بی جے پی مخالف اتحاد میں مسلم قیاد ت والی پارٹیوں سے دوری کیوں؟

ملی تنظیموں کے رہنما بھی مختلف زاویوں سے بی جے پی کو ہرانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ۔ ان کیلئے یہ کا فی ہے کہ اگر بی جے پی کے علاوہ کوئی اور پارٹی حکومت بنائے گی تو وفد کے ساتھ وزیر اعظم ،وزیر داخلہ اور دیگر سربراہوں سے ملاقات کا راستہ ہموار ہوجائے گا ۔مسلم رہنماء،دانشوران اور قائدین اس سے پہلے بھی مسلم قیادت والی پارٹیوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور 2019کے عام انتخابات میں مزید قوت کے ساتھ کریں گے ،انہیں بی جے پی کا ایجنٹ قرار دیکر سرے سے مسترد کردیں گے ۔وہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی راہل گاندھی ، اکھلیش یادو ،تیجسوی یادو ،کمار سوامی ، اجیت چودھر ی ،اوپندر کشواہا پر بھروسہ کریں گے

خبر در خبر (591)
شمس تبریز قاسمی
2019 کے عام الیکشن کی تیاری زورو شور کے ساتھ شروع ہوگئی ہے ۔تمام پارٹیاںمیدان میں اترچکی ہیں ۔سب کا منی فیسٹو تیار ہے ۔ کون پارٹی کس کے ساتھ الیکشن لڑے گی یہ بھی فائنل ہوگیا ہے ۔ملکی اور ریاستی کا سطح کا اتحاد بھی تقریبا تشکیل پاچکاہے ۔یوپی ،بہار ،مہاراشٹرا سمیت تمام ریاستوں میںوہاں کی چھوٹی چھوٹی اور نوزائیدہ پارٹیوں کوبھی بی جے پی کے خلاف تشکیل پانے والے اتحاد کا حصہ بنایاگیاہے !۔صرف ان پارٹیوں کو شامل نہیں کیاگیا ہے جن کی قیادت مسلمانوںکے ہاتھ میں ہے ہر چند کہ ان پارٹیوں کا نظریہ سیکولرزم پر مبنی ہے ۔نام بھی دیگر پارٹیوں کی طرح ہی ہے ۔
یوپی میں ایس پی بی ایس پی اتحاد نے تمام چھوٹی پارٹیوں کو نظر انداز کردیاہے ۔ ممکن ہے کہ اب وہ راشٹریہ لوک دل کو شامل کرلے ۔اسی یوپی میں پیس پارٹی بھی ہے جسے اتحاد میں شامل نہیں کیاگیاہے ۔ ایم آئی ایم یہاں بہت زیادہ متحرک اور فعال ہے ۔ اس کے کئی سارے کاپوریٹر او پریشد ہیں لیکن اسے شامل نہیں کیاگیاہے ۔کانگریس یہاں تنہا الیکشن لڑے گی لیکن اس سے بھی توقع نہیں ہے کہ وہ کسی علاقائی پارٹی کو اپنے ساتھ اتحاد میں شامل کرے گی ۔بہار میں مہاگٹھ بندھن کی قیادت آرجے ڈی کے ہاتھ میں ہے جہاں اوپندر کشواہا کو این ڈی اے سے الگ ہوتے ہی سیکولر قرار دیکر اس اتحادمیں شامل کرلیاگیاہے ۔ مکیش سہنی ،مانجھی اور شرد یادو کی نوزائید پارٹیوںکو بھی اتحاد کا حصہ بنایاجائے گا جس کازمین پر کوئی وجود نہیں ہے نہ ہی کارکنا ن ہیں ۔ اسی ریاست میں گذشتہ پانچ سالوں سے مجلس اتحاد المسلمین سرگرم ہے ۔سیمانچل میں خاص طور پر اس کے کارکنا ن بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔2015 کے اسمبلی انتخابات میں اس کے چھ امیدواروں نے بہتر کارکردگی دکھائی تھی ۔کشن گنج لوک سبھا سے بہار آئی ایم ایم کے صدر اختر الایمان مضبوط امیدوار ہیں لیکن اسے اتحاد میں شامل کرنہیں کیا جارہاہے۔ آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی یوڈی ایف کا قد کانگریس کے برابر ہے ۔ لوک سبھا کی چودہ سیٹوں میںسے تین ایم پی کانگریس کے ہیں اور تین یو ڈی ایف کے ہیں ۔ایم ایل اے کی تعداد میں بھی زیادہ فرق نہیں ہے ۔ شروع سے یو ڈی ایف اپوزیشن کے ساتھ کھڑی رہی ہے ۔ہر موقع پر اس نے کانگریس او ردیگر اپوزیشن اتحاد کا ساتھ دیاہے لیکن اس کے باوجودکانگریس کی آسام یونٹ یو ڈی ایف کو اتحاد میں شامل کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔ کانگریس کی مرکزی قیادت آسام میں یو ڈی ایف کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کچھ نرم گوشہ اختیار کرچکی ہے لیکن صوبائی قیادت بی جے پی کی جیت کو روکنے کے بجائے یو ڈی ایف کو ہرانے پر توجہ دیتی رہی ہے ۔2016 کے عام الیکشن میں مولانا اجمل نے اتحاد کی بہت کوششیں کی لیکن کانگریس تیار نہیں ہوئی۔ 2019 کے بارے میں اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے ۔ایس ڈی پی آئی کے پاس ملک بھر میں مضبوط کیڈر ہے ۔ ہر معاملے میں یہ پارٹی اپوزیشن کا ساتھ دیتی رہی ہے ۔گذشتہ پانچ سالوں کے دوران سب سے زیادہ بی جے پی اور اس کی پالیسی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی اگر فہرست تیار کی جائے تو پہلا نمبر ایس ڈی پی آئی کا ہی آئے گا لیکن ان سب کو بی جے پی کے خلاف تشکیل پانے والے اتحاد سے دور رکھاجارہاہے ۔ کہیںبھی اس طرح کی کسی پارٹی کو شامل نہیں کیاجارہاہے کیوں کہ ان پارٹیوں کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ۔ ان کے سربراہ اعلی کا تعلق اسلام مذہب سے ہے ۔
2019 کے عام الیکشن میں تمام سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کی توجہ خود جیتنے کے بجائے بی جے پی کو ہرانے پر مرکوز ہے ۔اسی مقصد کیلئے یوپی میں ایس پی بی ایس پی نے اتحاد کیا ہے ۔ چندر شیکھر راﺅغیر کانگریسی غیر بی جے پی محاذ کی بات کررہے ہیں ۔ ممتابنرجی اپوزیشن پارٹیوں کو متحد کررہی ہیں ۔کانگریس نے پرینکاگاندھی کو سرگرم سیاست میں اتار دیاہے ۔لیکن یہ سب مسلمانوں کو علاحدہ رکھ کر کیا جارہاہے ۔دلتوں ،آدی واسیوں ،جاٹوں ،گجر سمیت تمام برداری ،طبقات اور گروپ کی بات کی جارہی ہے ۔ان طبقات کی ترجمانی کا دعوی کرانے والی پارٹیوں کو شامل کیاجارہاہے صرف مسلمانوں کو منظر نامہ سے غائب کیاجارہے اور یہ بے وجہ نہیں ہے کیوں کہ گذشتہ پانچ سالوں میں سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو بی جے پی سے اتنا خوف زردہ کردیاہے اب انہیں اقتدار میں حصہ داری کا مطالبہ کرنے میں شرم محسوس ہونے لگی ہے۔ ان کی اول آخری خواہش یہی رہ گئی ہے کہ ملک میں دوبارہ بی جے پی سرکار نہ بنائے ۔کوئی اور مودی ملک کے وزارات عظمی کے منصب پر فائز نہ ہو ۔اس خوف اور دہشت کے ماحول میں مسلم قیادت مکمل طور پر خاموش ہے ۔ ملی تنظیموں کے رہنما بھی مختلف زاویوں سے بی جے پی کو ہرانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں ۔ ان کیلئے یہ کا فی ہے کہ اگر بی جے پی کے علاوہ کوئی اور پارٹی حکومت بنائے گی تو وفد کے ساتھ وزیر اعظم ،وزیر داخلہ اور دیگر سربراہوں سے ملاقات کا راستہ ہموار ہوجائے گا ۔مسلم رہنماء،دانشوران اور قائدین اس سے پہلے بھی مسلم قیادت والی پارٹیوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور 2019کے عام انتخابات میں مزید قوت کے ساتھ کریں گے ،انہیں بی جے پی کا ایجنٹ قرار دیکر سرے سے مسترد کردیں گے ۔وہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی راہل گاندھی ، اکھلیش یادو ،تیجسوی یادو ،کمار سوامی ، اجیت چودھر ی ،اوپندر کشواہا پر بھروسہ کریں گے۔ بی جے پی مخالف اتحاد میں ایم آئی ایم ، ایس ڈی پی آئی ،پیس پارٹی۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا اور راشٹریہ علماءکونسل جیسی پارٹیوں کو شامل کرنے کا نہ کبھی دباﺅ بنائیں گے نہ کبھی مطالبہ کریں گے بلکہ وہ انہیں بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنٹ قرار دیکر یہی اعلامیہ جاری کریں گے کہ مسلمان سیکولر پارٹیوں کوووٹ دیں مطلب کسی بھی ایسے امیدوار کو ووٹ نہ دیں جس کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے کیوں کہ ۔۔۔۔۔۔اس موضوع پر ہمار ی گفتگو خبر در خبر کے اگلے کالم میں سلسلہ وارجار ی رہے گی ۔ گذشتہ دنوں میں ملک کے چند اہم ملی قائدین کے ساتھ اس مسئلے پر ہماری جو کچھ بات چیت ہوئی اسے بھی ہم پیش کریں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔ان کے نزدیک مسلمانوں کا سیاسی لائحہ عمل کیا ہے ؟۔
stqasmi@gmail.com