رافیل ڈیل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ !

خبردرخبر(581)
شمس تبریز قاسمی
جنوری 2017 میں سپریم کورٹ کے چارججوں نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں موجودہ چیف جسٹس رنجن گگوئی کے علاوہ جسٹس چیلمیشور ،جسٹس ایم بی لوکوراور جسٹس کورین جوزف شامل تھے ۔یہ پریس کانفرس براہ راست سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف تھی ۔ان کے طریقہ کار اور کام کاج کے اندازپر سوال اٹھاگیاتھا ۔معزز ججز نے اس پریس کانفرنس میں یہ بھی کہاتھاکہ ملک کی جمہوریت خطرے میں ہے ۔اس پریس کانفرنس کے بعد ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیاتھا ۔تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا جب انصاف کے علمبردار خود انصاف طلب کررہے تھے ۔سپریم کورٹ کے نظام کی شکایت کرکے اسے بچانے کی اپیل کررہے تھے ۔اس پریس کانفرنس کو تقریبا ایک سال کی مدت پوری ہونے والی ہے اس دوران پریس کانفرنس میں شامل جسٹس رنجن گگوئی چیف جسٹس بن چکے ہیں اور جسٹس چیلمیشور اپنے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں بقیہ دوججز اپنی ڈیوٹی نبھارہے ہیں ۔اس پریس کانفرنس کو اس قدر اہمیت ملنے کی بنیادی وجہ یہ بھی تھے کہ اس میں اس وقت کے نمبر کے دوجج چیلمیشور بھی شریک تھے جن کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد چیف جسٹس بننے کے حقدار رنجن گگوئی تھے لیکن ایسا لگ رہاتھاکہ مودی سرکار ایسا نہیں ہونے دے گی ۔اندراگاندھی کے عہدحکومت کی تاریخ دہرائی جائے گی جب سینئر جج کے رہتے ہوئے ایک جونیئر جج کو چیف جسٹس کے منصب پر فائزکردیاگیاتھا تاہم یہاں ایسا نہیں ہوا ۔رنج گگوئی چیف جسٹس بنائے گئے اور اب وہ اپنے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں ۔
ایک سال بعد اس پریس کانفرنس کا تذکرہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آج رافیل ڈیل معاملہ میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ سنایاہے جسے مشکوک کہاجارہاہے ۔سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے اسے سرے غلط بتادیاہے ۔ٹوئٹر پر ہزاروں لوگ سپریم کورٹ پر سوال اٹھارہے ہیں ۔دراصل رافیل ڈیل میں مودی سرکار پر کرپشن کا الزام ہے ۔پرشانت بھوشن ،یشونت سنہا،ارون شوری اور سنجے سنگھ نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی جس پر چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ سماعت کررہی تھی۔ بینچ نے آج سماعت کرتے ہوئے تمام عرضیاں خارج کردی ہے اور کہاہے کہ یہ داخلہ سیکوریٹی کا معاملہ ہے ۔ہم اس میں مداخلت نہیں کرسکتے ہیں ۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاکہ سی اے جی کی رپوٹ میں اس کامکمل تذکرہ ہے ۔دوسری طرف سی اے جی کی رپوٹ کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہے ۔مودی سرکار کئی مرتبہ رپوٹ کا انکار کرچکی ہے ۔یہ رپوٹ پارلیمنٹ اکاﺅنٹ کمیٹی میں پیش کی جاتی ہے لیکن وہاں بھی پیش نہیں ہوئی ہے ۔پی اے سی کے چیرمین ارجن کھڑگے ہیں جو صاف لفظوں میں اس کا انکار کررہے ہیں ۔اب سوال یہی ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ کیسے اور کس بنیاد پر فیصلہ میں لکھ دیاکہ سی اے جی کی رپوٹ میں ان سوالوں کا جواب دے دیاگیاہے ۔کیا حکومت نے سپریم کورٹ کو گمراہ کیاہے یا پھر معاملہ کچھ اور ہے ؟
رافیل ڈیل معاملہ سنگین ہے ۔یہ معاہدہ کانگریس کے دورحکومت میں ہواتھا جس میں ہندوستان نے فرانس سے 126 جنگی طیارہ خریدنے کا فیصلہ کیاتھا ۔ایک طیارہ کی قیمت526 کروڑ روپے طے ہوئی تھی ۔ جہاز بنانے کا ٹھیکہ سرکاری کمپنی ایچ اے ایل کو دیاگیاتھا ۔مودی سرکار میں یہ معاہدہ بدل گیا۔ ہندوستان نے صرف 36 جہاز خریدنے کامعاہدہ کیا ۔ ایک طیارہ کی قیمت 1570 کروڑ روپے طے کی گئی اور ایچ اے ایل کے بجائے یہ ٹھیکہ ریلائنس کی کمپنی کو دیاگیا جس کا رجسٹریشن 2015 میں ہواہے ۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بی جے پی اسے اپنی جیت بتارہی ہے ۔ راہل گاندھی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایاجارہاہے دوسری طرف راہل گاندھی اس بات پر قائم ہیں کہ مودی چور ہیں ،ہم انہیں چور ثابت کرکے رہیں گے ان کا مطالبہ ہے کہ وہ جے پی سی (مشترکہ جانچ کمیٹی) تشکیل دیں سارا سچ سامنے آجائے گا ۔
ہندوستان کی تاریخ کاایک واضح سچ یہ بھی ہے کہ رشوت اور کرپشن کا جو بھی معاملہ عدلیہ میں گیاہے وہ ثابت نہیں ہوپایاہے ۔لا لو پرساد یادو واحد لیڈر ہیں جو اس کیس میں سزا کاٹ رہے ہیں حالاں کہ سی بی آئی تنازع کے بعد اس کی بھی حقیقت بے نقاب ہوگئی ہے کہ ان کی سزا میں پی ایم او کا ہاتھ ہے کرپشن کا الزام ایک بہانہ ہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com

SHARE