فخر بہار فقیہ ملت حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی رحمہ اللہ کی زندگی کے کچھ روشن نقوش  

 محمد انس عباد صدیقی

 ریاض سعودی عرب  

ریاست بہار ہمیشہ سے علم وفن کا گہوارہ رہا ہے اس کے کوکھ سے نہ جانے کتنے رجال سازافراد ؛ اصحاب علم وہنر ارباب فکروفن پیدا ہوئے اور اپنے اپنے روشن کارناموں کے انمٹ نقوش چھوڑکر اس دنیا سے چلے گئے۔

 بہار کی مردم خیزسرزمین کا ایک گوہرآبدار ؛ فقہ وفتوی کا امام ؛ علم حدیث کا شناور ؛ ایک مدبر ؛ ایک عظیم منتظم ؛ فقہ اکیڈمی کےرکن تاسیسی، مفتاح العلوم مئوناتھ بھنجن و جامعہ رحمانی مونگیرکے سابق استاذ حدیث و فقہ اور سبیل السلام حیدرآباد کے سابق شیخ الحدیث معروف دینی درسگاہ مدرسہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی بہار کے ناظم اعلی فقیہ ملت حضرت مولانا زبیراحمد قاسمی رحمہ اللہ بھی داغ مفارقت دے گئے اناللہ و انا الیہ راجعون ۔

آپ ہندوستان کے عظیم عالم و فقیہ تھے آپ کی علمی دسترس فقہی مہارت اور تدریسی حذاقت پہ طلبہ و اساتذہ کو اتفاق تھا بڑے بڑے اصحاب فن جب کسی مسئلہ میں الجھتے تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کا حل تلاش کرتے آپ بھی مدلل انداز میں اشکالات رفع فرمادیتے آپ کی فقاہت کی مثالیں معاصر علماء و فقہاء بڑے رشک کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے فقہ اکیڈمی کی سیمناروں میں مناقشے کی نشستوں میں آپ کی رائے اور دقیقہ سنجی حرف آخر کی حیثیت رکھتی تھی کیا مجال کہ کوئی بھی عالم یا فقیہ اور مفتی سواداعظم سے ایک اینچ ادھرسے ادھر ہوجائے اور آپ اس کی گرفت نہ کریں آپ صرف گرفت ہی نہیں فرماتے بلکہ صحیح اور درست قرآن و حدیث اور اقوال فقہا کی روشنی میں مسئلے کو منقح بھی کردیتے تاکہ کسی طرح کے شکوک و شبہات کی گنجائش نہ رہے آپ کا علم بہت پختہ تھا فقہی اصول اور جزئیات کی باریکیوں پہ آپ کی گہری نظر تھی فقیہ الاسلام حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ آپ پہ بیحد اعتمادکرتے تھے آپ کے علمی مشورے کی قدرکرتے اور قبول بھی کیاکرتے تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے قدیم فضلاء میں سے تھے دیوبند کی علمی انجمن سے خوب خوب فیض حاصل کئے ہوئے تھے۔ فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدین صاحب اور حکیم الاسلام حضرت قاری طیب صاحب رحمتہ اللہ علیہ جیسے زندہ دل روشن ضمیر اسلاف سے علمی تشنگی بجھاکر فکرونظر کو صیقل کئے تھے یہی وجہ ہے کہ جس ادارے سے وابستگی ہوئی وہاں کے مقبول ترین استاذ شمار کئے گئے جامعہ رحمانی مونگیر میں ایک زمانے تک علم وفن کا جام لونڈھائے ہزاروں طلبہ آپ سے مستفیض ہوئے جامعہ مفتاح العلوم مئوناتھ بھنجن یوپی جیسےعظیم اور قدیم مرکزی ادارے میں علم حدیث کا کامیاب درس دئیے جامعہ کا دارالحدیث آپ کی تحقیق و تدقیق اور علمی شہہ پاروں سے گونج اٹھا طلبہ آپ کی مرنجامرنج ؛ باغ و بہار شخصیت اور انداز تدریس سے جھوم اٹھے مئوشہر قدیم علمی شہر ہے یہاں بڑے بڑے محدث اور فقیہ پہلے سے موجودتھے یہاں کی مٹی کے خمیر سے ہی علم وفن کی خوشبو پھوٹتی ہے اور یہاں کی روایت رہی ہے کہ دوسرے ریاست سے بہت ہی کم علماء و مشائخ تدریس کے لئے بلائے جاتے ہیں باوجود اس کے آپ کو شان و شوکت اور عظمت و منزلت کے ساتھ ارباب انتظام نے تدریسی خدمت کے لئے دعوت دی اور آپ کا بھرپور اعزاز و اکرام کیا جلد ہی پورے شہر میں آپ کے علم و فن کی شہرت کے چرچے ہونے لگے یہ آپ کی بے پناہ مقبولیت کی دلیل ہے۔ 

آپ جامعہ سبیل السلام حیدر آباد میں ایک عرصے تک شیخ الحدیث رہے اور بیحد کامیاب طریقے سے حدیث شریف کی اس ادارے میں خدمت انجام دئیے 

 آپ بیحد سادہ مزاج ؛ اسلاف کی قدیم اداؤں کے امین ؛ حق گو؛ جری ؛ اور بااخلاق تھے آپ کے اندر بصیرت اور فراست اس قدر تھی کہ سیتامڑھی بہار کے پسماندہ ضلع میں شمار ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ پسماندہ بستی کنہواں جہاں تقریباً زندگی گزارنے کے ضروری سامان کا ملنا بھی مشکل سڑک بوسیدہ؛ بود و باش میں بدویت ؛ دیہاتی مزاج افراد کی کثرت دوسری طرف بدعات و خرافات کا یلغار ایسی بستی کے قدیم ادارہ جامعہ اشرف العلوم کو ایک شناخت عطا کی تعلیمی طور پہ مقبولیت کے معراج تک لے گئے یہی وجہ کہ دارالعلوم دیوبند میں ہرسال اس ادارے کے طلبہ باعزت طریقے سے داخلہ حاصل کرتے یہ سب حضرت مولانا کی جدوجہد ؛ انتہائی حکمت و بصیرت ؛تعلیم دلچسپی اور انتظامی مہارت کا کرشمہ تھا اس ادارے میں اساتذہ کی تقرری کو لیکر آپ بڑے سخت تھے سطحی قسم کے اساتذہ کو بالکل قبول نہیں کرتے پہلے اچھی طرح ہر جہت سے پرکھتے جانچ پڑتال کرتے صلاحیت و صالحیت کے معیار کو بھانپتے پھر تدریس کے لئے قبول کرتے یہی وجہ ہے کہ اشرف العلوم کنہواں آج بہار کی مقبول ترین دینی درسگاہ ہے ۔

آپ بہار کے ضلع مدہوبنی کی معروف علمی بستی چندرسین پور کے تھے اور اپنے آبائی وطن ہی میں 83 سال کی عمر میں آخری سانس لئے رحمہ اللہ رحمتہ واسعتہ وادخلہ الجنتہ النعیم

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا 

آپ کی وفات حسرت آیات یقیناً ملت اسلامیہ ہند کے لئے ایک عظیم علمی خسارہ ہے خصوصاً طلبہ واساتذہ اور فقہی باب میں زبردست ناقابل تلافی خلا ہے اس علمی و اخلاق قحط سالی میں آپ کا وجود مسعود نعمت مترقبہ سے کم نہیں تھا خدائے پاک اس خلا کو پر فرمائے آپ کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں جگہ عطاکرے آمین۔