۔ سی بی سی آئی ڈی نے ثبوتوں کو خفیہ رکھا ۔ نہ ہی زندہ نچ جانے والے ذوالفقار کی آہوں کا عدالت میں بھرم رکھا گیا اور نہ پروین جین کی ان منہ بولتی تصاویر کو کوئی اہمیت دی گئی جس کی نگیٹف بھی موجود تھی ۔بالآخر21 مارچ 2015 کو عدالت نے معاملے میں ٹھہرائے گئے 19 ملزمین میں سے زندہ بچے 16 کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا کہ وکلاءیہ ثابت نہیں کرپائے کہ 22 مئی کو 42 مسلمانوں کو قتل کرنے والے یہی تھے ۔
ہاشم پور ہ قتل عام کے لئے مجرم پی اے سی اور پولس دستہ نہیں ہے بلکہ اس قتل عام کے لئے اصل ذمہ دار راجیو گاندھی کی حکومت اور کانگریس ہے۔ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ ایک پولس افسر جسے اجازت کے بغیر گولی چلانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے اس کا دستہ منظم پلاننگ کے ساتھ کسی محلہ کے پچاس لوگوں کو ٹرک میں سوار کرے گا ۔ رات کی تاریکی میں انہیں دریا کنارے لے جائے گا۔ لائن سے بیٹھاکر گولیوں سے بھون دے گا ۔ ان کی لاشو ںکو دریا میں پھینک دے گا۔تمام تر ثبو ت مٹادے گا ۔نہیں !۔۔۔
اس قتل عام اور بربریت کے لئے ذمہ دار پولس اور پی اے سی نہیں ہو سکتی ہے ۔۔۔ اس کے لئے یقینی طور پر ذمہ دار مرکز اور ریاست کی حکمراں جماعت کانگریس ہے جس کے حکم پر یہ سب کچھ ہوا تھا ۔ ایک غیر مسلم رائٹر کے بہ قول بابری مسجد کا تالا کھلوانے کے بعدمسلمانوں میں جو شدید بے چینی پید اہوئی تھی ہر طرف احتجاج شروع ہوگیا تھا ۔ مغربی اتر پردیش اور میرٹھ میں سب سے زیادہ راجیوگاندھی کے خلاف آواز بلندی کی گئی تھی اسے دبانے کے لئے کانگریس نے مسلمانوں کا یہ قتل عام کرایا تھاکہ تاکہ مسلمان آئندہ بابری مسجد کے مسئلہ پر احتجاج کرنا بند کردے۔
انتظامیہ اور مقننہ کی بربریت کے بعدایک آخری امید عدلیہ سے وابستہ تھی ۔ ہاشم پورہ کے مظلوم مسلمانوں کو یہ توقع تھی ملک کی عدلیہ معتبر اور قابل بھروسہ ہے ۔مجرموں کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا لیکن عدالت نے بھی وہی کیا جو انتظامیہ اور مقننہ کرچکی تھی ۔ 2006 میں یہ مقدمہ غازی باد سے جب دہلی کی سیشن عدالت میں منتقل کیا گیا تو امید بندھی کی عدلیہ اس معاملے میں حساس ہے ۔ وہ امانت کے ساتھ اس مقدمہ کی سماعت کرے گی ۔ مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا ۔ لیکن جب 21 مارچ کو عدالت کا فیصلہ سامنے آیا تو دنیا یہ جان کر انگشت بدنداں رہ گئی کہ عدالت نے 16 مجرموں کہ یہ کہتے ہوئے بری کردیا ہے کہ ان کے خلاف پختہ ثبوت نہیں تھے ۔ وکلاءملزموں کے خلاف ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ اس بات کے شواہد نہیںمل سکے ہیں 22 مئی 1987 کی رات میں قتل کئے گئے 42 مسلمانو ں کے قاتل یہی ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ پھر 42 مسلمانوں کا قاتل کون ہے ؟
کیابندوق کی گولیاں خود بہ خود انہیں جاکر لگ گئی تھیں ؟
ہاشم پورہ سے گنگ ندی کے کنارے یہ پچاس بے گناہ خود بہ خود پہنچ گئے تھے ؟
ان کی لاشیں از خود ندیوں میں بہ کر پانی کو سرخ کرچکی تھیں۔
پروین جین کی لی گئی تصاویر میں ہاشم پورہ کے مسلمانوں کو گرفتار کرتے ہوئے پی اے سی کے جو نوجوان نظر آرہے ہیں کیا وہ کافی نہیں ہے ؟
کیا پولس آفس میں یہ رپورٹ درج نہیں ہوتی تھی کہ کتنے ملازمین کب کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں ؟
بندوق کی فورنیسک جانچ کیوں نہیں کرائی گئی ؟
کیا زندہ بچ جانے والے عینی شاہدین کی شناخت معتبر نہیںہے ؟
کیاموت کی آغوش سے واپس لوٹنے والوں کی باتیں بکواس ہے ؟
اگر کسی معاملے میں عینی شاہد نہ ہوتو کیا اس معاملے کی تحقیق نہیں ہوتی ہے ؟
ملک کی ایجنسیاں کس لئے ہیں؟
جین کی تصاویر کو معتبر ماننے کے لئے جب نگیٹف طلب کی گئی تو پھر بی سی آئی سی ڈی نے اسے عدالت میں کیوں نہیں پیش کیا ؟
کیا معیار ہے یہاں کی عدالتوں کا ؟۔
کس طرح کے معاملے میں انصاف کی روایت قائم کی جاتی ہے؟ ۔
جب معاملہ افضل گرو کا ہوتا ہے تو محض شک کی بنیاد پر تختہ دار تک پہچادیا جاتا ہے ۔ ایک لڑکی کے ساتھ ریپ کا واقعہ پیش آتا ہے تو قانون بدل کر دس سال تک چلنے والے مقدمہ کو صرف ایک سال کی مدت میں حل کرلیا جاتا ہے۔
لیکن 42 بے گناہوں کے قتل عام کے مجرموں کے لئے ملک میں کوئی قانون نہیں ہے ؟
کوئی اصول نہیں ہے ؟ کوئی ثبوت نہیں ہے ؟
مسلمانوں کے قاتلوں کی شناخت کا کوئی طریقہ نہیں ہے ؟
یہ سوالات ہیں جن کے جوابات مطلوب ہیں یہاں کی عدالتوں سے ۔ملک کے ججوں سے ۔ آئینی ادراوں سے ۔ سیاسی رہنماﺅں سے ۔ ملی قائدین سے ۔
ہاشم پورہ کیس میں میڈیا نے بھی مظلومین کا ساتھ نہیں دیا ۔ کینڈل مارچ نہیں نکالے گئے ۔ پرائم ٹائم کی بحثوں میں اس پر زیادہ بحث نہیں کی گئی ۔ انڈین ایکسپریس کے صحافی پروین جین کی وہ تصاویر اخبار ات نے نہیں چھاپی جو اس واقعہ سے جڑا سے سب سے اہم ثبوت ہے ۔ فیصلہ آنے کے بعد تو آج ہر اخبار اور چینل ا ن تصیاویر کو شائع کررہا ہے لیکن جب یہ معاملہ ہواتھا اس سے لے کر اب تک کسی بھی بڑے اخبار نے ان منہ بولتی تصاویر پر مبنی رپورٹ شائع نہیں کی ۔ الیکٹرانک میڈیا نے اسے کوئی مناسب جگہ نہیں دی ۔ آج بھی عدالت کے اس فیصلے کو غلط ٹھہرانے کی کسی میں جرات نہیں ہورہی ہے ۔
ہاشم پورہ فساد کے حوالے سے ملی قائدین کارول بھی انتہائی شرمناک اور افسوسناک رہا ہے ۔ بڑی تنظیموں سے لے کر چھوٹی تنظیموں کے سربراہان نے اس فساد کے نام پر پوری دنیا سے چند ہ تو لیا ہے ۔ اپنی اقتصادی حالت تو انہوں بہتر بنالی ہے لیکن ان مظلومین کا مقدمہ لڑنے کی انہیں توفیق نہیں ہوسکی ہے ۔انہوں نے کانگریس کے اس ظلم کے خلاف کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ عدالتوں میں مقدمہ دائر نہیں کیا ۔ آج تیس ہزاری کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اخبارات میں ہاشم پورہ فساد سے متعلق ملی رہنماﺅں کے پریس ریلیز کی بھر مار لگی ہے ۔ اخبارات کے ایڈیٹران پریشان ہیں کہ کن لوگوں کی پریس ریلیز شائع کی جائے اور کن کی نہیں ۔کسے ہاشم پورہ کے مظلومین کے تئیںسب سے زیادہ فکرمند او ر سنجیدہ مانا جائے ۔ سچ تو ہے کہ ملی قائد ین اس طرح کے سانحہ کوا پنی شہرت اور آمدنی کا ذریعہ بنالیتے ہیں ۔ اس بہانے انہیں اخبارات میں ایک بیان جاری کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ہاشم پورہ سانحہ بھی اسی میں سے ایک ہے جس میں ملی تنظیموںکے ںسربراہان عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے اوران کے لئے قانونی لڑائی لڑنے کے بجائے صرف اخبارات کے ذریعے اظہار افسوس اور غم کررہے ہیں ۔
گجرات اور ہاشم پورہ کے قتل عام کوئی فرق نہیں ہے لیکن گجرات فساد کی یادیں ملی رہنماﺅں کے ذہن ودماغ میں آج بھی تروزتازہ ہیں ۔ اس کے مجرم کو معاف کرنے کے لئے وہ کسی بھی صورت میں تیار نہیں لیکن ہاشم پورہ قتل عام کی انہوں نے کبھی کوئی نوٹس نہیں لی ہے ۔ انہوں نے اس کے لئے صرف پی اے سی کو گناہ گار ٹھہرایا جو کسی کے حکم کی تعمیل میں یہ سب کررہے تھے ۔ سیکولرازم کی دہائی دینے والے کانگریس سے آج تک نہ میڈیا نے اور نہ ہی ہمارے ملی رہنماﺅں نے یہ سوال کیا کہ پی اے سی کے نواجوانوں کو مسلمانوں کے قتل کا حکم کس نے دیا تھا؟ ۔ کس کے اشارہ پر یہ سب ہوا تھا؟ ۔ کس جرم کی پاداش میں بے گناہوں کے خون سے دریاکو سرخ کیا گیا تھا ؟۔
(مضمو ن نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com

SHARE