پروفسیر اعجاز علی ارشدصاحب ہندوستان کے معروف ادیب ،افسانہ نگار اور ماہر تنقید ہونے کے ساتھ تعلیمی میدان میں بھی یکتائے روزگار ہیں ،مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسیٹی میں وائس چانسلر کا منصب سنبھالنے کے بعد اس یونیورسیٹی کو مقام عروج پر پہونچانے میں آپ نے نمایاں کارنامہ انجام دیاہے ،تعلیمی صورت حال اور نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ یونیورسیٹی کیلئے زمین کی فراہمی آپ کی خدمات کا اہم باب ہے ،اردو ادب سے آپ کی کافی دلچسپی ہے ،پٹنہ یونیورسیٹی میں چالیس سالوں تک اردو پروفیسر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں،مختلف عناوین پر آپ کی ادبی تحریریں مختلف رسالوں اور اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں ،کئی ایک کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔29-30 مئی کوآپ دہلی ایک پروگرام میں تشریف لائے تھے ،اس موقع پر ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے ان سے بات چیت کی ہے،گفتگو کے اہم اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔(ادارہ)
شمس تبریز قاسمی
مظہر الحق یونیورسیٹی میں آپ کے آنے کے بعد کیا تبدیلی ہوئی ہے ؟
پروفیسر اعجاز علی ارشد
مولانا مظہر الحق یونیورسیٹی کرایے کے مکان میں تھی،وہاں رہنے والے کنٹکریٹ پر بحال تھے ،نظام بالکل خراب تھا ،ہم نے سب سے پہلا کام یہ کیا ہے قلب شہر میں ساڑھے پانچ سو ایکڑ زمین حکومت سے حاصل کی جہاں کام جاری ہے ،باؤنڈری کا کام ہوچکاہے اوراب تعمیرکا اگلا مرحلہ شروع ہوگا، تعلیمی نظام درست کیا گیا ،
شمس تبریز قاسمی
مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے بعض امتحانات کو یونیورسیٹی کے تحت کرائے جانے کا مقصد کیا ہے اور اس کے فوائد؟ ۔
پروفیسر اعجاز علی ارشد
مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے عالم اور فاضل کے امتحانات کو مولانا مظہر الحق یونیورسیٹی نے دو مقصد کے پیش نظر اپنے تحت کیا ایک یہ کہ بورڈ کا دائرہ کار صرف دسویں اور بارہویں تک ہوتاہے ،ایم اے کی سرٹیفکیٹ یونیورسیٹی سے جاری ہونی چاہئے اس لئے اس یونیورسیٹی کے تحت کیا گیا تاکہ مدرسہ کے طلبہ کی سرٹفیکیٹ کی بھی اہمیت ہواور انہیں ایم اے کے مساوی مانا جائے ،دوسری فائدہ یہ ہواہے کہ طلبہ میں محنت کرنے کی فکر پیدا ہوئی ،پہلے امتحان کا برا حال تھا ،طلبہ بالکل نہیں پڑھتے تھے ،چوری کرکے امتحان دیتے تھے یونیورسیٹی کے تحت امتحان آنے کے بعد صورت حال صحیح ہوئی ۔
شمس تبریز قاسمی
مدر سہ ایجوکیشن بورڈ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہاں کا نظام تعلیم بالکل چوپٹ ہے ،ذرہ برابر تعلیم نہیں ہورہی ہے ،نئے بحال ہونے والے اساتذہ بھی کسی قابل نہیں ہوتے ہیں ایسے میں مولانامظہر الحق یونیورسیٹی کیا کردار ادارکرہی ہے؟۔
پروفیسر اعجاز علی ارشد
یہ بات بالکل بجاہے کہ مدرسہ بورڈ کا تعلیمی نظام بالکل چوپٹ ہے ،ذرہ برابر تعلیم نہیں ہے ،وہاں بحال بھی ایسے لوگوں کو کیا جاتاہے جو کسی قابل نہیں ہوتے ہیں اور یہ صورت حال دوسرے اداروں کی بھی ہے ،مدرسوں میں تن آسانی بھی آگئی ہے ،مدرسہ میں محنت او ر جدوجہد کا مزاج ہوتاہے لیکن اب معاملہ برعکس ہوگیا ہے ،پٹنہ میں ایک مولانا صاحب کی چار بیویاں ہیں اور کل انیس بچے ہیں ،اب تک ان کے بیس مدرسے قائم ہوچکے ہیں جن میں ایک بیوی کے نام ہے بقیہ سبھی بچے کے نام ہیں ۔
ملت ٹائمز کا فیس بک پیج جوائن کریں اور ہر تازہ اپڈیٹ سے باخبر رہیں
شمس تبریز قاسمی
دارالعلوم دیوبند یا دیگر اداروں کی فضیلت کی سرٹیفکیٹ کو آپ ایم اے یا بی اے کے مساوی قراردیکر انہیں ملازمت کیوں نہیں دیتے ہیں جبکہ بورڈ میں ملازمت ملتی ہے؟
پروفیسر اعجاز علی ارشد
مدرسوں کا نصاب مختلف ہے ،مسلک کی بناپر بھی مدرسوں کا نصاب علاحدہ علاحدہ ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ مدرسہ کی سرٹفیکٹ کو ایم ایے وغیرہ کے مساوی دینے کی ذمہ داری یوجی سی کی ہے ،اس لئے ہم انہیں اس بنیاد پر ملازمت نہیں دے سکتے ہیں،ہاں ان کا ایڈمیشن ضرور ہوتاہے ،ابھی بی ایڈ کے نوکالجز کا مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسیٹی سے الحاق ہواہے جس میں سے پچاس فیصد سیٹیں ہم نے فضلاء مدارس کیلئے خاص کی ہے تاکہ مدرسہ کے فارغین بھی بی ایڈ کرسکیں اور وہ اس موقع کا فائدہ اٹھائیں۔
شمس تبریز قاسمی
فارسی زبان بالکل ختم ہوتی جارہی ہے ،حکومت بھی ختم کرنے پر آمادہ ہے ایسے میں مظہر الحق یونیورسیٹی فارسی کے تحفظ کیلئے کیا اقدامات کررہی ہیں یہ سوال اس لئے کیا جارہاہے کہ اس کے نام میں فارسی شامل ہے؟
پروفیسر اعجاز علی ارشد
فارسی کا تحفظ ہمارے لئے بھی مستقل مسئلہ ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ اس کے تحفظ کی نہیں بلکہ فروغ کی فکر کی جائے ،لیکن ذریعہ معاش سے منقطع کردیئے جانے کی وجہ سے یہ زبان ختم ہوتی جارہی ہے ،حکومت کی پالیسی بھی اس زبان کے تئیں بہتر نہیں ہے ،تاہم اپنے طور پر اس زبان کو زندہ رکھنے کی ہم مکمل کوشش کررہے ہیں ،یونیورسیٹی میں تکنیکی کورسز میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کیلئے یہ آفر ہے کہ وہ اگر فارسی یا عربی زبان سیکھنا چاہیں تو انہیں فری میں یہ دونوں زبانیں سکھائی جائیں گی۔
شمس تبریز قاسمی
اردو صحافت کو آپ کس نظریہ دیکھتے ہیں ،کچھ دنوں قبل بہارمیں اردو صحافت پر کل ہند سیمینار کا انعقاد ہواتھاجس میں آپ نے اردو صحافت کی سخت تنقید کی تھی۔
پروفیسر اعجاز علی ارشد
ہم اردو صحافت کی خدمات کے انکاری نہیں ہیں، اور نہ ہی اسے تنقیدی نگاہ دیکھتے ہیں بلکہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ صحافی اپنے افراد یاذاتی مفادات کی وجہ سے ،یا انفرادی تحفظات اور مفادات کی وجہ سے کسی ادارے کے نقصان کاسبب نہ بنے لیکن آج کل کے اردو صحافی یہی کررہے ہیں،وہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے کسی کے خلاف لکھتے ہیں جس کا اثر براہ راست ادارے پر پڑتاہے اور ادارہ کو نقصان پہونچتاہے ،اب خدابخش لائبریری کی مثال لے لیجئے جو گذشتہ پانچ سالوں سے بند پڑی ہے مطلب یہ کہ ایک مطالعہ ہال اور ایک دور روم کھلاہے جبکہ اس کے تحت پہلے مشاعرہ ،مختلف عناوین پر گروگرام اور دیگر تقریبات کا انعقاد ہواکرتاتھا،اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ صحافیوں نے ذاتی مفادکیلئے ڈائریکٹر کے خلاف لکھاجس کا اثر ہوا او رڈائریکٹر کو بر طرف کردیا گیا ۔
شمس تبریز قاسمی
آپ کی گفتگو سے معلوم ہورہاہے کہ اردو اخبارات بھی موئثر ہیں اور حکومت ان پر توجہ دیتی ہے؟
پروفیسر اعجاز علی ارشد
جی ہاں اردو اخبارات موثر ہیں ،خاص طور پر اقلیتی امور کے مسائل میں اردو اخبارات پر حکومت توجہ دیتی ہے اور ان کی آواز ایوان حکومت میں سنی جاتی ہے ، لیکن المیہ یہ ہے کہ اردو صحافیوں کی اب شناخت ختم ہوگئی ہے ،کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اردو صحافی اپنی ایک شناخت قائم کریں ،ساتھ میں یہ بھی ضروری ہے کہ بے بنیاد الزامات لگاکر کسی کے کیریئر کو خراب کرنے والے صحافی کے خلاف ضابطہ اخلاق بھی طے ہونی چاہئے ۔
شمس تبریز قاسمی
بہار اردواکیڈمی کے موجودہ چیرمین جناب مشتاق احمد نوری کی کچھ لوگ مخالفت کررہے ہیں ،ان کا الزام ہے وہ اکیڈمی کے مفادات کے خلاف کام کررہے ہیں آپ کیا کہتے ہیں ان کے بارے میں؟۔
ملت ٹائمز کے خصوصی شمار ہ ’’ مسجد اقصی نمبر ‘‘ میں اشتہارات دینے کیلئے ٹیرف کارڈ میں دیئے گئے نمبرات پر رابطہ کریں ۔
پروفیسر اعجاز علی ارشد
دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جنہیں سب اچھا کہے ،جہاں تک بات مشتاق احمد نوری صاحب کی ہے تو مجھے کئی سارے معاملے میں ان سے اختلاف بھی ہے اور میں ان سے کہتا بھی رہتاہوں لیکن اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے بہار اردوکیڈمی کو متحرک وفعال کردیاہے اور ایسا لگ رہاہے کہ بہار میں اردو کے فروغ کیلئے سرکاری سطح پر بڑاکام ہورہاہے ،خواتین قومی کنونشن کا انعقادان کا ایک بڑا کارنامہ ہے جو ہندوستان میں منفرد نوعیت کا پروگرام تھااور چوطرفہ ستائش کی گئی،اس کے علاہ صحافت پر بھی انہوں نے مثالی سیمینار کرایا اور ورکنگ جرنلسٹ کو بلایا جو عموما دیگر اداروں میں نہیں ہوتاہے،اردو اکیڈمی کے سکریٹری سے اختلاف ہوسکتاہے لیکن ان کے کاموں سے نہیں ۔
شمس تبریز قاسمی
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹرجناب ارتضی کریم صاحب کی بھی بہت زیادہ مخالفت ہورہی ہے ،29 مئی کو جنتر منتر پر ان کے خلاف دھر نا بھی دیا گیا آپ کیا فرماتے ہیں؟۔
پروفیسر اعجاز علی ارشد
بات وہی ہے کہ کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہے ہر کسی کی تنقید ہوتی ہے لیکن یہ پیش نظر ہونی چاہیئے کہ کسی کی بھی تنقید ادارے کے نقصان کا سبب نہ بنے ،جہاں تک بات ارتضی کریم صاحب کی ہے تو ان کے بہت سارے کام قابل اعتراض ہیں مثال کے طور پر وہ کسی ادارے کو پروگرام اور فنکشن کیلئے فنڈ دیتے ہیں تو وہاں یہ فرمان جاری کرتے ہیں کہ فلاں فلاں کو نہیں بلاناہے ،یہ بالکل غلط ہے ،دوسروں کے پروگرام میں آپ کو یہ فرمان جاری کرنے کا کوئی حق نہیں ہے آپ یہ سفارش کرسکتے ہیں کہ فلاں کو بلایا جائے لیکن فلاں کو نہیں بلانے کا فرمان جاری کرنے کا آپ کو اختیار نہیں ہے ،ان کی یہ ڈکٹیٹر شپ سب سے زیادہ قابل اعتراض ہے اور پہلے ڈائریکٹر ہیں جو اس طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ مظہر الحق یونیورسیٹی کو انہوں نے ایک لاکھ روپیہ دیا مشاعرہ کیلئے اور کہاکہ فلاں کو نہیں بلانا ہے جس بنا پر ہم نے فنڈ واپس کردیا ۔
شمس تبریز قاسمی
ارد و کے فروغ کیلئے کون سے ادارے زیادہ کام کررہے ہیں :ریاستی سطح پر قائم اردو اکیڈمیاں یا قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان؟ ۔
پروفیسر اعجاز علی ارشد
یہ بہت مشکل سوا ل ہے ،دونوں اداروں کی اپنی اپنی خدمات ہے ہاں ان داروں کو یہ کرنا چاہئے کہ وہ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں ،مثال کے طور پر اردو اخبارات کے جو ایڈیٹر اور مالک ہوتے ہیں وہ صحافت سے مکمل طور پر ناواقف ہوتے ہیں ،ان کو بنانے اور سنوارنے کا کام وہاں کام کرنے والوں کا ہوتاہے ،اخبارات کا مکمل کام ،اداریہ اور ایڈیٹروں کے کالمز وہاں کام کرنے والے لکھتے ہیں لیکن پورا کریڈٹ مالکان اور ایڈیٹر ان کو جاتاہے ایسے میں ان اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ورکنگ جرنلسٹ کیلئے کام کرے ،نئی نسل کے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کرے اور جو لوگ حقیقی صحافی ہیں انہیں اعزاز سے نوازے ۔
شمس تبریز قاسمی
ملت ٹائمز سے بات چیت کرنے کیلئے آپ کا بہت بہت شکریہ
پروفیسر اعجاز علی ارشد
ملت ٹائمز کا بھی شکریہ کہ انہوں نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ،ملت ٹائمز کی ترقی کیلئے ہم دعاگو ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ملت ٹائمز صحافت کی نئی تاریخ رقم کرے۔