سید عبداللہ علوی بخاری اشرفی
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت ، امام عشق و محبت ، امام اہل سنت مولانا الحاج الشاہ امام احمد رضا خاں محقق و محدث بریلوی علیہ الرحمة الباری کی ذات ستودہ صفات عالم اسلام کے لئے بالخصوص عاشقان رسول ﷺ کے لئے کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ کی ذات مقدسہ جہاں علوم دینیہ ، عقلیہ و نقلیہ کی سرتاج و امام وقت نظر آتی ہے وہیں آپ کی مبارک شخصےت اپنے عہد کے سب سے بڑے دشن اسلام و مسلمین و وطن عزیز ہندوستان کے ظالم حکام انگریز و سلطنت برطانیہ کو بھی اپنے قدموں کی ٹھوکریں مارتی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ وہ مقدس اور عظیم المرتبت ذیشان اور کوہ شکن ہستی تھی جن کے آگے زمانے کے بڑے سے بڑے فرعونِ وقت کو سرنگوں ہوتے دیکھا ہے ۔وطن عزیز ہندوستان کی غاصب و قابض ، ظالم برطانوی حکومت بھی آپ کے فتاوں کے خلاف آواز اٹھانے کی جسارت نہ کر سکی تھی جب کہ آپ ساری زندگی ان کی مخالفت پر رہے اور اپنے شاگردوں ،مریدوں اور خلفاءکو بھی انگریز استمرار کے خلاف وعظ و نصیحت فرماتے رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تاریخ ہند سے ایک ایسا فرد واحد تک نہیں دکھایا جا سکتا جو اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ کا معتقد ہو اور انگریزوں کا آلہ کار رہا ہو ، ایک ایسا واقعہ پیش نہیں کیا جاسکتا جس سے امام اہل سنت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ کا انگریزوں سے کوئی دور دور تک واسطہ ثابت کر سکتا ہو ۔
یہ بہت بڑی ستم ظریفی ہے کہ افکار و نظریات میں اختلافات کے باعث محض عناد و عدوات اور بغض میں تاریخ و سیاست کے بعض اہل قلم نے عصبےت پسندی کا مظاہرہ کیا امام اہل سنت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ کو انگریز مخالف علما میں شمار و شامل کرنے پر تعصب سے کام لیا مگر ” حقیقت چھپائے نہیں چھپتی “ اور ” حق خود کو منوا ہی لیتا ہے “ کے مصداق اہل قلم کی جماعت سے سیاسی تاریخ دانوں میں ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے حق بیانی سے کام لیا ہے اور امام اہل سنت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ کی انگریز مخالفت اور برطانوی حکومت سے تنفر و دشمنی کی سچائی پر گرے پردوں کو اٹھا یا ہے ۔
یہ زمانے کا دستور ہے کہ جب آدمی کے پا س اپنی دفاع کو کو ئی جواب باقی نہیں رہ جاتا تو لوگ تشدد ، بد زبانی ، الزام تراشی ، فحش گوئی جیسے اعمال قبیحہ و اخلاق رذائلہ کو اختےار کرلےتے ہیں اور بالخصوص حاسدین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب اپنے مقابل کے خلاف کوئی حربہ کام نہ آ سکے تو الزامات کا سلسلہ جاری کردو تا کہ شخصےت داغدار ہو جائے اور بدنام ہو کر ناکام ہو جائے ، مگر ظالم یہ بھول جاتے ہیں کہ جو اﷲ کے دین کی حفاظت کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا ہے ۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ مجدد دین ہیں ، محافظ دین ہیں پھر بھلا اﷲرب العزت جل مجدہ الکریم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کا محافظ کیوں نہ ہوتا ؟ آیئے ! ہم تاریخ کی روشنی میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کی انگریزوں اور حکومت برطانیہ سے نفرت کا جائزہ لیں ۔
حوالہ۱: جناب شوکت صدیقی صاحب مدیر ہفت روزہ ” الفتح “ کراچی میں عنوان ” فاضل بریلوی اور ان کے رفقاءکی سیاسی خدمات “کے تحت اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’ ’ مولانا احمد رضا خاں نہ کبھی انگریزوں کی حکومت سے وابستہ رہے ، نہ اُن کی حماےت میں فتویٰ دیا ، نہ کبھی اِس بات کا کسی طور پر اظہار کیا ۔ کم از کم میری نظر سے اُن کی ایسی کوئی تحریر نہیں گذری ۔ اگر ایسی کوئی بات سامنے آتی تو اس
کا ذکر ضرور کرتا اِس لئے کہ نہ میرا اُن کے مسئلک سے کوئی تعلق ہے نہ اُن کے خانوادے سے، لہٰذا شاہ احمد رضا کو علمائے سُو کے زمرے میںشامل کرنا سراسر بہتان اور تہمت ہے ۔ “
( ہفت روزہ الفتح ، شمارہ ۸۲مئی تا ۴ جون ۶۷۹۱ ، ص۸۱، ۹۱ ، از:آئینہ امام احمد رضا ، مصباحی ،غلام جابر شمس )
حوالہ۲: یہی جناب شوکت صدیقی صاحب مدیر ہفت روزہ ” الفتح “ کراچی ، لکھتے ہیں :
” مولانا احمد رضا خاں جون ۶۵۸۱ ءمیں پیدا ہوئے اور ۱۲۹۱ئ میں اُن کا وصال ہوا ۔ وہ نسباً پٹھان ، مسلکاً حنفی ، مشرباً قادری اور مولداً بریلوی تھے ۔ اُن کے بارے میں وہابیوں کا یہ الزام ہے کہ وہ انگریزں کے پروردہ یا انگریز پرست تھے ، نہاےت گمراہ کن اور شر انگیز ہے ۔
وہ انگریزوں اور اُن کی حکومت کے اِس قدر کٹر دشمن تھے کہ لفافے پر ہمیشہ الٹا ٹکٹ لگاتے تھے اور بر ملا کہتے تھے کہ میں نے جارج پنجم کا سر نیچا کر دیا ۔ اُنھوں نے زندگی بھر انگریزوں کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا ۔ مشہور ہے کہ مولانا احمد رضا نے عدالت میں کبھی حاضری نہ دی ۔ ایک بار اُنھیں ایک مقدمہ کے سلسلہ میں عدالت میں طلب بھی کیا گےا مگر اُنھوں نے توہین عدالت کے باوجود حاضری نہ دی اور یہ کہہ کر نہ دی کہ میں انگریز کی حکومت ہی کو جب تسلیم نہیں کرتا تو اس کے عدل و انصاف اور عدالت کو تسلیم کیسے کروں؟ کہتے ہیں کہ انھیں گرفتار کر کے حاضر عدالت ہونے کے احکامات جاری کئے گئے ، بات اتنی بڑھی کہ معاملہ پو لیس سے گذر کر فوج تک جا پہنچا ، مگر اُن کے جانثار ہزاروں کی تعداد میں سر سے کفن باندھ کر اُن کے گھر کے سامنے کھڑے ہو گئے ، آخر عدالت کو اپنا حکم واپس لینا پڑا ۔“
( ہفت روزہ الفتح ۴۱ ¾ ۱۲ مئی ۶۷۹۱ ، ص ۷۱)
(از:مقالات سعیدی ، علامہ غلام رسول سعیدی (شارح صحیح مسلم ) مقالہ ” بر صغیر کی سیاست اور علماءاہل سنت “ صفحہ ۳۸۴)
حوالہ۳: مدیر الحبیب لکھتے ہیں :
ایک مرتبہ انگریز کمشنر نے ۵۳ مربع زمین آپ کو پیش کی مگر اِس مرد ِ قلندر نے فرمایا :
” انگریز اپنی تمام حکومت مجھے دے دے تو بھی میرا ایمان نہیں خرید سکتا ۔“
( ماہنامہ الحبیب ، اکتبو بر ۰۷۹۱ء)
(از:مقالات سعیدی ، علامہ غلام رسول سعیدی (شارح صحیح مسلم ) مقالہ ” بر صغیر کی سیاست اور علماءاہل سنت “ صفحہ ۳۸۴)
حوالہ۴: حاجی علاو ¿الدین میرٹھی ایک مسئلے کی تحقیق کے لئے آ پ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے فرمایا :
’ ’ آپ کے خطوط آتے ہیں ان میں ٹکت زیادہ لگے ہوتے ہیں حالاں کہ لفافہ دو پیسوں میں آ جاتا ہے۔ “
حاجی صاحب نے عرض کی : ” حضور دو پیسوں کے ٹکٹ تو عام لوگوں کے خطوط پر لگائے جاتے ہیں ۔“
فرمایا : ” بلا وجہ نصاریٰ کو پیسہ پہنچانا کیسا ؟ “
(از:حےات اعلیٰ حضرت ، ملک العلما حضرت مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ ، صفحہ ۰۴۱،)
(و مقالات رضویہ ، حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ ، صفحہ ۳۵)
حوالہ۵: اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ قیام جبل پور کے دوران نماز عصر کے بعد کبھی تفریح فرمانے جایا کرتے ، برہان ملت حضرت علامہ مفتی برہان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ ( خلیفہ ¿ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ) ایک دن کا واقعہ یوں نقل فرماتے ہیں :
ایک دن بعد نماز عصر تفریح کے لئے بگھی پر ، گن کیرج فیکٹری کی طرف نکلے ، فوجی گوروں کی پارٹی فیکٹری سے اپنے اپنے کواٹروں کی طرف جا رہی تھی ، انھیں دیکھ کر حضرت نے فرمایا :
” کم بخت بندر ہیں ‘ ‘
مولانا حسنین میاں نے فرمایا :
” صرف دُم کی کسر ہے “
(از:اکرام امام احمد رضا ، برہان ملت حضرت علامہ مفتی برہان الحق جبل پوری علیہ الرحمہ ، خلیفہ ¿ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ، صفحہ ۱۹)
حوالہ۶: اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ ،” تحریک ترک موالات“ سے متعلق نوے (۰۹) صفحات پر مشتمل اپنے مبسوط رسالہ
” المحجة المو تمنہ “ میں ایک مقام پر تحریرفرماتے ہیں :
” واحد ِقہار اور اُس کے رسولوں اور آدمیوں سب کی ہزار در ہزار لعنتیں جس نے انگریزوں کے خوش کرنے کو تباہی مسلمین کا مسئلہ نکالا ہو ۔ نہیں نہیں! اُس پر بھی جس نے حق مسئلہ نہ رضائے خدا و رسول ، نہ تنبیہ و آگاہی ¿ مسلمین بتایا بلکہ اس سے خوشنودی ¿ نصاریٰ مقصد و مدعا ہو۔ ´“
( المحجة المو تمنہ،رسالہ ¿ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ، صفحہ ۸۴، از مقالات رضویہ ، حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ ، صفحہ۴۵)
مذکورہ بالا اِن تمام تاریخی شواہد سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کا انگریز دوست ہونا نہیںبلکہ انگریز دشمن ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ کو ہر اُس تحریک اور ہر اُس فرد سے بھی نفرت تھی جس کا تعلق یا محبت و مو ¿دت انگریزوں یا انگریزی حکومت سے ہوتا ۔ بحمدہ تعالی یہ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ کے تحفظ دین کی خدمت کا ہی ثمرہ ہے کہ اﷲ رب العزت جل مجدہ ¾ الکریم نے آپ کو انگریزی حکومت ہو یا کوئی اور سلطنت ، ہر ایک کی آلہ کاری سے پاک و صاف رکھا ۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ نے اگر کسی کا دفاع کیا تو وہ اﷲ اور اس کے رُسل اور محبوبان بارگاہ اِلٰہی ہیں ۔ اُن کی شان و عظمت ، مرتبت ، مقام و منصب میں گستاخیا ں کرنے والوں کے خلاف آپ تا عمر سینہ سپر رہے ، پھر مقابلے میں خواہ انگریز ہوں یا انگریزوں کے مسلمان نما آلہ کا ر مولویان ۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ کی تنہا وہ ذات مبارکہ ہے جنھوں نے اپنے خدا داد علم و فضل کی بدولت کمال ہوشیاری و بیدار مغزی سے انگریزوں کی عیاں و خفیہ سازشوں کو نہ صرف پہچانا بلکہ اسے امت کے سامنے پیش بھی کیا اور انگریزوں کے مقرر کردہ لیڈروں ، مولویوں اور پیرو کاروں کے سر عام راز بھی کھولے ۔
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ نے ہر ایک کی علمی و قلمی سرکوبی فرمائی اور کسی کو یہ حق نہ دیا کہ کوئی بھی رسول گرامی وقار ﷺ کے اس مقدس دین اور حضور اقدس ﷺ کی اِس بھلی و بھولی اُمتِ اجابت کے ساتھ کھلواڑ کر سکے ۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ نے دین و اُمت کے دنیوی و اُخروی مفاد کو ہمیشہ مد نظر رکھا اور ایسی تدابیر و حکمتیں اختےار فرمائیں کہ جس سے دین کی بھی حفاظت ہو اور اُمت کی بھی ۔اس طرح آپ تا عمر ملک و ملت دونوں کی حفاظت و صیانت پیش فرماتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔
(یہ (مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )