نئی دہلی(پریس ریلیز)
ڈاکٹر انوارالحق کے انگریزی ناول کو شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم وسیم احمد علیمی نے اردو میں منتقل کیا ہے۔ ” شب انتظار گزری ہے” کے عنوان سے یہ کتاب مشہور اشاعت گھر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے۔ آج شام ڈائنامک امریکن انسٹیوٹ بٹلہ ہاوس جامعہ نگر میں اس کتاب کا رسم اجرا عمل میں آیا جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرس اور طلبہ و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد مبشر نے ترجمہ کی ضرورت اور اہمیت پر معلومات افزا گفتگو کی۔ انہوں نے اپنے عزیز دوست اور ناول کے مصنف ڈاکٹر انوارالحق اور عزیز شاگرد اور ناول کے مترجم وسیم احمد علیمی کی طبعی مماثلتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مصنف اور مترجم دونوں اردو اور انگریزی میں یکساں دلچسپی رکھتے ہیں۔
‘شب انتظار گزری ہے’ ناول پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے قابل قدر ناول نگار، ناول ‘لفظوں کا لہو’ کے خالق اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر جناب سلمان عبد الصمد نے کہا کہ مترجم نے ترجمہ کو تخلیق کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مترجم نے کامیابی کے ساتھ موقع و محل کے اعتبار سے تشبیہات و اتسعارات کا استعمال کیا ہے۔ نوجوان فکشن نگار جناب سلمان عبد الصمد نے ناول میں پیش کردہ تہذیب و ثقافت اور دیہی زندگی پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے ناول میں موضوعات کے تنوع کی درجہ بندی کی اور ناول کے تعلق سے نیک خواہشات کا اظہار کیا- ان کے علاوہ آواز چیریٹبل ٹرسٹ کے صدر ڈاکٹر خان رضوان، جامعہ کے ریسرچ اسکالر توحید حقانی اور ناول کے مترجم وسیم احمد علیمی کے عزیز دوست جناب سیف اظہر نے بھی ناول اور ترجمہ پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا-
ڈائنامک کے ڈائریکٹر جناب رینڈل لانگ جو نسلا ایک انگریز ہیں مگر اردو سے کافی شغف رکھتے ہیں بھی اس محفل میں موجود تھے- انہوں نے انگریزی اور اردو دونوں نسخوں پر انگریزی میں اپنے تاثرات پیش کیے جس کو وسیم احمد علیمی نے فی البدیہہ اردو میں منتقل کر کے سامعین کے سامنے رکھا- جناب رینڈل لانگ نے کہا کہ ہر کہانی تخلیق کار کی نجی زندگی سے تعلق رکھتی ہے اور ہر قاری اس کو اپنی نجی زندگی کے حادثات و واقعات سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے- انہوں نے مزید کہا کہ کہانی شکم مادر میں پرورش پارہے جنین کی طرح ہوتی- جب وہ تخلیق کار کے شعور سے گزر کر صفحہ قرطاس پر اترتی ہے تو ایسے ہوتی ہے جیسے کوئی نوزائیدہ بچہ ماں کے شکم سے اس کائنات رنگ و بو میں آتا ہے- جناب لانگ کی اہلیہ محترمہ ہیڈی لانگ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا- ایک انگریز خاتون کی زبان سے رواں اردو سن کر سامعین حیرت زدہ ہو گئے- ناول کے مصنف ڈاکٹر انوارالحق اور مترجم وسیم احمد علیمی دونوں نے ترجمہ اور تخلیق کے درمیانی تفریق پر سامعین سے اپنے نجی تجربات ساجھا کیے-
نظامت کے فرائض شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ میگزین کے چیف ایڈیٹر جناب میر مرتضی رشید نے انجام دیے- تلاوت جناب فیض الرحمن نے کی اور محمد بلال نے نعت نبی سے محفل کو رونق بخشی-پروگرام کے دوران نئی نسل کے دو نمائندہ شاعر اہتمام صادق اور محمد ساجد نے اپنی اپنی غزلوں سے سامعین کو لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کیے-
پروگرام کا اختتام کتاب ‘شب انتظار گزری ہے’ کی رونمائی پر ہوا- اس محفل میں مختلف یونیورسٹی کے ریسچ اسکالرس اور طلبہ و طالبات کے علاوہ ڈاکٹر زاہد ندیم احسن، ڈاکٹر شاہنواز فیاض، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، عبد الرحمن، حنبل رضا، سفیر صدیقی، مشرف رضا، تسنیم سر اج الحق، حنا تبسم، سعدیہ بانو، اظہر رضا، جسیم رضا، حسان رضا، محمد اشتیاق، محمد مہتاب خان ،افضال ساحل، خطیب الرحمن اور کثیر اردو محبین نے اپنی شرکت اور شمولیت درج کرائی-