اب 2019 کی نئی سرکار میں طے ہوگا طلاق ثلاثہ مخالف بل کا مستقبل !

خبر در خبر (588)
شمس تبریز قاسمی
طلاق ثلاثہ مخالف بل پارلیمنٹ کے حالیہ سرمائی اجلاس میں بھی راجیہ سبھا سے پاس نہیں ہوسکاہے اور اب یہ یقین مان لیجئے کہ این ڈی اے کی موجودہ سرکار میں وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپائے گا ۔2019 میں کس کی حکومت بنے گی ۔بی جے پی دوبارہ جیت حاصل کرے گی یاکانگریس فتح کا علم لہرائے گی اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتاہے تاہم اس بل کا مستقبل اب اسی نئی سرکار میں طے ہوگا ۔
2014 میں اقتدارملنے کے بعد سے ہی مودی سرکار نے طلاق کو شوشہ بنایا ۔مسلم پرسنل لاءمیں مداخلت کرکے ہندﺅوں کو خوش کرنے کی کوشش کی اور برہمنواد کے نظریہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مسلم خواتین کو اسلام میں حاصل وسیع حقوق سلب کرنے کی طویل منصوبہ بندی پر عمل کرنا شروع کردیا ۔ چناں چہ ایک ہند وخاتون پھولن دیوی کے معاملے میں عدلیہ نے مسلم خواتین اور طلاق کے مسئلہ کو دلیل بنایا ۔پھر چند خواتین کو سپریم کورٹ تک پہونچا کر بی جے پی نے انہیں وکیل فراہم کیا ۔کئی ایسی عورتوں نے بھی کورٹ کا دروزہ کھٹکھٹایا جنہیں اس کے شوہر نے کوئی طلاق ہی نہیں دی تھی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد غیر غیر ضروری طور پر غیر موثر طلاق کیلئے بی جے پی نے لوک سبھا میں بل پیش کردیا جو 28دسمبر 2017 میں باآسانی صوتی ووٹ سے لوک سبھا میں پاس بھی ہوگیا ۔تاہم راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کے سبب یہ بل وہاں سے پاس نہیں ہوسکا ۔اپوزیشن نے اسے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کا مطالبہ کیا جسے بی جے پی نے نامنظور کردیا ۔ ستمبر 2018 میں حکومت نے اس بل کو آرڈیننس جاری کرکے نافذ کردیا ۔ دسمبر 2018 میں تین ترمیم کے بعد حکومت نے دوبارہ یہ بل لوک سبھا میں پیش کردیا جو27 دسمبر 2018 کو صوتی ووٹ کے ساتھ باآسانی پاس ہوگیاتھا تاہم راجیہ سبھا میں جب 31دسمبر کو یہ بل پیش کیاگیا تو اپوزیشن نے شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے سلکیٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا اس کے بعد کئی مرتبہ راجیہ سبھا میں یہ بل پیش کرنے کی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کوشش کی لیکن اپوزیشن کی زبردست مخالفت کی وجہ سے انہیں کامیابی نہیں مل سکی اور اس طرح آج 9جولائی کو راجیہ سبھا کی کاروائی غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی ہوگئی ہے ۔موجودہ حکومت کا اگلا اور آخری پارلیمانی اجلاس فروری کے اخیر میں شروع ہوگا تاہم اس میں بھی بل کا پیش کیا جانا ممکن نہیں ہے یہ سیشن بجٹ کیلئے خاص ہوتاہے اور عموما کوئی بل پیش نہیں ہوپاتاہے ۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اب 2019 میں نئی سرکار بننے کے بعد ہی اس بل پر کوئی فیصلہ ہوسکتاہے خواہ این ڈی اے کی سرکار برقرار رہے یا پھی یوپی اے کی حکومت بنے کیوں کہ بجٹ سیشن میں یہ ممکن نہیں ہوپائے گا البتہ اس بات کے امکانات ہیں کہ آر ڈیننس کی مدت ایک مرتبہ پھر چھ ماہ کیلئے بی جے پی بڑھاسکتی ہے ۔
راجیہ سبھا کی کاروائی غیر معینہ مدت تک ملتوی ہوجانے کی خبر ملنے کی بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے راح کی سانس لی ہے ۔ان کے ذمہ داروں جو کوششیں کی تھیں بظاہر اس میں کامیابی مل گئی ہے اور اپوزیشن کی زبردست مخالفت اور اتحاد کے سبب بی جے پی اپنے اس منصوبہ میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے تاہم بی جے پی اس کے باوجود انتخاب میں اس کا فائدہ اٹھائے گی، مسلم پرسنل لاءمیں مداخلت اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کے نام پر ہندﺅوں کا جذباتی استحصال کرکے ان کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی بہت ممکن ہے کہ 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی تین طلاق بل کو پاس کرانا بھی اپنے منی فیسٹو میں شامل کرلے ۔
طلاق ثلاثہ بل کو راجیہ سبھا سے رکوانے کیلئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے بھی اپنی سطح پر مسلسل جدوجہد کی ۔اپوزیشن لیڈران سے ملاقات کی ۔انہیں بل کی خامیوں سے آگاہ کیا اور اس طرح اپوزیشن نے اتحاد کا بھر پور ساتھ دیا ۔بورڈ کی قیادت کا یہ کارنامہ قابل ستائش ہے لیکن ابھی کامیابی نہیں ملی ہے ۔ بورڈ کے ذمہ داروں کیلئے یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اب یہ بل سرد بستہ میں نہیں ڈالا جاسکتاہے ۔اگر 2019 میں بی جے پی سرکار بنانے میں کامیاب نہیں ہوپاتی ہے اور یوپی اے کی سرکار بنتی ہے تو ایسا ہر گز نہیں ہے کہ کانگریس اس بل کو سردبستہ میں ڈال دے گی بلکہ وہ بھی اس بل کو پاس کرکے کریڈیٹ لینے کی کوشش کرے گی ہاں یہ ممکن یہ ہے کہ کانگریس اس طرح ضدی پن والارویہ اختیار کرنے کے بجائے کچھ لچک دکھائے ، ضروری ترمیمات کیلئے تیار ہوجائے اور کریمنل ایکٹ کے بجائے اسے سول معاملہ بنادے تاہم قانون بننا یقینی ہے ۔
اس لئے اس دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کو اس پورے معاملے پر ایک مضبوط پالیسی بنانی چاہئے ۔خود ایک مسودہ تیار کرنا چاہیئے ۔سعودی عرب اور دیگر اسلامی ملکوں میں طلاق کا جو نظام رائج ہے اس کو اپناتے ہوئے ایک جامع ڈرافٹ تیا ر کرکے حکومت کو پیش کرنا چاہئے ہم اس طرح کا قانون چاہتے ہیں ۔ اسلام اس بارے میں اس نظام کا قئل ہے تاکہ حکومت کی جانب سے تیارکردہ ناقص بل کے بجائے ایک مضبوط ،جامع اوراسلامی نظام کے دائر ے میں کوئی بل قانون بن کر مسلم خواتین کیلئے راحت کا سبب بن جائے ۔ اسلام دشمن عناصر کو بار بار اس طرح کا منفی پیر وپیگنڈہ کرنے کا موقع نہ مل سکے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے بانی ایڈیٹر اور تجزیہ نگار ہیں )
stqasmi@gmail.com

SHARE