انگریزی اور دوسری زبان کے لفظوں کو اردو میں کیسے لکھا جائے؟

اردو املا کے مختلف مسائل میں دوسری زبانوں کے لفظوں کو لکھنے کے طریقۂ کار کے سلسلے سے مباحث تنازعہ کا درجہ اختیار کرچکے ہیں؛ اس پر نئے سرے سے غور و فکر لازم ہے۔

 صفدر امام قادری

 اردو املا کی معیار بندی میں اِن دنوں سب سے متنازعہ مسئلہ یہ اَمر ہے کہ دوسری زبانوں کے لفظوں کو کس اندا ز سے اردو میں شامل کیا جائے؟ پُرانی مثالیں ”لین ٹرن‘ کو لالٹین بنا لینے یا کار ‘car’ کو اُسی طرح کار ہی لکھنے کی ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب اردو میں انگریزی یا دیگر یوروپی زبانوں کے الفاظ کا تناسب ایک فی صد تسلیم کیا جاتا تھا مگر آج نئے تعلیمی اور ترقیاتی اہداف نے ہماری زبان میں ایسے الفاظ کا تناسب ۵۲ فی صد تک پہنچا دیا ہے۔ پہلے عربی اور فارسی پڑھے لکھے افراد ہماری زبان کے استعمال کرنے والے ہوتے تھے مگر آج عالم کاری کے دور میں اردو بولنے اور لکھنے پڑھنے والوں کی سب سے بڑی تعداد انگریزی اور دوسری زبانوں کے واقف کاروں کی ہے۔ اس کے برعکس یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ اردو خواں آبادی میں عربی اور فارسی سے نابلد نئی نسل سب سے بڑے نئے مسئلے کے طور پر دیکھی جارہی ہے اور کلاسیکیت سے جدّت کی طرف کا سفر جاری و ساری ہے۔ اسی لیے ہماری زبان میں گفتگو اور تحریر کی سطح پر انگریزی اور یوروپی زبان کے الفاظ و محاورات اتنی بڑی تعداد میں شامل ہوگئے ہیں جنھیں لکھنے کے طریقوں میں معیار بندی کی ضرورت اب دوسرے مسائل سے پہلے اور سرِ فہرست ہونی چاہیے۔

 انجمن ترقیِ اردو یا عبدالستار صدیقی کی اس سلسلے سے بہت واضح ہدایات تھیں: پڑھنے کی سہولت کے لیے syllables کو الگ الگ لکھنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ”اردو املا“ میں رشید حسن خاں نے اس سفارش کو قبول کیا تھا مگر عربی فارسی لفظوں کے مباحث میں جس قدر توجہ انھوں نے دی تھی اور مثالوں سے معاملات کو حل کرنے میں کامیابی پائی تھی، اس کے مقابلے میں انگریزی لفظوں کا حصہ اتنا مختصر ہے کہ ہمیں حیرت ہوتی ہے۔ خاں صاحب کی ان مسئلوں پر گہری نظر تھی مگر ان کا دائرۂ علم کلاسیکی تھا اور ان کے لیے شاید یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ انگریزی الفاظ کے املا کے سلسلے سے تفصیل سے بحث کرسکیں اور آنے والے وقت کے مسائل کو اپنی بحث میں شامل کرکے ہماری املائی رہنمائی کرسکیں۔

 مثال کے طور پر مشہور تین لفظوں کو لیجیے جو سامنے کے ہیں اور روزانہ کے استعمال میں ہماری تعلیمی اور سماجی زندگی کا اس طرح حصّہ ہیں کہ ہم ان کے بغیر جی نہیں سکتے: Academy, Restaurant اور Seminar۔ اکادمی، اکاڈمی، اکیڈمی، اکیڈیمی، اکیدیمی، اکیدمی، اکادیمی ۔ بہار اردو اکادمی، یو ۔پی ۔اردو اکادمی، ہندستانی اکادمی، مدھیہ پردیش، اندھرا پردیش اور مہاراشٹر اردو اکادمی کی مطبوعات سے لے کر اُن کے سائن بورڈ کو ملاحظہ کر لیجیے کہ یہ انگریزی لفظ آخر کتنے رنگوں اور لہجوں میں مستعمل ہے۔ ساہتیہ اکادمی کے انگریزی اور ہندی میں لکھنے ناموں کو دیکھ لیجیے تو ان مسئلوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ کون درست لکھ رہا ہے اور کون نادرست، اس کی بحث الگ ہے مگر اتنا تو ہمیں مان لینا ہی چاہیے کہ اس لفظ کے اردو املا میں داخلی مسائل ہیں ورنہ ان اداروں کے ماہرین تو اچھے خاصے عالم فاضل لوگ تھے۔ یہاں سہوِ کاتب کا معاملہ نہیں بلکہ رواجِ تحریر میں علما کے درمیان اختلاف کا موجود ہونا سچائی ہے۔ اسی طرح فرانسیسی لفظ اب سماجی سطح پر اتنا عمومی ہوگیا ہے کہ اس کے بھی املا کے رنگ روپ جدا جدا نظر آتے ہیں —— رستراں، رستوراں، رسٹورنٹ، رسٹارنٹ، ریستراں، ریستوراں، ریسٹورنٹ، ریسٹورینٹ۔ رسائل و جرائد ، اخبارات و کتب کو ملاحظہ کرلیجیے۔ ہر رنگ میں بہار کا اِثبات نظر آجائے گا۔ روز روز کی علمی سرگرمیوں میں ایک لفظ اتنا رائج ہوچکا ہے کہ مدارس میں بھی وہی لفظ ملے گا اور یونی ورسٹیوں کی بھی اجارہ داری تو ہے ہی۔ شکلیں اس طرح سے ہیں: سیمنار، سیمی نار، سمنار، سے می نار، سیمینار، سمینار، سمی نار وغیرہ وغیرہ۔ دعوت ناموں اور اشتہارات میں ہم یہ رنگارنگی دیکھتے رہتے ہیں۔ کام ہر جگہ ایک ہی ہوتا ہے مگر لکھنے کے رواج میں عجیب و غریب خلفشار ہے۔ یہ تین لفظوں کا معاملہ نہیں، ایسے ایک ہزار لفظ تو فوری طور منتخب کیے جاسکتے ہیں جنھیں لکھتے ہوئے اردو کے علما اور ماہرینِ زبان تذبذب میں مبتلا ہوتے ہیں اور عام پڑھنے والے ترددات میں پھنستے نظر آتے ہیں۔ کیا انھیں اردو کے موجودہ انداز پر چھوڑ دیں اور طلبہ کو پریشان و ہراسان ہونے دیں یا ان کے بارے میںکوئی غور و فکر کا رجحان پیدا کیا جائے؟ لازمی بات یہ ہے کہ معیار بندی کا تقاضا ہے کہ سر جوڑ کر بیٹھا جائے اور ممکنہ حد تک انتشار اور خلفشار سے محظوظ ہوا جائے۔

 خدا بخش لائبریری کے خطوط حصّے میں ظ۔ انصاری کا ماسکو سے لکھا ہوا ایک خط بہ نام محمد حسن نظر آیا جس میں ظ۔ انصاری نے دعوت نامے کی انگریزی کو اردو میں اس انداز سے لکھا تھا: اِن وی ٹے شن۔ مجھے پہلی نظر میں یہ املا اجنبی معلوم ہوا۔ فوراً رشید حسن خاں کی ”اردو املا“ کی یاد آئی ۔ اصول یاد آیا کہ ہر صوتیے کو علاحدہ طور پر لکھا جائے۔ اس لفظ کے لیے ذہن پہلے سے تیار نہیں تھا مگر غور کیا تو جی خوش ہوگیا کہ املا کمیٹی کی سفارشات کا صد فی صد احاطہ کیا گیا تھا۔ پھر ظ۔ انصاری کی کتاب ’چے خف‘ کا مقدمہ یاد آگیا جہاں انھوںنے روس کے اس معروف مصنّف کے نام کے املا میں انتشار کو بتاتے ہوئے کہا تھا کہ آپ چے خف لکھیں یا چیخوف لکھیں، آپ کو چہ خوف؟ انگریزی املا تو Chekov ہے مگر یہ ’وی‘ روسیوں کے اندازِ تکلّم میں ’ف‘ ہوگیا اور ب B کی آواز ٹھیک پراکرتوں کی طرح ‘V’ کے مساوی ہوگئیں۔ ’ج‘ اور ’ی‘ کی آوازوں کی ادلا بدلی میں بھی ایک زبان سے دوسری زبان تک نیا کھیل تماشا شروع ہوجاتا ہے۔ 

 اس لیے ہمارے لیے یہ بات لازم ہوجاتی ہے کہ جب جس وقت اور جو جی میں آئے، اس انداز سے لکھنے کو رواج دینے کے بجاے اصولوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کوشاں ہونا زیادہ مناسب ہے۔ اس لیے ہر صوتیے کو علاحدہ انداز سے لکھنا زیادہ موزوں ہے اور اس میں بہت حد تک ہم اصل لفظ کے قریب بھی رہ سکتے ہیں۔ اس لیے ’سے می نار‘ لکھنے میں ہمیں یہ آسانی ہوگی کہ وہ لفظ اُسی انداز سے پڑھا بھی جاسکتا ہے۔ ’ان وی ٹے شن‘ لکھیں تو کوئی دوسرا طریقہ شاید ہی نظر آئے کہ پڑھنے میں یہ لفظ بدل جائے یا غلط ہوجائے۔ یہ اصول نئے سے نئے الفاظ میں بھی ہمیں کہیں بے نام جزیروں تک نہیں لے جائیں گے۔ املا کے مسائل ہمارے ہر لفظ کی تحریر کے مرحلے میں سامنے آتے رہتے ہیں، اس لیے ہمیں پہلے اصولوں پر غور کرنا چاہیے مگر اس کے بعد اطلاق میں کوششیں کرنی چاہیے کہ پورے طور پر عمل کریں۔ یہ نہ ہو کہ ایک لفظ میں رواج یا عادت کو دخل رہے اور دوسرے لفظ میں نئی معیار بندی کو۔ اس دورنگی سے بچنا چاہیے۔ 

 انگریزی میں ’ٹ‘ اور ’ت‘ دونوں ہے۔ ’د‘ اور ’ڈ‘ بھی موجود ہے۔ بعض یوروپی زبانوں سے ’ٹ‘ اور ’ڈ‘ غائب ہیں۔ عربی میں ہاے مجہول کا تصوّر نہیں۔ فارسی میں ہائیہ آوازوں کو اردو کے مرکب حروف کی طرح لکھتے ہیں۔ ’بہار‘ بہت آسانی سے ’بھار‘ ہوجاتا ہے جس کا تعلق ’وزن‘ اور ’وزنی‘ کے معنوں سے ہرگز نہیں۔ ایسے مسئلوں میں چوکنّا نہ رہیں گے تو پریشانیاں پیدا ہوںگی۔ عربی کتابوں میں علی گڑھ اور پٹنہ کے املا کو دیکھیں تو آنکھیں روشن ہوجائیں گی۔ شارجہ تو کرکٹ کے لیے مشہور ہے مگر اصل عربی املا تو ’الشارقہ‘ ہے مگر انگریزی املا Sharja اور اردو میں شارجہ ہی موجود ۔ مصر کے عربی داں تو ’ج‘ کے لیے ’گ‘ کی آواز تک پہنچ گئے ہیں۔ میں نے مصری ڈرائیور کو مکّہ معظمہ میں ’گدّہ گدّہ“ کی آواز لگاتے سُنا۔ وہ جدّہ ادا کررہا تھا جب کہ اس کی زبان میں ’گ‘ کا حرف بھی موجود نہیں۔ اس لیے اکادمی اور اکاڈمی کے معاملے میں تو یورپ کی ایک زبان سے دوسری زبان میں خود فرق آئے گا۔ اٹلی میں مصوتے کے اضافی طور پر استعمال کرنے کا انداز تو ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ ایسے میں سے می نار میں کہاں زیر کی آواز ہے اور کہاں ’ی‘ کی؛ اس بحث میں الجھنے میں جان کا ہلکان زیادہ ہوگا اور املا یا زبان کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔

 اب املا کے لیے جو بھی طریقۂ کار آزمایا جائے، وہاں اپنی زبان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر دوسری زبانوں کے املائی مسائل کو بھی سامنے رکھتے ہوئے نتائج اخذ کیے جائیں تو ہم زیادہ سائنسی، جمہوری اور علمی نقطۂ نظر کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اسی سمت اس مضمون میں ایک پہلو سے غور کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور مسائل کی پیچیدگی کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے ہر صوتیے کو علاحدہ طور پر لکھنے کے بارے میں توجیہہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

[کالم نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں صدر شعبۂ اردوہیں]

safdarimamquadri@gmail.com