حالیہ اسمبلی انتخابات کے اشارے

اگر کانگریس ایس پی بی ایس پی اوردیگر تمام ریاستوں میں علاقائی سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتی ہے تو پھر بی جے پی مشکلات پیدا کرسکتی ہے ۔کانگریس اور بی جے پی کو پانچ ریاستوں کے نتائج سے اس خوش فہمی میں کم ازکم ہر گزمبتلانہیں ہونا چاہیئے کہ 2019 کا ہدف اب آسان ہوگیاہے اور بی جے پی سے مقابلہ مشکل نہیں رہ گیا ہے ۔

خبردرخبر (580)
شمس تبریز قاسمی
پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج تقریبا ایگزٹ پول کے مطابق آئے ہیں ۔2014 کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات کا یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی کو تین ایسی ریاستوں میں شکست کا سامناکرناپڑا ہے جہاں اس کی حکومت تھی ۔چھتیس گڑھ میں واضح اکثریت کے ساتھ کانگریس جیت حاصل کررہی ہے ۔راجستھان میں بھی کانگریس حکومت بنانے کیلئے مطلوب اعدادو شمار کو حاصل کرچکی ہے ۔مدھیہ پردیش میں کشمکش کی صورت حال تقریبا اب ختم ہوچکی ہے اور یہاں اب کانگریس کی حکومت بننا تقریبا طے ہے تاہم یہ ابھی رحجانات ہیں ایک فیصد یہ بھی امکان ہے کہ یہاں کا نتیجہ بعد میں کچھ بدل جائے ۔تلنگانہ میں چند شیکھر راﺅ اور اسد الداین اویسی کا جلو ہ برقرار رہا۔2014 کے مقابلے میں زیادہ سیٹوں پر ٹی آر ایس اور مجلس اتحاد المسلمین نے کامیابی حاصل کی ہے۔کانگریس کی کارکردگی بہت خراب رہی ۔میزروم میں کانگریس کے ہاتھوں سے اقتدار چھن گیاہے ۔ایم این ایف دوبارہ وہاں حکومت بنائے گی ۔
مدھیہ پردیش ۔راجستھان اور چھتیس گڑھ سب سے اہم ہے ۔یہ تینوں ہندی زبان بولی جانے والی ریاستیں ہیں ۔یوپی بہار کی طرح ان ریاستوں کا بھی مرکز کی سیاست پر خصوصی اثر ہوتاہے ۔2014 کے عام انتخابات میں یوپی بہار کی طرح ان ریاستوں میں بھی بی جے پی کو قابل ذکر کامیابی ملی تھی جس کے بعد واضح اکثریت حاصل ہوئی ۔ اس لئے ان ریاستوں میں بی جے پی کی شکست ملک کی اگلی سیاست کا منظرنامہ تبدیل کرسکتی ہے ۔ 2013 کے اسمبلی انتخابات میں انہیں تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی جیت ہوئی ۔اس کے بعد عام انتخابات میں کامیابی ملی اور یوں جیت کا سلسلہ مسلسل جاری رہاہے جو اب 2018 میں رک گیا ہے ۔
یہ نتائج بتارہے ہیں کہ مودی لہر اور بی جے پی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے ۔عوام میں کسی حدتک بی جے پی کے تئیں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔یہ بات مکمل طور پر واضح ہوہی گئی ہے کہ جن لوگوں نے ترقی ،روزگار اور فلاح وبہبود کی امید پر بی جے پی کووٹ کیاتھا انہوں نے اب بی جے پی سے رشتہ توڑ لیاہے ۔مذہب اور ذات پات کے نام پر ووٹ کرنے والوں کو سمجھانا آسان نہیں ہے ۔ان ریاستوں میں بھی مدھیہ پردیش سب سے زیادہ اہم ہے جہاں گذشتہ پندرہ سالوں سے بی جے پی بر سراقتدار تھی ۔یہ صوبہ آر ایس ایس کا سب سے بڑا مرکزہے ۔سب سے زیادہ شاخیں یہاں ہیں ۔بڑی تعداد میں بجرنگ اور سنگھ کارکنان کو یہاں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے ۔اس لئے یہاں شکست دینا آسان نہیںتھا ۔
کانگریس ،تمام کارکنان اور اہل گاندھی اس جیت کیلئے قابل مبارکباد ہیں۔ راہل گاندھی کیلئے یہ جیت اور زیادہ مسرت کا سبب بن گئی ہے کیوں کہ اسی تاریخ میں ایک سال قبل انہوں نے کانگریس صدر کا عہدہ سنبھالاتھا۔ لیکن انہیں اس جیت کے ساتھ اپنے رویہ میں مزید کچھ تبدیل لانی ہوگی ۔تکبر اور غرور کو ختم کرنا ہوگا ۔علاقائی پارٹیوںکیلئے گنجائش رکھنی ہوگی ۔ حیدرآباد میں راہل گاندھی نے اسد الد ین اویسی اور وزیر اعلی چندر شیکھر راﺅ کیلئے جو زبان استعمال کی تھی وہ کسی بھی طرح درست نہیں قرار دی جاسکتی ہے۔ جمہوریت میں اختلاف ضروری ہے لیکن اس کا ایک محدود دائر ہ ہے ۔
پانچ ریاستوں کے نتائج نے یہ بھی بتادیاہے کہ 2019 کاکسی کیلئے بھی آسان نہیں ہوگا ۔یوپی میں بی جے پی کی جیت کے بعد کہاگیاتھاکہ 2024 تک بی جے پی کی حکومت رہے گی لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے ۔مودی لہر تقریبا ختم ہوچکی ہے ۔کانگریس پر دوبارہ عوام نے اعتماد کیاہے اور آنے والا عام انتخاب بہت دلچسپ ہوگا ۔اگر کانگریس علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے میدان میں اترتی ہے تو بڑی کامیابی مل سکتی ہے ۔اگر کانگریس ایس پی بی ایس پی اوردیگر تمام ریاستوں میں علاقائی سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتی ہے تو پھر بی جے پی مشکلات پیدا کرسکتی ہے ۔کانگریس اور بی جے پی کو پانچ ریاستوں کے نتائج سے اس خوش فہمی میں کم ازکم ہر گزمبتلانہیں ہونا چاہیئے کہ 2019 کا ہدف اب آسان ہوگیاہے اور بی جے پی سے مقابلہ مشکل نہیں رہ گیا ہے ۔

ای وی ایم کا مسئلہ بھی زیر بحث ہے ۔ایک رجحان یہ ہے کہ اس مرتبہ بی جے پی نے ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ نہیں کیاہے تاکہ عوام کا اعتماد پختہ ہوجائے اور اس کے بعد 2019 کے عام الیکشن میں ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے جیت حاصل کی جائے ۔
(کالم نگارتجزیہ نگار اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )

SHARE