یوم جمہوریہ اور توقعات وخدشات

People hold Kurdish flags on September 22, 2017, on the Place de la Republique in Paris, as they attend a gathering in support of a "yes" vote ahead of an independence referendum for Iraqi Kurdistan due to be held on September 25. Iraq's Kurds have faced mounting international pressure, including from neighbouring Iran and Turkey, to call off the referendum that the UN Security Council has warned was potentially destabilising. / AFP PHOTO / Zakaria ABDELKAFI
احمد حسین قاسمی
       ۔                ہمارا ملک ہندوستان ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اور اسکے چند وجوہات ہیں اس ملک میں مختلف مذاہب متنوع کلچر تہذیب وروایات بستے ہیں یہاں مسلموں کے کندھے پر ہندووں کا ہاتھ ہوتاہےاور ہولی دیوالی میں مسلمان چراغاں کرتے ہیں اور برادران وطن کے قدم بقدم چلتے ہیں یہاں ہندو عید کی مبارکبادیاں دیتے ہیں اور سویاں کھاتے ہیں اور مسلمان انکے تہواروں ہولی دیوالی چھٹھ کے مواقع پر انکو مبارکبادیاں دیتے ہیں اور رفیق کار ہوتے ہیں یہاں پر مختلف موسموں میں مختلف تہواروں کے موقعوں پر مختلف الانواع تقریبات کا انعقاد عمل میں آتا ہے یہاں پر آسمانوں سے سرگوشیاں کرتا پربت ہمالہ ہے یہاں گنگا جمنا سرسوتی کا سنگم ہے یہاں دیگر ممالک اور اقوام عالم کے مقابلے شفافیت اور سادگی ہے یہاں پر لوگ ایک دوسرے سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں یہاں پر اکابرین کا احترام اور اصاغرین کی فکریں ہوتی ہیں ہمارا ملک عالی افکار اور وسیع الظرف ہے ہمارا ملک جسم کے اعضا ٕ کے مرکب کی طرح ہے یہاں پر دکھوں اور سکھوں کو با ہم تقسیم کیا جاتا ہے ہمارے ملک کو زمانہ سابق میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا مال و دولت کی افراط تھی چہار دانگ عالم میں اس کا سکہ چلتا تھا ہرسو شہرت وعزت تھی کبھی مغل آۓ کبھی خلجی کبھی غوری سب کو میرے مادر وطن نے اپنے دامن میں  جگہ دی اپنا یا اور حکومت وسلطنت کے اعلی مقام پر جلوہ نما فرمایا  حیف کہ جب ہمارا ملک ہر لحاظ سے خوش حال زندگی گزار رہاتھا نہ جانے کس طرح ہمارا یہ ملک عزیز گورے انگریزوں کی بد نیتی کا شکار ہوا اور اہل ہند غلام بنا لۓ گۓ اور انہوں نے اہل ہند پر خوب مصاٸب وآلام کے تیر برسا ۓ  اور اہالیان ہند کو ہراساں وپریشاں کیا بالآخر غیرت وحمیت جاگی طوق غلامی سے آزادی کا جزبہ پیدا ہوا اور مۓ حریت سے مخمور ہوکر اتحاد اتفاق کے پلیٹ فارم سے مجاہدین نے اوربطل حریت نے انگریزوں کو یہاں سے راہ فرار  اختیار کرنے پر مجبور کیا الغرض بڑی کاوشوں کوششوں جانفشانیوں کے بعد  15 اگست 1947 کو ہندوستان انگریزوں کے قبضہ وتسلط سے آزاد ہوا آزادی کے بعد متصلاً بہی خواہان ملک کو یہ فکر دامنگیر ہوٸ کہ ہمارا ملک کس منہج پر اور کس لحاظ سے آگے بڑھےاسکے قوانين اور آٸین کیا ہوں کیا حسب سابق پرانے قانون پر ملک چلتا رہے جو مغلوں کا بنایا ہوا اور فرنگیوں کا ترمیم کردہ ہے یا نۓ سرے سے قوانین و ضوابط مرتب کۓ جاٸیں مختلف آراٸیں سامنے آٸیں بالآخر اس نتیجے  پر پہنچے کہ ایک قانون ساز کمیٹی تشکیل دی جاۓ اور ایسا ہی ہوا اس وقت کے عظیم دانشوروں کی ایک جماعت کو جس میں این گوپال سوامی آینگر    اللادی کرشن سوامی ایر کنہیا لال منیکلال منشی سید محمد سعد اللہ این مادھو راو ڈی پی کھیتان کو تیار کیا گیا جس کا سربراہ بابا صاحب امبیڈکر کو بنایا گیا اور انکے ذمے قانون سازی کی ذمہ داری دی گٸ الغرض ان حضرات کا تیار کردہ قانونی مسودہ جرح وتعدیل کے مختلف مراحل سے گزر کرقانونی اور حتمی شکل اختیار کرگیا جس کومجلس عاملہ میں پاس کرانے کے  بعد 26 جنوری 1950   کو ہندوستانیوں پر نافذ کردیا گیا جس کی نسبت پر اس دن ہند کے مشرق ومغرب میں تعطیل رہتی ہے اور بلا امتیاز مذہب وملت خوشیاں مناٸ جاتی ہے بابا صاحب کے مرتب کردہ قوانین میں ہر فرقے، طبقے ہر قوم وجماعت کا خیال رکھا گیا تھا سب کو برابر کے حقوق دۓ گۓ تھے سب کو اپنا مقتدا اور رہنما منتخب کرنے کا حق دیا گیا تھا لسان تہذیب وثقافت مذہب وملت کی آزادی دی گٸ تھی ہر کسی کو اپنے مناسب رضامندی سے جیون ساتھی چننے کا ادھیکار دیا گیا تھا نۓ ہندوستاں کے بانیوں کو اس قانون سے جو توقعات اور امیدیں تھیں یہ اس پر کھرا اترا اور ایک نیا طاقتور ہندوستان معرض وجود اور منصہ شہود میں آیا ہندو مسلم اتحاد واتفاق کے ساتھ رہتے رہے اور اپنے منازل طے کرتے رہے لیکن چند سالوں سے بابا صاحب کے قانون کا جنازہ نکالا جارہاہے جمہوری اقدارکی تحفظ سے صرف نظر کیا جارہاہے مذہبی آزادی اوڑھنے پہننے کی آزادی بولنے کی آزادی راے قاٸم کرنے کی آزادی اپنے مذاہب وملل کے اشاعت کی آزادی سب چھنتی جارہی ہے اور قومی کو سارے ہندوستانیوں پر تھوپنے کی جبراً کوششیں ہورہی ہے ایسا خدشہ ہورہا ہےکہ ملک جمہوری نظام اور سیکولر اسٹیٹ سے منحرف ہوکر کسی اور جانب سرگرم سفر ہے آفرینندہ جہاں اس وطن عزیز کو بربادی اور بدحالی سے بچاۓ
 اعظم نگر کٹیہار بہار
Attachments area
SHARE