مولانا اجمل کی سبقت لسانی ۔ردعمل اوربے بنیاد الزاما ت کا تسلسل

خبر درخبر (586)
شمس تبریز قاسمی
مولانا بدرالدین اجمل نے کل پارلیمنٹ میں جو کہاکہ اس کیلئے انہوں نے بغیر کسی چوں چراکے صاف لفظوں میں معافی طلب کرلی ہے ۔اس انتشار کو ختم کرنے کیلئے انہوں نے تمام ممکنہ طریقوں کو اپنایاہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ریکارڈ سے انہوں نے اسے تقریر کے متنازع حصہ کو ختم کرانے کی اول مرحلہ میں کوشش کی ہے اور وہ حصہ حذف ہوجائے گا ۔پارلیمنٹ کا ضابطہ ہے کہ وہاں ہونے والی بحث اور تقریر تحریری شکل میں اگلے روز ہی ممبران پارلمینٹ کے ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے جس پر لکھاہوتاہے کہ یہ آپ کی تقریر ہے ،اگر آپ اس میں کچھ حذف کرنا چاہتے ہیں تو اسے نشان زد کرکے وقت مقررہ تک بھیج دیں ۔آج شام دہلی میں مولاناکی رہائش گاہ پر کئی صحافیوں نے ان سے ملاقات کرکے معاملہ کی سچائی جاننے کی کوشش ۔راقم الحروف بھی موجود تھا ۔نیوز 18 اردو اور ملت ٹائمز کو انہوں نے انٹرویو بھی دیا ۔ صحافیو ں نے ان سے متعدد سوال کیا اور سبھی کاانہوں نے جواب دیا۔ صاف لفظوں میں کہاکہ جو کچھ ہوا اس کیلئے بغیر کسی تاویل کے ہم معذرت خواہ او رمعافی کے طلب گار ہیں ۔اس موقع پر مولانا نے پارلیمنٹ سے آئی تقریر کی کاپی بھی دیکھائی اور کہاکہ یہ کل کی بحث کاپی ہے جس کے متنازع پیرا گراف کو نشان زد کردیاگیاہے ۔اسپیکر کے نام ہم نے خط بھی لکھ دیا ہے اور ان کی طرف سے یقین دہانی بھی ہوگئی ہے کہ وہ حصہ پارلیمنٹ کے ریکاڈ سے حذف کردیاجائے گا ۔
مولانا بدرالدین اجمل کی پوری سیاسی زندگی کا یہ پہلا موقع ہے جب ان کا کوئی عمل متنازع بناہے اور اس کیلئے انہوں نے فوری طور پر اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے ۔اس سے اس بات کی واضح طور پر عکاسی ہوتی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہااس میں ان کی نیت او رمنشاءشامل نہیں تھی ۔سامنے والے پر کاﺅنٹر اٹیک کرنے کیلئے انہوں نے غلط تعبیر اختیار کرلی ۔اگر ان کی منشاءشامل رہتی تو اپنی بات پر اٹل رہتے اور کہتے کہ ہمارے پاس دلیل اور ثبوت ہے جیساکہ دوسرے کئی مسلک کے علماءکی ویڈیو اس وقت وائرل ہورہی جس میں پورے دعوی اور ٹھوس دلیل کی بنیاد پراپنے مخالف مسلک پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام عائدکیا جارہاہے ۔بہر حال اس پورے قضیے میں سلفی حضرات اور اہل حدیث مسلک سے وابستہ افراد کا ردعمل فطری اور ضروری ہے جس پر کوئی کلام نہیں کیا جاسکتاہے اور نہ ہی انہیں روکا جاسکتاہے ۔خواہ اس کیلئے وہ گالی اور غلیظ زبان استعمال کریں یاشائستہ طرز اختیار کریں یا ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔اہل حدیث کے ذی فہم طبقہ نے مولانا کی جانب سے معذرت آجانے کے بعد مثبت رویہ اپنایاہے اور انہوں نے اس قضیہ کو ختم کرنے گزارش کی ہے تاکہ معاملہ مزید طول نہ پکڑے اور ہندوستان میں مسلکی ہم آہنگی برقرار رہے ۔
مولانا بدرالدین اجمل ایک عالم دین اور تاجر ہونے کے ساتھ سیاست داں بھی ہیں ۔آسام میں ان کی پارٹی یو ڈی ایف کی حیثیت کبھی نمبر دو اور کبھی نمبر تین کی رہتی ہے ۔فی الوقت آسام میں ان کی حیثیت کانگریس کے مساوی ہے ۔ہندوستانی سیاست کی یہ تلخ سچائی ہے کہ ایسے لوگوں سے جب بھی کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو ان کے سیاسی حریف اور معاصرین اس کی آڑ میں انتقام لینا شروع کردیتے ہیں ۔حالیہ معاملے میں بھی یہی ہواہے ۔ اہل حدیث مسلک کے افراد کے علاوہ کئی سیاسی ،سماجی اور نام نہاد صحافیوں نے مولانا بدرالدین اجمل پر سنگین الزام تراشنا شروع کردیا ہے جیسے وہ بی جے پی کے ایجنٹ ہیں ۔خفیہ ایجنسیوں کیلئے کام کرتے ہیں ۔آسام میں بی جے پی کی حکومت کیلئے مولانا اجمل ذمہ دار ہیں ۔مولانا نے گذشتہ مرتبہ این ڈے ای میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی ۔مولانا بی جے پی کی بی ٹیم ہیں ۔ایسے الزامات مسلم قیادت والی پارٹیوں پر لگتے رہتے ہیں ۔جب ان پارٹیوں اور ان کے سربراہان کی جانب سے کوئی بہتر کام ہوتاہے تو مبارکباد دی جاتی ہے ،جیسے ہی ذرہ برابر کوئی کمی نظر آتی ہے انہیں بی جے پی کا ایجنٹ قراردے دیاجاتاہے ۔اس معاملہ کو سمجھنے کیلئے مجلس اتحاد المسلمین اور اس کے سربراہ اسدالدین اویسی سب سے اہم اور واضح مثال ہیں ۔جب وہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی آواز بلند کرتے ہیں تو 30 کڑور ہندوستانی مسلمانوں کے ہیر و بن جاتے ہیں ۔الیکشن کے زمانے میں جب ووٹ مانگنے جاتے ہیں تو یہی لوگ انہیں بی جے پی کی بی ٹیم او رایجنٹ کہتے ہیں ۔ آج کل وہ ایک مرتبہ وہ پھر ہیروبنے ہوئے ہیں لیکن 2019 میں یہی لوگ انہیں بی جے پی کا ایجنٹ کہکر مسترد کریں گے!
مولانا اجمل نے جانے انجانے میں جو کہاہے اس سے ہر گزاتفاق نہیں کیا جاسکتاہے لیکن اس کی آڑ میں جس طرح کچھ لوگوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی شروع کردی ہے وہ افسوسناک نہیں بلکہ اس امت کے مجموعی رویہ کی بھر پور ترجمانی کررہاہے ۔قابل تعجب امر یہ ہے کہ یہ سب وہ لوگ لکھ رہے ہیں جن پر خود بی جے پی ،کانگریس اور آر ایس ایس کیلئے کام کرنے کا الزام لگتارہتاہے ۔ان میں کچھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جن پر متعدد خفیہ ایجنسیوں،موساد ،اسرائیل وغیرہ کیلئے کام کرنے کا الزام ہے اور کہاجاتاہے کہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری میں ان لوگوں کا نمایاں کردار ہوتاہے۔اختلاف آپ کا بنیادی حق ہے ۔غلط کو غلط کہنا ضروری ہے ۔امت کے انتشار کو ختم کرنے والی کوئی بھی کوشش قابل ستائش نہیں ہوسکتی ہے لیکن اس کی آڑ میں دل کی بھڑاس نکالنے کی یہ روایت ختم ہونی چاہیئے ۔ اگر یہی سلسلہ رہاتو پھر اس کی زد میں سبھی آجائیں گے ۔تمام قائدین ایک ہی حمام میں ننگے نظر آئیں گے ۔مسلم قیادت والی سبھی پارٹیاں بی جے پی کی بی ٹیم کہلائیں گی ۔ مسلم تنظیموں پر حکومت وقت کا آلہ کار ہونے کا الزام لگتارہے گا ۔آسام میں اگر یوڈی ایف پر بی جے پی کی بی ٹیم ہونے کا الزام ہے تو مت بھولیئے کہ یہی الزام یوپی میں پیس پارٹی پر ہے ۔تلنگانہ ،کرناٹک اور بہار میں ایم آئی ایم پر ہے ۔کرناٹک ،راجستھان اور تمل ناڈو وغیرہ میں ایس ڈی پی آئی پر ہے ۔
مولانا بدرالدین اجمل نے 2016 کے آسام اسمبلی انتخابات میں کانگریس سے اتحاد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن کانگریس نے کوئی توجہ نہیں دی ۔آخر کا روہاں بی جے پی کی سرکار بنی ۔کانگریس کی ریاستی قیادت نے اپنی شکست پر غمزدہ ہونے کے بجائے یو ڈی ایف کی شکست پر خوشی کا اظہار کیا ۔ 2019 میں مولانا اجمل ایک مرتبہ پھرآسام میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔خدانخواستہ اگر کانگریس کی ریاستی قیادت اس کیلئے تیار نہیں ہوتی ہے تو کیایوڈی ایف کو سیاست سے دستبردار ہوجا چاہیئے جبکہ آسام کی 14 لوک سبھا سیٹ میں سے تین ایم پی کانگریس کے اور تین یو ڈی ایف کے ہیں ۔یعنی دونوں کی حیثیت برابر ہے ۔کانگریس کی یہ پرانی روش ہے کہ اس نے مسلمانوں کا ہمیشہ استعمال کیاہے ،بی جے پی کا خوف دلاکر ووٹ لیاہے ،مسلمانوں کو ایم پی ،منسٹر اور صدرجمہوریہ تک بنایاہے لیکن کبھی بھی مسلم لیڈر شپ کو پنپنے نہیں دیاہے ۔جب بھی ایسی کوشش ہوئی ہے تو مسلمانوں کے ذریعہ ہی اس کی مخالفت کراکر ناکام بنایاہے ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر اور تجزیہ نگار ہیں )
stqasmi@gmail.com

SHARE