سنجلی کی قوم بیدار ہے ۔ اس کے افراد کو سنجلی کے ساتھ ہوئی بربریت کا شدید احساس ہے ۔وہ قوم انصاف حاصل کرنے اورحکومت سے ٹکرانے کا جذبہ رکھتی ہے ۔جبکہ زین الانصاری کی قوم کو اس بہیمانہ قتل کا کوئی افسوس نہیں ہوا
خبر در خبر (585)
شمس تبریز قاسمی
”اس قوم کا ضمیر زندہ ہے ۔یہ قوم مردہ ضمیر ہوچکی ہے “ اس جیسے الفاظ ہم اکثر سنتے ہیں لیکن اس کی تطبیق مشکل ہوجاتی ہے کہ آخر کیسے اور کس بنیاد پر زندہ ضمیر اور مردہ ضمیر قوم ہونے کا فیصلہ کیا جائے ۔ اس کی کیا علامات ہیں ۔کیاشناخت ہے۔ زیر نظر تحریر میں ہم ایک جیسا دو واقعہ تحریر کررہے ہیں جس کا بعد یہ انداز ہ لگانے میں آسانی ہوگی کہ زندہ اور مردہ ضمیر قوم کی شناخت کیاہوتی ہے ،کن علامتوں اوراسباب کی بنیاد اس طرح کا جملہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی جان لیجئے کہ ان دونوں واقعہ کا تعلق ہندوستان سے ہے تاہم ایک معاملہ دلتوں کا ہے اور دوسرا مسلمانوں کاہے ۔
اسی ماہ دسمبر کی 19 تاریخ میں آگرہ کی 15 سالہ دلت لڑکی سنجلی چنکیا کو دو نامعلوم بائک سوار شخص نے پٹرول ڈال کر زندہ جلا دیا ۔سنجلی اسکول سے لوٹ رہی تھی ۔جب تک لوگوں کو خبر ہوئی تقریبا 75 فیصد حصہ جل چکا تھا ۔اسے فورا دہلی کے صفد ر جنگ ہسپتال میں لایاگیا لیکن جان نہیں بچ سکی اور موت ہوگئی ۔اس واقعہ کے مجرموں کی اب تک گرفتار نہیں ہوسکی ہے لیکن پورے ملک میں اس کے خلاف احتجاج شروع ہوگیاہے ۔سبھی مذہب اور دھرم کے لوگ اس میں حصہ لے رہے ہیں ۔میڈیا کی شہ سرخیوں میں یہ خبر ہے ۔ٹی وی چیلنز سے لیکر پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا میں یہ خبر چھائی ہوئی ہے ۔اردو اخبارات میں بھی یہ خبر ہیڈ لائن بن رہی ہے ۔طلبہ اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے علاوہ خود دلتوں نے بھی ملک گیر پیمانے پر باضابطہ احتجاج کا اعلان کیا ہے ۔
دوسری طرف یہ واقعہ دیکھیئے اسی سال اکتوبر میں سیتامڑھی کے 80 سالہ زین الانصاری کوایک بھیڑ نے پہلے ذبح کیا ،بے دردی سے مارا او راس کے بعد پھر آگ لگاکر جلادیا ،انتظامیہ نے اہل خانہ کی مرضی کے مطابق گاﺅں کے قبرستان میں تدفین تک نہیں کرنے دی اور ہر ممکن اس واقعہ کو چھپانے کی کوشش کی گئی ۔جب ملت ٹائمز کے ذریعہ اس واقعہ کی حقیقت سامنے آئی تو اس وقت بھی قوم کے کئی رہنماﺅں نے اس پرپردہ ڈالنے کی کوشش کی ۔پٹنہ سے دہلی تک ملت کی ترجمانی کا دعوی کرنے والے اردو اخبارات نے اس خبر کو کوئی جگہ نہیں دی ۔پٹنہ کرائم برانچ نے اس خبر کو شائع کرنے کی وجہ سے ملت ٹائمز کے خلاف نوٹس جاری کرکے سخت دھمکی دی اور آئی پی سی کی دفعہ 91 کے تحت نیوز حذف کرنے کا مطالبہ کیا بصورت دیگر کاروائی کی بات کی ۔اس پورے میں معاملہ میں جب ہم نے کچھ اردو کے اخبارت اور نیوز ایجنسیوں کے ایڈیٹر س سے بات کی تو انہوںنے کچھ توجہ دیئے بغیر ہمیں اس طرح کے معاملوں میں نہ پڑنے کا مشورہ دیا اور کہاکہ ملت کے بارے میں زیادہ ٹینشن نہ لو کوئی ساتھ نہیں دے گا ۔سوشل میڈیاکے ایک صحافی نے تو ایک ایم ایل سی صاحب سے ڈیل ہوجانے کے بعد پورے معاملہ پر ہی پردہ ڈالنے کی کوشش کی ،ماب لنچنگ اور بہیمانہ قتل کے سنگین واقعہ کے بارے میں کہاکہ سیتامڑھی فساد کے بارے میں لوگ افواہ اڑارہے ہیں ،صرف ایک کی موت ہوئی ہے ۔حالات کنٹرول میں ہیں ۔ ملت ٹائمز پر کچھ لوگوں نے فرضی خبر شائع کرنے کا بھی الزام عائد کیا بعد میں ڈیجیٹل میڈیا کی معروف ویب سائٹ دی کوئنٹ ،دی وائر ،سینٹر ل نیوز وغیرہ نے اس مہم میں ملت ٹائمز کابھر پور ساتھ دیا ۔21 دنوں کے بعد روزنامہ انڈین ایکسپریس اور بی بی سی وغیرہ نے بھی اس خبر کو اپنے یہاں شائع کرکے ملت ٹائمز کی رپوٹ پر صداقت کی مہر لگائی کہ واقعی سیتامڑھی میں 80 سالہ زین الانصاری کی لنچنگ ہوئی تھی ۔ معروف صحافی رویش کمار نے بھی اپنے شو پرائم ٹائم میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا ۔
زین الانصاری کی روح کو اب تک انصاف نہیں مل سکاہے ۔ماب لنچنگ اور بہیمانہ قتل میں ملوث کسی بھی ایک قاتل کو گرفتار تک نہیں کیاگیاہے ۔حکومت میں شامل کچھ مسلم نمائندے اس واقعہ کو چھپانے کیلئے دن ورات سفید جھوٹ بول رہے ہیں ۔سیتامڑھی میں اقلیتی امور کے وزیر خورشید عالم کے سامنے وہاں کے نوجوانوں نے اس واقعہ پر غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے کالا جھنڈا دکھلایاتو ان کے خلاف مقدمہ درج کردیاگیا ۔اس پورے واقعہ میں اب تک صرف ایک احتجاج پٹنہ میں کیاگیاہے جس کا سہر ا مجموعی طور پربہار کی ایک علاقائی تنظیم مسلم بیداری کارواں کے صدر محمد نظر عالم اور ان کے دوستوں کو جاتاہے جن میں قاری سلطان اختر ،سعد عالم قاسمی وغیرہ سر فہرست ہیں ،اس معاملہ کو منظر عام پرلانے میں سیتامڑھی سے تعلق رکھنے والے معروف سماجی کارکن محمد تنویر عالم، کانگریس یوتھ کے لیڈر شمس شہنواز وغیرہ نے شروع سے اخیر تک قابل ذکر کردار اداکیا اور بھی کئی لوگ ہیں جنہوں نے اس واقعہ کی حقیقت بے نقاب کرنے اور مجرموں کی سزا دلانے کی کوشش کی ۔زین الانصاری کی ماب لنچنگ کے علاوہ مورلیا چک گاﺅں میں آباد کئی مسلم فیملی وہاں سے مستقل طور پر ہجرت کرچکی ہے ۔
پہلے واقعہ کا تعلق دلتوں سے ہے جس پر پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہے ۔الیکٹرانک میڈیاسے لیکر ہر پلیٹ فارم پر یہ خبر نشر کی جارہی ہے ۔جگہ جگہ احتجاج ہورہے ہیں ۔دوسرا واقعہ بھی اسی طرح کاسنگین ہے جس کا تعلق ایک مسلمان سے ہے جس کیلئے پٹنہ میں 29 نومبر کو ہوئے ایک احتجاج کے علاوہ کہیں کچھ نہیں ہوا ۔ملک کی موقر تنظیموں کی اعلی قیادت نے اس واقعہ پر پریس ریلیز جاری کرکے بھی کوئی مذمت نہیں کی۔امارت شرعیہ نے سادہ کاغذ پر اپنی رپوٹ جاری کی لیکن حکومت سے اس واقعہ کے مجرموں کو سزا دینے کی کوئی اپیل نہیں کی۔ بہار کی ایک اور اہم تنظیم ادارہ شرعیہ کے صدر مولانا غلام رسول بلیاوی نے تو ڈنکے کی چوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے کہاکہ ستیامڑھی میں ماب لچنگ کا کوئی واقعہ ہی پیش نہیں آیاہے اور اسے سچ ثابت کرنے پر انہوں نے سیاست سے استعفی دے دینے کا بھی چیلنج کردیا ۔اردو اخبارات نے تو اس خبر کواب تک کوئی جگہ ہی نہیں دی ہے ۔
خبر در خبر کے اس کالم میں مذکورہ دونوں واقعہ کو سپرد قرطاس کرنے کا مقصد ہر گز یہ موازنہ کرنا نہیں ہے کہ اس میں کوئی زیادہ سنگین ہے اور کوئی کم ہے بلکہ صرف یہ بتاناہے کہ سنجلی کی قوم بیدار ہے ۔ اس کے افراد کو سنجلی کے ساتھ ہوئی بربریت کا شدید احساس ہے ۔وہ قوم انصاف حاصل کرنے اورحکومت سے ٹکرانے کا جذبہ رکھتی ہے ۔جبکہ زین الانصاری کی قوم کو اس بہیمانہ قتل کا کوئی افسوس نہیں ہوا ۔ حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے قوم کے کچھ رہنماﺅں نے اس واقعہ کو جھٹلادیاتو کچھ نے خاموشی اختیار کرلی ۔قوم کے کچھ نوجوانوں نے زین الانصاری کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کی جدوجہد کی تو نام نہاد قائدین نے انہیں خوف زدہ کرکے خاموش رہنے کی تلقین کی ۔کچھ پر کیس کردیاگیا اور یوں ہماری قوم نے ہی ہماری قوم کے ایک مظلوم کو انصاف ملنے سے محروم کردیا ۔
کس قوم کا ضمیر زندہ ہے اور کس قوم کا ضمیر مردہ ہوگیاہے ۔یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔
(کالم نگارتجزیہ نگار اور ملت ٹائمز کے بانی ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com