پاک طینت نیک سیرت نرم گو شفاف روح ایک مثالی شخصیت تھے حضرت واضح رشید دوحہ قطر میں حضرت مولانا واضح رشید ندوی کی وفات پر تعزیتی نشست کا انعقاد

قطر: 18جنوری بروز جمعہ بعد نماز عشاء ابنائے ندوہ دوحہ قطر کی جانب سے جناب اسلم عزیز ندوی صاحب کی رہائش گاہ پر مشہور و ممتاز عالم دین حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے سانحہ ارتحال پر ایک تعزیتی نشست کا انعقاد ہوا، جلسہ کا آغاز دوحہ کے معروف قاری جناب مدثر الحق ندوی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا رحمت اللہ ندوی نے فرمایا کہ استاذ گرامی جمع بین القدیم الصالح و الجدید النافع کے صحیح اور مکمل مصداق تھے، آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن کیا اور آل انڈیا ریڈیو دہلی میں انگریزی سے عربی کے مترجم کی حیثیت سے کام کیا دوسری طرف قرآن سے شغف شریعت کی پاسداری اور للٰہیت میں آپ بے مثال تھے بالخصوص آپ نے اپنی آخری تصانیف میں قرآن اور سیرت سے اپنے تعلق کو جس طرح والہانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش فرمائی ہے جمع بین القدیم الصالح والجديد النافع کی اس سے اچھی مثال نہیں ہوسکتی۔
ہندوستان سے تشریف لائے مولانا سید یوسف حسینی ندوی نے خاندانی پہلو کو واضح کیا اور گھر کے تمام بچوں کے ساتھ مولانا کے انداز تربیت پر گفتگو فرمائی، دوسرے مہمان جناب مولانا اسداللہ ندوی صاحب مہتمم مدرسہ نورالاسلام کنڈہ و ناظم جامعہ امھات المؤمنین للبنات نے مولانا کے انتقال کو عالم اسلام کا عظیم نقصان قرار دیا اور فرمایا کہ انہوں نے مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی فکر کو پوری طرح سے اپنایا اور ان کے نہج کو مکمل طریقے سے اختیار کیا تھا۔
مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمن ندوی نے مولانا کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا کی شخصیت اگرچہ بہت حسین تھی لیکن مولانا نے اس کا اظہارکبھی ہونے نہیں دیا، ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی، آپ کی شخصیت کا مطالعہ چاہے جس حوالے سے اور جس نوعیت سے کیا جائے الفاظ و تعبیرات اس کی ترجمانی کے لیے ناکافی ہیں-


مولانا آفتاب عالم ندوی سابق استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء نے فرمایا کہ مولانا ہر جماعت اور ہر مکتب فکر میں مقبول رہے مغربی مفکرین اور ان کی تہذیب وتمدن کا بلا خوف لومۃ لائم قلع قمع کرتے رہے وہ ہمیشہ اسلامی فکر کی پاسداری کرتے رہے اور کبھی اپنے اصولوں سےسمجھوتہ نہیں کیا، ہم آج اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی خاطر ہر طرح کی قربانی پیش کریں گے یہی مولانا کے ساتھ بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
معروف شاعر مولانا رفیق شاد ندوی صاحب نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا، چار مصرعے پیش ہیں ؎

لب کھلے تو علم و فن کے سیکڑوں دفتر کھلے
خاموشی میں اور صبر و ضبط کے پیکر کھلے
ہاں جو باطل کے قلم سے دین پر یلغار ہو
تو حفاظت میں ہزاروں کاغذی لشکر کھلے

مشہور یمنی عالم الشیخ عادل الحرازی الندوی نے فرمایا کہ شیخ واضح رشید کی مقبولیت ان کے صلاح و تقوی اور اللہ سے قرب کی دلیل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے ثم يوضع له القبول في الأرض ہم پر واجب ہے کہ شیخ کے منہج اور ان کی کتابوں کو پڑھیں یہ نشست تو ایک پہل ہے اسی پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے۔
آخر میں مولانا سے حد درجہ قریب رہے مولانا حشمت اللہ ندوی سابق استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء نے مولانا کے اوصاف و کمالات امتیازات و خصوصیات پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مولانا کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ ایک عظیم مربی تھے اپنے شاگردوں کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے آپ نے انتہائی سادہ اور پاکیزہ زندگی بسر کی وہ صالح بھی تھے اور مصلح بھی، دنیا کی عارضی شان و شوکت سے اپنا دامن کبھی آلودہ نہیں کیا ان کا قلب تقوی کے نور سے منور ایمان کے حرارت سے معمور تھا ان کا علمی کام کم اور کیف دونوں لحاظ سے بڑا وقیع گراں قدر عظیم متنوع اور لازوال ہے۔
اس موقع سے محمد شاہد خان ندوی، ایاز احمد ندوی اور مدرسہ سیدنا بلال لکھنؤ کے مہتمم محمد داؤد ندوی نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
آخر میں میزبان جلسہ جناب اسلم عزیز ندوی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور دعائے مغفرت پر نشست کا اختتام ہوا-
نشست میں مولانا عبد الحئ ندوی مولانا یونس حسینی ندوی مولانا عمران ندوی مولانا اسامہ ندوی مفتی طارق اقبال ندوی مولانا محمد شاہد ندوی کے علاوہ کثیر تعداد میں ندوی و غیر ندوی احباب نے شرکت کی، جن کی تعداد ساٹھ ستر کے درمیان رہی۔