مظفرپور: 13 جنوری( ملت ٹائمز) مشہور عالم دین، معروف فقیہ حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی رحمتہ اللہ علیہ ، ( ناظم اعلی جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی بہار ) کے انتقال پر ملال پر مدرسہ احمدیہ کریمیہ مصر اولیا اورائی مظفر پور کے بانی و سرپرست حضرت مولانا مظفر عالم صاحب نقشبندی مجددی مدظلہ سجادہ نشین خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ مصراولیا نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی اس دیار کے جلیل القدر دور اندیش عالم دین اور ممتاز فقیہ تھے، فقہ اسلامی میں غیر معمولی مہارت حاصل تھی بلکہ وہ فقہی مہارت میں پورے ملک میں ممتاز مقام رکھتے تھے، بلا شبہ ان کے انتقال سے علمی دنیا ایک ممتاز اور صاحب بصیرت فقیہ سے محروم ہوگئی ہے۔
حضرت مولانا نے جاری اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مجھے زمانہ طالب علمی اور زمانہ مدرسی میں انکی رفاقت بھی حاصل رہی ، جس وقت میں حضرت مولانا نورالحسن صاحب سنگاچوری رحمتہ اللہ علیہ کی ھدایت پر مدرسہ بشارت العلوم کھرما پتھرا ضلع دربھنگہ میں میزان کی جماعت میں داخل ھوا تواس وقت مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی شرح وقایہ وغیرہ کی جماعت میں تھے ، حضرت مولانا سعید احمد صاحب چندر سین پوری رحمتہ اللہ علیہ سے ساری کتابیں پڑھتے تھے ، حضرت چندر سین پوری کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ پڑھاتے نہیں ہیں گھول کر پلاتے ہیں۔
*یہی علمی صلاحیت اور یہی تدریسی خصوصیت اپنے استاذ گرامی کی جانب سے مولانا زبیر احمد صاحب کو بھی حاصل ہوئی ، میں نےزمانہ طالب علمی ہی میں مولانا زبیر احمد قاسمی سے مرقات کے دو تین اسباق بھی پڑھے پھر فراغت کے بعد ( 1385ھ ) میں میری تقرری جامعہ اشرف العلوم کنہواں میں ہوئی اور خدمت تدریس سپرد ہوئی تو اس وقت مزید ایک باصلاحیت استاذ کی ضروت اشرف العلوم کو محسوس ہوئی ، صدر مدرس کی جگہ بھی خالی تھی ، مولانا زبیر احمد صاحب بشارت العلوم میں مدرس ہوچکے تھے، شوری کے بعض اراکین اور ذمہ داران نے مولانا کے سلسلہ میں مجھ سے مشورہ لیا ، میں نے کہا کہ وہ اگر اشرف العلوم آجاتے ہیں تو اشرف العلوم کے لیے بہت مفید ثابت ہونگے، چنانچہ ایک سال بعد وہ اشرف العلوم لائے گئے ، اشرف العلوم میں میرے اور انکے درمیان دوستانہ مراسم رھے ، ہم دونوں ایک ہی کمرہ میں رھتے تھے اس طرح تقریبا آٹھ سال وہ شریک حجرہ رھے* نیزوہ میرے برادرطریقت بھی تھے سیدی ومرشدی حضرت مولانا احمد حسن صاحب قدس اللہ سرہ سے ارادتمندانہ تعلق رکھتے تھے۔
اشرف العلوم کے علاوہ انہوں نے ملک کی دو ممتاز تعلیم گاہ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر ، دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد میں بھی حدیث و فقہ کا درس دیا پھر بعد میں اشرف العلوم کے ناظم بنائے گئے ، انکے دور نظامت میں اشرف العلوم نے بڑی نیک نامی حاصل کی اور عظیم الشان جشن صد سالہ بھی منایا۔
بہر حال موت ایک حقیقت ہے آج وہ مالک حقیقی سے جاملے، اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے، درجات کو بلند فرمائے اگلے اگلےتمام مرحلوں کو آسان فرمائے تربت کو ٹھنڈا رکھے متعلقین کو صبر و سکون سے نوازے۔ آمین
واضح رہے کہ جیسے ہی حضرت کے انتقال کی خبر مدرسہ احمدیہ کریمیہ میں پہونچی، ختم قرآن و ایصال ثواب کا اہتمام کیا گیا جو اب بھی جاری ہے۔