حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ ، مجاز و خلیفہ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ
ولادت: 20 نومبر 1953، وفات: 29 جنوری 2019
خالد انور پورنوی المظاہری
ضلع بھاگلپورکے ایک بستی ’’ کو روڈیہہ ‘‘ میں جناب ’’ ثابت حسین‘‘ ا بن جناب حافظ ’’ محفوظ حسین‘‘ مرحوم کے گھر ، 20؍نو مبر1953ء کو جناب مولانا محمدقاسم صاحب پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ’’ مدرسہ اسلامیہ اعزازیہ پتھنہ بھاگلپور‘‘ میں حاصل کی، پھر ’ مدرسہ اسلامیہ گیا‘‘ میں داخلہ لیا،اعلیٰ تعلیم کیلئے 1966میں ازہرہند ’’دارالعلوم دیوبند‘‘کاآپ نے رختِ سفر باندھا، داخلہ امتحان میں آپ کوکامیابی ملی،چارسال تک علوم نبوت سے آپ نے سیرابی حاصل کی،آخری سال بخاری شریف فخرالمحدثین حضرت مولانافخرالدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے،مسلم شریف مو لانا شریف صاحب ؒ سے، ترمذی مولانافخرالحسن صاحب سے، ابو داؤدمولانا عبدالاحد صاحب ؒ سے، نسائی مولانا حسین بہا ر ی صاحب ؒ سے، مؤطا اما م ما لک ؒ مو لانا نصیر احمد صا حب سے، مؤطا اما م محمد ؒ مو لانا نعیم الدین صاحب ؒ سے ،ابن ماجہ مو لا نا انظر شاہ کشمیری صاحب ؒ سے اور طحاوی شریف مو لانا اسلام الدین صاحب سے پڑھی،اور1970کے اوائل میں آپ فارغ التحصیل ہوئے،فراغت کے بعد اپنے استاذ محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کے حکم سے جنوری 1971 ء میں ’’مد رسہ حسینیہ بیگا والابجنور‘‘ تشریف لائے،اوردرس وتدریس کا آپ نے آغاز کیا ، تین سال تک پوری تندہی کے ساتھ تدریسی خدمات میں مشغول ومنہمک رہے ۔ پھر مدرسہ اشرف المدارس کلٹی ضلع بردوان‘‘ تشریف لے گئے ، جہاں چھ سال تک تیسرالمبتدی سے مختصر المعانی اور نورالانوار تک کتابوں کا بحسن وخوبی آپ درس دیتے رہے ۔ 20 ؍نو مبر 1979 میں ’’مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ‘‘ میں آپ کی بحالی عمل میں آئی۔نومبر2012ء کوملازمت سے سکبدوش ہوگئے۔
جناب مولانامحمدقاسم صاحب! دارالعلوم دیوبندمیں حدیث کی تعلیم حاصل کررہے تھے،ایک دن خواب میں دیکھا:کہ ایک شخص نے مٹھی بھر کھجور ان کے ہاتھ میں دیا،اپنے استاذمحترم جناب مولانا انظرشاہ کشمیریؒ سے خواب کی تعبیردریافت کی،انہوں نے کہا:اللہ تم سے کوئی دینی کام لے گا، اوردین کی خدمت کا موقع فراہم کریگا ۔ اس خواب نے موصوف کے دل میں امیدکی نئی کرن پیداکی،اوروہ اللہ سے دعائیں کرتے رہے :’’یااللہ مجھ سے کوئی دینی کام لے لے، اورمجھے دین کی خدمت کا موقع عنایت فرما۔‘‘مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ چونکہ صوبہ بہارکاایک قدیم اورسب سے بڑاادار ہ تھا،جہاں پرحدیث کی تعلیم ہوتی تھی،اس لئے آپ اللہ سے یہ بھی دعاء کرتے رہے کہ :’’یااللہ !مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ میں میری ملازمت ہوجائے،اورحدیث کادرس دینے کی توفیق مرحمت فرما۔اللہ نے تینوں دعائیں قبول فرمائیں، دین کی خدمت کا بھی وافر موقع عنایت فرمایا،درس قرآن وحدیث کی بھی توفیق عنایت فرمائی ،اور 1979ء میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے شعبۂ سینئرمیں تقرری ہوگئی۔
شہرپٹنہ میں قرآن کریم کی تفسیرکاکوئی رواج نہ تھا، یکم جنوری1980 میں مرکزی نوری مسجدپٹنہ میں جمعہ سے قبل خطبہ اورعصر کے بعدقرآن کریم کی تفسیر کا سلسلہ شروع کیا،ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ،اس کے علاوہ ہر اتوار کوجامع مسجد علی نگر کالونی ،اور سموارجامع مسجد پاٹلی پترامیں لوگوں کے ذہنوں کو اپیل کرنے والی زبان میں قرآن کریم کا درس دیتے ،جس وقت تفسیری سلسلہ آپ نے شروع کیاتھاتنہاتھے۔اور آج ایک تحریک کی شکل میں شہرپٹنہ کی تمام مساجدمیں درس قرآن کا اہتمام ہورہاہے۔جو بلاشبہ مولاناموصوف کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ ایک سرکاری ادارہ ہے،مگرآپ نے ایک تحریک کی شکل میں محنت، جدو جہد کی،اورشہرپٹنہ کیلئے اپنی قربانیاں پیش کرتے رہے، فدائے ملت حضرت مولاناسیداسعدمدنی نوراللہ مرقدہ نے جب آپ کے عوامی رابطہ کومضبوط ومستحکم اوربے مثال قربانی وجانفشانی کودیکھاتوبتاریخ 12؍نومبر1986ء کو شری کرشن میموریل ہال پٹنہ میں دینی تعلیمی بورڈ کے احیائے نو کے موقع پر جمہوری کنوینشن میں آپ کو دینی،تعلیمی بورڈ بہاروجھارکھنڈکا صدر منتخب فرمایا،صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعدآپ نے صوبہ بہار کے تمام اضلاع کادورہ کیا،اراکین بورڈسے دورہ کروایا، اورکثیرتعدادمیں صباحی وشبینہ مکاتب قرآنیہ قائم کئے۔
شہر پٹنہ میں کوئی عظیم،دینی ادارہ نہیں تھا،آپ اس کے لئے ہمیشہ فکرمند رہتے ،ایک بار اپنے پیرومرشد فدائے ملت،وامیرالہندحضرت مولانا سید اسعدمدنیؒ سے ذکر بھی کیاکہ پٹنہ میں ایک دینی ادارہ ہوناچائیے۔توحضرت ؒ نے فرمایا:ابھی نہیں،پٹنہ کی زمین سنگلاخ ہے۔اپنے استاذ محترم جناب مولانا سید ارشدمدنی صاحب سے تذکرہ کیاتو کہنے لگے: اگر مدرسہ قائم کرناہے تو اس کیلئے کم ازکم 16؍ کٹھہ زمین ہونی چائیے۔ مگرپٹنہ جیسی گنجان آبادی والے شہرمیں مدرسہ کیلئے زمین حاصل کرناکوئی آسان کام نہ تھااورنہ اتنے وسائل تھے کہ قلب شہرمیں اس کاکوئی انتظام کیاجائے،بے انتہائی سروسا مانی کے عالم میں آپ نے جگہ کی تلاش شروع کردی، ہرچہارجانب گردش لیل و نہارکے بعدپٹنہ سیٹی سے جانب مشرق پانچ کیلومیٹر کے فاصلہ پرتھانہ دیدارگنج سے متصل گنگا کے کنارے ’’سبل پور‘‘گاؤں پہونچے،جمعہ کی نماز میں تعلیم کے موضوع پرآپ نے لوگوں سے خطاب کیا، تو جناب مکھیاضیاء الہدیٰ صاحب نے سبل پور میں 50؍کٹھہ خالی اورویران زمین کی طرف توجہ دلائی کہ تم اسے ایک لاکھ روپئے میں خرید لو!
اسی دن آپ جناب حاجی بلال الدین صاحب کے ہمراہ اس خالی زمین کے محافظ ونگراں جناب سمیع احمدابن جمیل احمدمرحو م ایم ایل اے کے دولت کدہ پٹنہ سیٹی پہونچے۔مولانا نے بلاتمہید اپنی خواہش کا اظہار کیاکہ سبل پورکی فلاں زمین مجھے عنایت فرما دیں، موصوف نے برجستہ کہا: میں نے دے دیا،اورکہا:یہ آپ کامیرے اوپراحسان ہے میراآپ پراحسان نہیں۔چندماہ کے بعدجب انجنئرامیراحمدبن جسٹس خلیل احمدمرحوم اوران کے بھائی بہنوں سے ملاقات ہوئی تو خوشی کااظہارفرمایا،اورتمام حضرات کے مشورہ سے باضابطہ وثیقہ تیارکرکے یہ زمین مولاناکویہ دے دی گئی۔
دراصل1919 ء میں مالک زمین کے آباء و اجدادنے یہ وصیت لکھی تھی کہ آئندہ اس زمین پرمسجد،مدرسہ اورسرائے خانہ کی تعمیرہوگی،انہوں نے ایک کارخیرکی نیت کی تھی،اللہ نے مولانا موصوف کے ہاتھوں تکمیل کرادی، آج چھ ہزار اسکوائر فٹ کی عالیشان دومنزلہ مسجد تعمیر ہوچکی ہے ،مدرسہ میں سات سو طلبہ زیر تعلیم ہیں ، جن کے ذریعہ قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں گونج رہی ہیں،اور مسافروں کے لئے وہ سرائے خانہ بھی ہے ۔
1989ء میں جامعہ کاقیام عمل میں آیاتھا۔1990 میں بھاگلپور کے فساد زدہ مظلومین کے چار بچوں سے تعلیم کا آغازوافتتاح ہوا۔جناب مولانا محمد قاسم صاحب کی جہد مسلسل اورسعی پہیم سے آج جامعہ ایک تحریک کی شکل میں اپنی خدمات پیش کررہاہے۔
جامعہ مدنیہ اپنے ابتدائی مراحل سے گذررہاتھا،قرآن کریم کوتجویدکے ساتھ پڑھنے،پڑھانے پراپنا پور ا زورصرف کررہاتھا، مگرصوبہ بہارکاعمومی حال یہ تھاکہ تجویدوقرآت سے دوری ایک عام بات تھی،قرآن کریم کومجہول سے پڑھنے کارواج عام تھا،جامعہ مدنیہ سبل پورکے روح رواں جناب مولانامحمدقاسم نے جامعہ مدنیہ کے زیراہتمام ،بتاریخ 4؍5؍دسمبر1996ء ،آل بہارمسابقۃ القرآن الکریم کے انعقادکااعلان کیا،جامعہ کے اساتذہ نے وفدکی شکل میں پورے بہارکے مدارس کادورہ کیا،اورمسابقہ القرآن الکریم میں شرکت کی اپیل کی۔تقریباًسات سومدارس کے طلبہ اوراساتذہ بہارکی سرزمین پرمنعقدہونے والے سب سے پہلے مسابقۃ القرآن الکریم میں شرکت کی۔ڈاکٹراخلاق الرحمن قدوائی سابق گورنربہارنے جامعہ کے حسین اور دلکش منظر کو دیکھ کر کہا تھا:مولانامحمد قاسم نے آج جنگل میں منگل کردیا،جب کہ مولاناغلام محمدوستانوی نے اسے شاہی مسابقہ کہا۔اس موقع پر حضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب کی صدارت میں ایک عظیم الشان اجلاس عام بھی منعقد ہوا، حضرت مولاناقاری سیدمحمدعثمان صاحب استاذحدیث دارالعلوم دیوبند،حضرت مولاناسیدنظام الدین صاحبؒ سابق امیرشریعت بہارواڑیسہ،جھارکھنڈ، حضرت مولاناغلام محمدوستانوی صاحب رئیس جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر،ڈاکٹراخلاق الرحمن قدوائی سابق گورنربہار،جناب سمیع احمدپٹنہ سیٹی کے علاوہ معززعلماء کرام، دانشوران تشریف لائے،اورہزاروں کی تعدادمیں عوام نے بھی شرکت کی۔
آل بہارمسابقۃ القرآن الکریم کاانعقادصوبہ بہارکے مدارس ،علماء اورعوام کیلئے ایک نئی چیزتھی، لیکن جب شرکائے نے حضرات حکم کی جانب سے کئے جانے والے سوالات ،طلبہ عزیزکے جوابات، اورقرآن کریم کی پرسوزتلاوت وغیرہ غورسے سنااورآنکھوں سے دیکھا،توسب کے دلوں میں ایک نیاجذبہ پیداہوا،قرآن کریم کو تجوید کے ساتھ پڑھنے،پڑھانے کانہ صرف پیغام ملا،بلکہ ریاست بھرمیں ایک تحریک کی شکل میں تجویدکی فضاقائم ہوگئی۔
30؍مئی2003 کوجامعہ مدنیہ سبل پورپٹنہ کے زیراہتمام دوبارہ جناب مولانامحمدقاسم صاحب نے مسابقۃ القرآن ا لکریم کے انعقاد کااعلان کیا ، جس میں تین سومدارس کے طلبہ نے شرکت کی،پہلے مسابقہ کی طرح اس کے بھی مفیداثرات سامنے آئے،اور پورے بہارمیں ایک ماحول بن گیاکہ مدارس اور مکاتب میں انہی اساتذہ کو بحال کریں گے ،جو تجوید وقرات سے واقف ہوں۔
فتوحہ اور کچی درگاہ کے بیچ ایک مسجد پچاس ساس سے ویران پڑی ہوئی تھی،یہاں کے مسلمان بہت ہی غریب اور بھٹے پر کام کرتے تھے،2004ء میں لوگوں نے مسجدآپ کے حوالہ کیا،آپ نے مسجدکی صفائی کی،ایک امام اور ایک موذن مقررکیا،ازسرنواس کی تعمیرشروع کی،چھت کی ڈھلائی ہوچکی ہے،تعمیرکاکام باقی ہے۔ گاؤں میں دینی بیداری لانے کیلئے مدرسہ قاسم العلوم کے نام سے ایک مکتب قائم کیا،جس میں محلہ کے 35؍بچے ،بچیاں زیورتعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں۔
اس وادی غیرذی زرع پچاس کٹھہ کی زمین میں ایک چھوٹی سی مسجدبوسیدہ حالت میں پڑی ہوئی تھی،اس میں غلاظتوں کاانبارتھا،کوئی پرسان حال نہیں تھا،آپ نے مسجدکی صفائی کرائی،اوراذان سے اللہ کی صدائیں بلندکیں۔2002ء میں اس مسجدکی توسیع کرتے ہوئے ازسرنوحضرت مولاناسیدارشدمدنی صاحب دامت برکاتہم کے دست مبارک سے 7؍ہزاراسکوائرفٹ کی سہ منزلہ مدنی مسجد کی بنیادڈالی،جس پر ایک کروڑکی لاگت ہے،پہلی اور دوسری منزل کی تعمیرہوچکی ہے۔
پٹنہ شروع سے ہی علم وادب کاگہوارہ ،اورتہذیب وتمدن کاسرچشمہ رہاہے،یہاں سے نکلنے والے اخبارات نے لوگوں میں انقلاب پیداکرنے کی اہم کوشش کی ہے،مگراس کے باوجوددینی اوراصلاحی ماہنامے اورجریدے کارجحان بہت کم اورناکے برابرہے۔پٹنہ اوربہارمیں لوگوں کواس کااحساس توہوا،لیکن وسائل اس کیلئے رکاوٹ بنتے رہے،یاپھرآمدنی سے زیادہ خرچ کی وجہ سے لوگوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی،جناب مولانامحمدقاسم صاحب کواس کمی کااحساس ہوا،اور2003ء سہ ماہی ندائے قاسم کااجراء کیا۔اور اب ماہنامہ کی شکل میں دینی واصلاحی خدمات انجام دے رہاہے۔اور آج پٹنہ وبیرون پٹنہ میں ارباب فکر ونظر کی نگاہ میں اپنایک نمایاں مقام بنایاہے۔
جناب مولانامحمدقاسم کا قوم وملت سے گہرارشتہ تھا ،وہ اپنے وجود میں ایک دھڑکتاہوادل رکھتے تھے ،ریاست بہاربالخصوص بہارکی راجدھانی پٹنہ سے بہت ہی مقبول،اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،31؍اکتوبر 2012کی شام جب آپ نے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کا چارج سنبھالا،مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے وقار کو پھر سے بحال کرنے اور اسے نئی بلندیوں تک پہونچانے کے لئے تقریب صدسالہ کا اعلان کیا،اساتذہ ،طلبہ،ابنائے قدیم ،ریاست بہار کے تمام ملحقہ ،غیر ملحقہ مدارس کے ذمہ داران اساتذہ ،مدرسہ ایجوکیشن بورڈ،نے پرزور حمایت کی ،محکمہ اقلیتی فلاح کے سابق وزیر جناب شاہد علی خان،سابق وزیر تعلیم پی کے شاہی، داخلہ سکریٹری جناب عامر سبحانی ،اور شہر پٹنہ کی معززشخصیات نے مولاناموصوف کا بھرپور تعاون کیا،اور نہایت ہی شان وشوکت سے 21,21نومبر کو پروگرام کا انعقاد ہوا،جس میں معززوزیراعلیٰ نتیش کمار، سابق وزیرتعلیم جناب پی کے شاہی،جناب شاہدعلی خاں، جناب عامرسبحانی ،جناب مولاناقاری سیدمحمدعثمان صاحب، مولاناسیدمحموداسعدمدنی ، مولانا سید محمدولی رحمانی ، مولاناشوکت بستوی صاحب،،مولانامطیع الرحمن سلفی، مدنی،جناب حُسن احمدقادری،مولانامحمدناظم صاحب، اور دیگر معزز علماء کرام ا ور دانشوران شریک ہوئے۔جناب مولانامحمدقاسم صاحب کی انتھک کوشش کے نتیجہ میں 124بیڈ پر مشتمل ہاسٹل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کی معزز وزیراعلیٰ جناب نتیش کمار نے ریمورٹ کے ذریعہ بنیاد رکھی ۔اورمعززوزیراعلیٰ نے اپنے پُرمغزخطاب میں پرنسپل موصوف کی جلیل القدرشخصیت ، منفرد حیثیت، نمایاں خدمات،اورکارکردگی کابرملااعتراف کرتے ہوئے کہا:وہ تومولانامحمدقاسم صاحب کوبہت پہلے سے جانتے ہیں، اورجب عیدین کی نمازکے موقع پرمسلمانوں کو عیدکی مبارکبادی پیش کرنے کیلئے گاندھی میدان پہونچتے ہیں تو مولاناہی کاخطبہ ہوتارہتاہے،سب سے پہلے آپ ہی سے ملاقات ہوتی ہے،مصافحہ کرکے عیدکی مبارکباد دیتا ہو ں ، وزیراعلیٰ نے پرنسپل موصوف کی خوبیوں کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا: یہ اپنے کام میں پوری دلچسپی سے سرگرم رہتے ہیں،سب کو ساتھ لیکرچلتے ہیں،اورسب لوگوں کابھروسہ ہے آپ پر، مدرسہ کی ترقی کیلئے جو تجویز بنانی ہو،بنالیجئے،ہم پوری مددکریں گے۔دیگرمقرروں نے بھی مولاناموصوف کے اس جرأت مندانہ اقدام کوسراہتے ہوئے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کی شاندارتاریخ کاتذکرہ کیا، اس طرح مدرسہ شمس الہدیٰ کی اچھائیاں اجاگرہوگئیں۔اورلوگوں کوسمجھ میں آیاکہ مدرسہ اسلامیہ شمس لہدیٰ کی سوسالہ تاریخ بہت ہی تاریخی اہمیتوں کاحامل ہے۔
جناب مولانامحمدقاسم صاحب کی ؒ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اتحاد کے علمبردار تھے،ہمیشہ امن کی باتیں کرتے،اور لوگوں کو امن کادرس دیتے،گاندھی میدان میں 26؍ سال تک امامت کافریضہ انجام دینے کے باوجود، مگرپھربھی وہ ہرمکتبہ فکرکے لوگوں میں پسندیدہ شخص تھے،اس لئے کہ ا س 26؍ سال کے عرصہ میں انہوں نے ہمیشہ اتحادکی آوازبلندکی،امن وآمان اوربھائی چارگی کی دعوت دی،اوراختلافات کی مسموم ہواؤں سے انہوں نے اپنے آپ کو پاک رکھا۔30؍سال سے زائد عرصہ انہوں نے نوری مسجدپٹنہ میں قرآن کریم کادرس دیا،ہمیشہ آپ نے اصلاحی باتیں کیں،اللہ کے گھرکو پیارے نبی کی پیاری باتوں کے ذریعہ سجائے رکھا،کبھی بھی اپنی بات کے ذریعہ بگاڑپیداکرنے کی کوشش نہیں کی،تمام مکتبہ فکرکے لوگ شریک درس قرآن ہوتے،اس کے علاوہ مولانا موصوف ملک کے دینی ،ملی اور اصلاحی پروگراموں میں بھی شریک ہوتے،اوراپنے پرمغز،سنجیدہ خطاب سے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کومستفیض کرتے تھے، اور سبھی حضرات نہایت ہی شوق ورغبت سے اسے سنتے۔
العین میں حضرت مولانامحمدقاسم صاحب کی، ایک لحیم وشحیم مفتی صاحب سے ملاقات ہوئی ،وہ کسی جماعت کے بارے میں اختلافی باتیں کررہے تھے،مولانانے کہاگاندھی میدان پٹنہ میں 20سال سے میں امامت کررہاہوں ؛لیکن کبھی میری زبان سے کسی کے خلاف کوئی بات نہیں نکلی ہے ،مفتی صاحب خوشی سے جھوم اٹھے،اور پرزور ،والہانہ انداز میں مولاناسے انہوں نے معانقہ کیا۔
قوم وملت کیلئے ان کی چالیس سالہ قربانیاں قابل تقلیداورقابل نمونہ ہے،ان کی خدمات کادائرہ بہت ہی وسیع اورناقابل فراموش ہے،معہدارشدکوروڈیہہ بھاگلپورکے ذریعہ علم کی شمع روشن کرنا،مجیب پورفتوحہ میں پچاس سالہ ویران مسجدکوآبادکرکے ایک علم کاچراغ جلادینا،دیہاتوں ،گاؤں اورشہروں میں جاجاکرقرآن کریم کی تعلیم کیلئے لوگوں کوبیدارکرناان کامشغلہ تھا ،ان ساری ذمہ داریوں کے باوجودوہ جمعیۃ علماء ہندکی مجلس عاملہ کے رکن ،دارالعلوم دیوبندکی تنظیم ،رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی شاخ ریاستی بہارکے رابطہ مدارس اسلامیہ کے صدر،جمعیۃ علماء بہارکے صدربے شمارمدارس ومکاتب کے سرپرست،اوردینی وعلمی مجلسوں کے عہدہ صدارت پرمتمکن ہوئے اور ملک وقوم کے لئے آپ نے اپنی زندگی کووقف کردیا،اور آج مورخہ 29جنوری 2019کو پارس اسپتال میں وہ انتقال کرگئے۔
جناب مولانامحمدقاسم گذشتہ کل مورخہ 27جنوری کو مرکزی نوری مسجد پٹنہ میں مغرب کی فرض نماز کی ادائیگی کے بعدنماز سنت کے لئے نیت باندھ رہے تھے کہ وہ گرگئے،فوراپی ایم سی ایچ ۔پھر مگدھ اور اس کے بعد وہاں سے پارس لیجایاگیا،ڈاکٹروں کی ٹیم نے برین ہمریج بتاتے ہوئے مورخہ28جنوری کی صبح چاربجے آپریشن کیا،چار،پانچ گھنٹوں کی کامیاب آپریشن کے بعدصورتحال بگڑتی گئی، اور مورخہ 29جنوری کی صبح کے تین بج کر دس منٹ میں انتقال فرماگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون