طب یونانی سے حکومت کی بے رخی ،قصور اپنا بھی ہے!

Mosin Dehlawiمحسن دہلوی
یونانی طب کی تاریخ بہت طویل ہے۔ اس طب کا آغاز تقریبا 500 سال قبل مسیح میں یونان کی سر زمین پرہوا۔ اس کے بعد اس طب نے مصر، ایران، عرب اور یورپ تک رسائی کی اور تیرہویں صدی عیسوی میں یہ فن ہندوستان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور تاحال برصغیر میں یہ طریقہ علاج رائج اور عوام میں مقبول ہے۔ اس ڈھائی ہزارسال کے عرصہ میں اس فن کے بے شمار ماہرین ہوئے، جن کے علمی و عملی کارناموں نے فن طب کو فروغ دیا اور اس کی بقا کا باعث بنے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یونانی طب کا ماضی بہت شاندار رہا ہے۔ ماضی کے شاندارہونے کا سبب اس فن کے ماہر اور قابل اطباء کا وجود ہے۔فن طب کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس طریق�ۂ علاج میں ان تمام امراض کا کامل اور بے ضرر علاج موجود ہے جن امراض کی تشخیص اورتفہیم میں عصری جدید طریقۂ علاج آج بھی قاصروعا جز ہے۔طب یونانی میں کئی ایسے پیچیدہ امراض کا کامیاب علاج موجود ہے جو دوسرے طریقہ علاج میں موجود نہیں، لیکن مرکزی و ریاستی حکومتوں کے سوتیلے سلوک اورسرکاری سطح پر حوصلہ افزائی سے محرومی کے نتیجے میں اس کی اہمیت و افادیت کھل کر منظر عام پر نہیں آرہی ہے۔ تاہم دارالحکومت دہلی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں یونانی اطباء اپنے طورپر نامساعد حالات اور حوصلہ شکن رکاوٹوں کے باوجود یونانی طب کے فروغ کے لیے جی توڑ کوشش کررہے ہیں اور اس کے بہتر نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہئے کہ اطبائے کرام کی جدوجہداور فن کی ترویج و ترقی کیلئے ان کی قربانیوں اور لگن کے نتیجے میں طب یونانی کا فروغ و ارتقابدستور ترقی کی جانب سرگرم عمل ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ مناسب ہوگا کہ حیدرآباداوردہلی والہہ آباد کو ہندوستان میں طب یونانی کا مرکز کہاجاسکتا ہے۔ حیدرآباد میں ایشیاء کا سب سے بڑا طبی شفاخانہ ناموافق حالات اوررکاوٹوں کے باوجود بڑی کامیابی سے چلایا جارہا ہے۔ نظامیہ طبی شفاخانہ سے نہ صرف ریاست تلنگانہ اور آندھرا پردیش بلکہ سارے ہندوستان سے مریض رجوع ہوتے ہیں۔پالمیر یونیورسٹی امریکہ کے شعبہ نیوٹریشن کے سربراہ بتاتے ہیں کہ یونانی طریقہ علاج کی خوبی یہ ہے کہ اس کے کوئی ذیلی اثرات نہیں ہیں۔ اس میں خاص طور پر امراض قلب ، امراض جگر ، رگوں و نسوں کے امراض کا کامیاب علاج موجود ہے۔ اگر اطباء کے ساتھ ساتھ حکومتیں یونانی طب پر توجہ مرکوز کرتی ہیں تو یونانی طریقہ علاج سے خاص و عام سب استفادہ کرسکتے ہیں۔ طب یونانی کیلئے یہ بات بھی باعث فخر ہے کہ یونانی طریقہ علاج صرف ہندوستان ، پاکستان یا ایران میں ہی مقبول نہیں ہے، بلکہ مغرب میں بھی ماہرین طب یونانی طریقہ علاج کی خوبیوں کے معترف ہیں۔ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی ممتاز شخصیت مولانا عبدالرحیم طب یونانی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باوجود طب یونانی اپنی اہمیت و افادیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کے لیے ہمارے اطباء کی کاوشوں کی ستائش کی جانی چاہئے۔یہ بات عام طورپر کہی جاتی ہے کہ طب یونانی کی ترویج و ترقی کے درمیان حائل دشواریوں کیلئے صرف حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔جبکہ سچائی یہ ہے کہ اس ملک کے طول وعر ض میں یونانی طریقہ علاج اگر کسی بھی شکل میں باقی اورقائم ہے تو یہ ہمارے ان اطبائے کرام کی دین اور قربانیوں کا ثمرہ ہے ،جنہوں نے انتہائی دیانتداری اور لگن کے ساتھ طب کی ترقی میں اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ وقف کر رکھا ہے ،ورنہ سرکاری طور پر اس فن کی ترقی کیلئے کبھی بھی ایماندارانہ طریقے سے کوئی منصوبہ بندی عملی طورپر آزاد ہندوستان میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ورنہ صورت حال اور بھی زیادہ بہتر اور تابناک ہوتی۔
حکومت ہند کی کارگزاریوں کاخاص طورپر متبادل اور دیسی طریقہ علاج کے سلسلے میں جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے حکومت ہند کی وزارت صحت وخاندانی بہبود نے دیسی طریقہ علاج کی ترقی کی جانب1995میں توجہ دی تھی۔مگر اس وقت منصوبہ بندی کے دوران دیسی طریقہ علاج کی فہرست میں یوگا،آیوروید،سدھا اورہومیوپیتھک کو ہی شامل کیاگیا،جبکہ ملک میں تقریبا700سالوں سے رائج یونانی سسٹم آف میڈیسن کو جگہ نہیں دی گئی۔حکومت کے اس سوتیلے رویہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے طب یونانی کی تنظیموں اور مؤ قراطبائے کرام نے تحریک چھیڑی ،جس کا اثر یہ ہواکہ2003میں مذکورہ منصوبہ میں متبادل اور دیسی طریقہ علاج کے طور پر طب یونانی کو بھی شامل کیا گیااور اس کا نام تبدیل کرکے ’’آیوروید ،یوگ،نیچروپیتھی،یونانی،سدھا اور ہومیو پیتھی‘‘ رکھا گیا ۔ بعد ازاں عالمی ادارۂ صحت کے سخت دباؤاور’’سب کیلئے صحت‘‘جیسے منصوبہ کا ہدف حاصل کرنے کیلئے ’’آیوش‘‘کی تشکیل عمل میں آئی اوردیسی طریقہ علاج کو فروغ دینے کے منصوبہ پرعملی کام شروع کئے گئے۔اسی منصوبہ کے تحت قومی دیہی صحت مشن کو کامیاب بنانے کیلئے ایلوپیتھک کے ساتھ تمام دیسی طریقہ علاج کو اس میں شامل کیا گیا۔2002میں اس منصوبہ کو مزید تقویت فراہم کرنے کیلئے دیسی طریقہ علاج کی ترویج کی علیحدہ پالیسی مرتب کی گئی ،ورنہ 2003سے قبل تو مذکورہ تمام دیسی طریقہ علاج ایلوپیتھک کے زیر سایہ ہی اپنے وجود کی جنگ لڑ رہے تھے۔دیسی طریقہ علاج کو فروغ دینے اس کی ترقی وتحقیق اورتمام دیسی طریقہ علاج کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے اعلیٰ تعلیمی ادارے فراہم کرنا ’’آیوش‘‘ کے قیام کا بنیادی مقصد تھا۔ہمیں اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے کہ منصوبہ کے مطابق محکمہ آیوش نے یونانی کے سوا تمام متبادل طریقہ علاج کو ہرقسم کی سہولیات سے لیس کردیا۔مگر افسوس کہ فن کی ترویج میں عصبیت سے کام لینے والی خفیہ طاقتیں یونانی کے فروغ کے برخلاف اس کی ٹانگیں کھینچنے میں لگ گئیں۔
بہر حال دیسی طریقہ علاج کو ترقیات سے آہنگ کرنے اورعصری تقاضوں کے مطابق اس تجدید کاری کے مقصد سے وزارت صحت وخاندانی بہبود میں ’’آیوش‘‘ کو الگ سے جگہ دی گئی ،جس سے دیسی طریقہ ہائے علاج کی ترویج کا عمل قدرے تیز ہوا۔مگر یہاں بھی طب یونانی کیلئے کوئی سود مند اور موافق حالات پیدا نہیں ہوئے۔تجزیہ نگار اس پر اپنی آراء ظاہر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ طب یونانی کے پیچھے رہ جانے کا اہم سبب یہ بھی ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے احتجاج وتحریک کا جو طریقہ رائج ہے طب یونانی سے وابستہ تنظیموں اوراطبائے کرام و تعلیمی اداروں نے اس حد تک تحریک چھیڑ نے اوراسے آگے لے جانے کی سعی نہیں کی۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ طب یونانی کے لئے سرکار کے ذریعہ قائم کردہ ترقیاتی وتعلیمی اداروں میں حالاں کہ اپنے ہی لوگ ذمہ داریوں اور اعلیٰ مناصب پر فائز تھے۔مگران کے اندر جمود اورتساہل پیدا ہوجانے کی وجہ سے توقع کے مطابق طب یونانی کیلئے کامیابی کے راہیں ہموار نہیں ہوسکیں۔ممکن ہے ہمارے اس اعتراف سے کچھ اہل فن دوستوں کو اتفاق نہ ہو ۔مگر طب یونانی کے سرکاری مطبوں اور درسگاہوں میں پائی جانے والی عدم دل چسپی خود اس بات کی شہادت پیش کرتی ہے کہ یہاں کی سرگرمیاں تقاضوں سے کس قدر بیزار ہیں۔ایک تو طب یونانی کی دانشگاہوں میں تدریسی عملہ کی بے حد کمی اوراس پر جن ہاتھوں میں اس وقت نظامہائے تعلیم کے فرائض دیے گئے ہیں ان کی تساہل پسندی دیکھ کر بے ساختہ یہ مصرع ذہن کو مضطرب کرنے لگتا ہے کہ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔
ظاہر سی بات ہے کہ حکومت کے ذریعہ دی جانے والی مراعات کا بھرپور استعمال کرکے اگر ہم نے اورزیادہ بہتر کار کردگی دکھائی ہوتی تو حکومت کو قہراً جبراً اس میں اور زیادہ دل چسپی لینی پڑتی ۔مگر وائے افسوس کہ ہم جہاں کہیں بھی سرکارکے ذریعہ چلائے جارہے طبی اداروں کا جائزہ لیتے ہیں تو اور زیادہ مایوسی ہمیں گھیر لیتی ہے۔حالاں کہ وہاں تو ہم ہی لوگوں کے کندھوں پر طب یونانی کی کشتی کو پارلگانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگارورلڈیونانی فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹراوردہلویز ریمیڈیز کے سی ایم ڈی ہیں)