زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے  مولانا محمد واضح رشید ندویؒ

   مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی 

     سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر بہار

عزیزم احتشام سلمہ نے صبح نو بجے خبردی کہ مولانا واضح رشید ندوی صاحب ؒاللہ کے دربار حاضر ہوگئے ۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔ بے اختیار زبان سے نکلا ،آگے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں تھی ،دماغ جیسے ایک نقطہ پرٹھہرگیا، بحمداللہ مولانانے عمر پچاسی کے آس پاس پائی، اس عمر کو بڑھاپے کا اگلا مرحلہ کہنا چاہئے ،اس عمر میں بوڑھا جن مصائب و مشاکل میں گھر جاتا ہے ان سے ہمارے مولانا واضح رشید ندویؒ صاحب دور تھے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ارادہ کی زندگی گذار رہے تھے اس عمر میں اعذاری، بیماری ،ساتھی بن جاتے ہیں،مگر اللہ کا فضل خاص تھا وہ معذوری اور مجبوری کی زندگی سے دور تھے بس موت کا وقت آچکا تھا دیکھتے دیکھتے چلے گئے۔ ۵۱جنوری کی رات کو کھاپی کر ٹھیک ٹھاک بستر پر گئے،تہجد کیلئے جاگے وضوکیا ،مصلیٰ کی طرف جانے لگے کہ پیٹ میں تیز درد اٹھا اتناکہ بستر پربیٹھ گئے ،پھر بے قابو ہوکر لیٹ گئے ،ایک طرف درد بڑھتا رہادوسری طرف اللہ کی یاد تیز تر ہوتی گئی آدھے گھنٹہ کی کشمکش کے بعد جان دینے والے کو جان دیدی ۔

خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

مولانا کے سفر آخرت کے بعد بھی نہ جانے کیوں یہ احساس ذہن کے پردہ پر ابھرتا رہا ڈوبتا رہا کہ کچھ دنوں اور جی لئے ہوتے ۔پہلے تو چاروں قل پڑھ کر ایصال ثواب کیا پھر مونگیر فون کیا تاکہ جامعہ رحمانی میں ختم قرآن اور ایصال ثواب کیا جائے، وہاں یہ خبر کسی طرف سے پہونچ چکی تھی۔دیر تک یادوں کی یاد آتی رہی، وہ یاد آیا مولانا سے پہلے پہل کی ملاقات ،ندوہ کا مہمان خانہ ،حضرت مولانا علی میاں ؒ مہمان خانہ کے ہال میں جلوہ افروز،بریف کیس کھلا ہوا ،ایک صاحب قلم کاغذ کے ساتھ تیار، خط لکھایا جارہاتھا میں ملاقات کرکے نکلا دوسری طرف سے مولانا واضح رشید صاحب ؒ برآمد ہوئے ، شکل و صورت سے سمجھا کہ یہ حسنی خاندان کے فرد ہیں ، سفید و سرخ رنگت، سیاہ داڑھی ، اچھی سلی شروانی زیب تن، اٹھائیس تیس کے رہے ہونگے ، سلام و مصافحہ کے بعد انہوں نے پوچھا ” آپ حضرت مونگیری ؒ کے پوتے ہیں “ ، سمجھ گیا کہ ابھی اندر ان تک خبر پہونچی ہے میں نے نیاز مندانہ ” جی “ کہا ” محنت سے پڑھئے “ انہوں نے کہا اور آگے بڑھ گئے ، معلوم ہوا کہ یہ مولانا واضح رشید ندوی صاحب ہیں میری طالب علمی کا زمانہ تھا اور یہ پہلی ملاقات تھی ، اچٹتی ہوئی ۔

پھرمولانا سے دہلی میں ملاقات ہوئی ، وہ فراشخانہ میں رہا کرتے تھے میں مسجد فتحپوری کے ایک کمرہ میں ٹھہرا ہوا تھا، اب یہ یاد نہیں کہ شان نزول کیا تھا مگر میں مولانا عمیدالزماں صاحب کے ہمراہ ان کے گھر نازل ہوا تھا ، پھر دوچار ملاقاتیں اور ہوئیں، سرراہے گاہے گاہے۔ وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے اور کسی معیاری منصب پر تھے شعبۂ عربی سے وابستہ تھے ، اس زمانہ میں مرکز تبلیغ بستی حضرت نظام الدین اکثر جمعرات کو جایا کرتے تھے، یہ ان کے اندرسے مسلمان ہونیکی علامت تھی پھر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب ؒ سے ارادت و عقیدت بڑھتی رہی اور ان کے اندر کا مسلمان ریڈیو کی نوکری کے ساتھ ساتھ اللہ اللہ کرنے لگا اور آہستہ آہستہ ان کا مزاج ذکر و اذکار ، تسبیح و وظیفہ کا بن گیا، تصوف سے خاص مناسبت ہوگئی، تجربہ کی بات ہے یہ کافر جب منہ کو لگ جاتی ہے تو پھر چھوٹتی نہیں ۔ ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ نوکری سے دل اچاٹ ہوگیا ، حالانکہ اچھی خاصی تنخواہ تھی ، اور ذمہ داری ہلکی پھلکی، لیکن ریڈیو کی ملازمت کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہ دیا ، اور دہلی کو بھی خیرباد کہہ گئے ۔

کچھ دنوں غور فکر میں گذارا ہوگا، پھر علم دین کی خدمت کے جذبہ نے دارالعلوم ندوہ میں طلبہ کو پڑھانے ، ان کو بنانے سنوارنے، ان کی تربیت کرنے میں لگ گئے ، ہزاروں سے سیکڑوں تنخواہ پر آگئے ، یہ ۱۹۳۷؁ء کی بات ہے، انہیں زبان و ادب سے بڑی مناسبت تھی ، عمر کا بڑا حصہ عربی اور عالم عرب کو پڑھنے میں گذارا،عربی گویا مادری زبان بن گئی تھی ، زبان کے زیر و بم سے واقف ،الفاظ کو سجانے اور برتنے سے آگاہ ،مترادفات کا بھرا پُرا سرمایہ کے مالک تھے ،مگر سادگی ایسی کہ یہ سارے ہنر، پیمانہ علم میں چھلکتے نہ تھے بس کبھی کبھار لکھنے اور طلبہ کی کاپیوں پر اصلاح دینے میں برتے جاتے تھے،اسلئے خموشی اور استقامت کے ساتھ طلبۂ دارالعلوم ندوہ کی طرح طرح سے تربیت کرتے رہے اور اپنی آخرت سنوارتے رہے۔طلبہ کے مضامین پربڑی دلچسپی کے ساتھ اصلاح کیا کرتے تھے۔ ندوہ سے نکلنے والے ” الرائد “ کے نگراں اور سرپرست تھے ،البعث الاسلامی کے شریک مدیر تھے، اور دونوں میں آپ کے مضامین آتے رہتے تھے۔ اردو تو مادری زبان تھی اسمیں مضامین لکھتے جو تعمیر حیات اور راشٹریہ سہارا (روزنامہ) میں چھپتے رہے ہیں۔ عربی زبان و ادب میں مہارت کے ساتھ عرب ممالک کی تاریخ، جغرافیہ ، عربوں کے فکری رجحانات ، سیاسی اتار چڑھاؤ پر گہری نظر تھی، مگر وہ کم لکھتے تھے ، بولتے بھی اسی تناسب سے تھے ، مگر طلبہ کے سامنے کھل جاتے تھے ، یا پھر اک ذرا چھڑئیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے ، سوال پرسوال کیجئے تو وہ کھلتے تھے ، ورنہ ان کی ردائے علم پر برف کی چادر پڑی رہتی تھی، ان کا اندرون بہت ٹھہرا ہوا تھا ، نمایاں ہونے اوراپنے آپ کو ظاہر کرنے کی کوئی رمق دل میں نہ تھی ،یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذکر و فکر نے ان کے جی کونفس مطمئنہ بنادیا تھا، وہ اظہار کی ہر قسم سے بے نیاز تھے، ورنہ مشاہدہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کا کبر بانداز تواضع ہوا کرتا ہے، اور ” اظہار “ کے نت نئے طریقہ اپناتا ہے۔ 

اتنی باصلاحیت زندگی کے گذرجانے سے دل پر کیا گذری ، کیسے کہا جائے، سونچتا ہوں کہ حضرت مولانا محمد رابع صاحب مدظلہ پر کیا گذری ہوگی ، وہ نہ صرف حضرت مولانا کے چھوٹے بھائی تھے بلکہ ان کے دن رات کے ساتھی ، دکھ سکھ کے شریک، بیدار مغز مشیر،اور سردوگرم کے رفیق تھے قوم وملت کے مسائل پر حضرت مولانا کو ان پر بڑا اعتماد تھا ، بڑھاپے میں انسان کو اچھا ساتھی ، عمدہ رفیق اور بہتر مشیرکی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ حضرت مولانا بحمداللہ عمر کے جس مرحلہ میں ہیں اچھے رفیق عمدہ ساتھی اور بالغ نظر مشیر کی ضرورت بھی ان سے پوری ہوتی تھی۔

احساس کا یہ سفر دیر تک جاری رہا جب ٹوٹا، تو خیال آیا کہ جنازہ کی نماز میں شرکت کی جائے ،میاں احتشام نے بتایا کہ اندنوں پٹنہ سے لکھنو ¿ کیلئے صرف ایک فلائٹ ہے وہ بھی رات کے سوا آٹھ بجے ،معلوم ہوا ¿ کہ جنازہ کی دوسری نماز بعد مغرب رائے بریلی میں ہوگی مگر پہونچنے کی کوئی راہ نہیں تھی نہ براہ راست لکھنؤ اور نہ براہ دہلی، پھر بھی فیصلہ یہی ہوا کہ چلا جائے ۔اور رات کے ساڑھے نوبجے لکھنؤ پہونچا ، ایرپورٹ پر امیر خالد خان صاحب (سکریٹری جنرل ملی کانسل یوپی)کے بڑے بھائی ندیم خانصاحب منتظر تھے ،انکے ہمراہ یہ چھوٹا سا قافلہ ندوہ پہونچ گیا۔ رات مہمان خانہ میں جاگتے سوتے گذری ۱۷ جنوری کو دن اُٹھتے کچھ لوگ آگئے، قصہ مختصر دن کے ساڑھے گیارہ بجے تکیہ کلاں (رائے بریلی ) پہونچے۔ حضرت مولانا محمد رابع صاحب زید مجدھم اور افراد خاندان سے تعزیت کی، تعزیت بھی کیا کی جاتی ، حادثہ جانکاہ اور الفاظ کے دامن چھوٹے ، بس دو چار جملے حضرت مولانا سے کہے، اور خاموش بیٹھا رہا ، پھر مقبرہ شاہ علم اللہ میں فاتحہ پڑھی۔

لانبے عرصہ کے بعد ” تکیہ“ آنا ہوا، یہ تکیہ حضرت شاہ علم اللہ رحمۃ اللہ علیہ (۳۳۰۱ ئ-۶۹۰۱ھ ) کا آباد کیا ہوا ہے، حضرت شاہ صاحب، حضرت سید آدم بنوری رحمة اللہ علیہ (م ۳۵۰۱ھ) سے بیعت تھے، انہوںنے ہجرت اختیار کی، کہا جاتا ہے کہ حضرت شاہ علم اللہ اپنے مرشد کے ہمراہ جانے کا عزم رکھتے تھے، مگر مرشد نے کہا کہ اگر کوئی اللہ والا روکے تو رک جانا ، وہیںدریا کے کنارہ شاہ عبد الشکور مجذوب کی کٹیا تھی، انہوں نے حضرت شاہ علم اللہ کو سفر ہجرت سے روکا ، حضرت شاہ علم اللہ رحمة اللہ علیہ نے استخارہ کیا اور سفر کا ارادہ ختم کردیا، وہ شاہِ مجذوبؒ حضرت شاہ علم اللہ رحمة اللہ علیہ کو قریب ہی سامنے لے گئے، اور لکیر کھینچ کر بتایا کہ یہاںآپ کی مسجد بنے گی،پھر اس کے پورب گئے اور نشان لگایا اور کہا کہ یہاں آپ کی قبر بنے گی، پھر مسجد کے نشان کے سامنے پورب جانب کچھ فاصلہ پر گئے ، لکیر کھینچی اور شاہ مجذوب نے نشان کھینج کر بتایا کہ یہاںآپ کا مکان بنے گا___ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ سامنے آئی،کہ شاہ مجذوب کی باتیں بعد میںحقیقت بن گئیں،حضرت شاہ علم اللہ رحمة اللہ علیہ ۳۸۰۱ھ میں سفر حج سے واپس تشریف لائے ، تو اپنے صاحبزادوں کے ہمراہ مسجد کی تعمیر فرمائی، یہ مسجد وہیںبنی جہاںلکیر کھینچی گئی تھی، یہ یاد گار مسجد حضرت شاہ علم اللہ رحمة اللہ علیہ،حضرت سید احمد شہیدؒ اور کئی اولیاء اللہ کی عبادتوں کی گواہ ہے۔

یہ مسجد اس زمانہ کے لحاظ سے پختہ تھی، اور عام مسجدوںسے الگ چوکور تھی ، حضرت شاہ علم اللہ رحمۃ اللہ علیہ تازہ تازہ حج کرکے آئے تھے انہوںنے سونچا کہ کچھ تو خانہ کعبہ سے مشابہت ہونی چاہئے، اسی ذہن کی وجہ سے مسجد چو کھٹی بنائی ، اب اس مسجد کے اتر اور دکھن چھت دار حصہ کا اضافہ ہوگیا ہے، اور صحن بھی پختہ پلاسٹر کردیا گیا ہے ___ ایک دفعہ والد ماجد حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تکیہ پہونچے ، جمعہ کا دن تھا ، حضرت مولانا علی میاں صاحب موجود تھے ، انہوں نے جمعہ کی امامت پر اصرار کیا اور فرمایا کہ امیر شرعی کا حق ہے،کہ وہ امامت کرے اور موجود حاضرین پر اقتدا کی ذمہ داری ہے۔

 اس مسجد کے پورب کچھ فاصلہ پر رہائش گاہ بنی جو شاہ عبد الشکور مجذوب کے نشان پر تھی ، اس رہائش گاہ میں زمانہ کے لحاظ سے تبدیلی آتی رہی، ابھی یہ عمارت پرانی مگر پختہ ہے، اس مکان میں کئی اللہ والے اور اصحاب علم و کمال نے آنکھیں کھولیں، یہی وہ مکان ہے، جس میں مشہور عالم، اللہ والے اور دین کے لیے جان نچھاور کرنے والے حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۲۱ھ-۶۴۲۱ھ) پیدا ہوئے، جن کا شوق جہاد، دینی حمیت وغیرت اور مستقبل کی فکر مندی اور پلاننگ نہ بھلائی جانیوالی ہے، حضرت سید صاحب ، حضرت شاہ علم اللہ کے پوتے مولانا سید محمد نوربن سید محمد ہدیٰ ؒ کے پوتے ہیں، اسی مکان کا مقدر تھا کہ وہ حضرت مولانا عبد الحیٔ حسنی ؒ اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ (۳۳۳۱ھ – ۰۲۴۱ھ روز جمعہ/۵ دسمبر ۳۱۹۱ء۱۳ دسمبر ۹۹۹۱ئ) کا مولد بنے، کئی صاحبان دل کی زندگیاں اس مکان سے وابستہ ہےں، ضروت کے مطابق مکان میں اتر جانب اضافے ہوتے رہے ہیں، اور الحمد للہ چار صدیوں سے یہ جگہ آباد ہے۔

مسجد شاہ علم اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے پورب دکھن کونہ پر صحن کی انتہاءکے ساتھ مقبرہ شاہ علم اللہ ہے، مسجد کی زمین سے مقبرہ کی زمین تین فٹ اونچی ہوگی ، اب چہاردیواری کے اندر مقبرہ ہے، اور پچھم جانب اس کا دروازہ ہے، وہ بھی تین فٹ اونچا ہوگا، مقبرہ کے اندر جائیے تو سب سے پہلے حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ (علی میاں صاحب) کی قبر ہے، ان کے بعد پورب جانب حضرت شاہ علم اللہ کے بڑے صاحبزادے حضرت شاہ آیت اللہ ؒ (۶۱۱۱ھ ) کا مزار ہے، ان کی سید ھ میں پورب جانب حضرت شاہ علم اللہ رحمۃ اللہ علیہ آرام فرما ہیں، اُن کے پہلو میں ان کی اہلیہ محترمہ ہیں، اور ان کے بعد سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے صاحب سلسلہ بزرگ شاہ محمد عدل صاحب (شاہ لعل -۳۹۱۱ھ ) آرام کررہے ہیں، حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ کے سرہانہ مولانا محمد ثانی حسنی(۲۰۴۱ھ) آرام فرما ہیں، ماہنامہ رضوان، لکھنؤ کے ایڈیٹر ، آسان اردو نثر لکھنے کے ماہر ، مزاج میںیک گونہ بیخودی اور وارفتگی تھی ، بہت ڈوب کر کہتے اور احساس دل کو شعر کے قالب میں ڈھال دیتے تھے ، ہم لوگوں کے دیکھتے دیکھتے وہ بھی چلے گئے۔ 

مولانا محمد ثانی حسنیؒ کے پورب مولانا محمد الحسنی صاحبؒ محو استراحت ہیں، وہ عربی زبان و ادب کے ماہر ، اونچے درجہ کے انشاءپرداز ، عرب کے پایہ کے ادیبوں کی طرح عربی لکھتے تھے، رواں دواں زبان، اس پر قرآن وحدیث کے نگینے خوبصورتی سے ٹانک دیتے تھے، ماہناہ البعث الاسلامی کے رئیس التحریر تھے، نہ جانے کیا ہوا جلد چلے گئے، دادا جان حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ کی سوانح انہوں نے لکھی ہے ___ ان کے پورب ڈاکٹر عبد العلی صاحبؒ (۱۸۳۱ھ) (حضرت مولانا علی میاں صاحب ؒ کے بڑے بھائی اور مربی) حضرت شاہ علم اللہ کے ٹھیک سرہانہ آرام فرما ہیں، ان کے پورب سید احمد سعید ؒ ابن شاہ ضیاء النبیؒ (۳۷۳۱ھ) لیٹے ہیں، جو حضرت مولانا علی میاں صاحب ماموں اور خسر تھے اور ان کے بعد بجانب پورب شاہ ضیاء النبی کی صاحبزادی (۳۲۳۱ھ ) ہیں ، جو حضرت مولانا علی میاں کی خالہ ہیں، خاندان حسنی کی مشہور شخصیت مولانا ابو بکر حسنیؒ کے والد ماجد مولانا عزیز الرحمن صاحب (۷۷۳۱ھ) کی قبر حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ کے ٹھیک دکھن میں ہے، ان کے بعد حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ کی ہمشیرہ امۃ العزیز صا حبہ آرام فرما ہیں، آپ کے بعد پورب جانب حضرت شاہ علم للہ کے ٹھیک دکھن پائیتی میں حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ والد اور مشہور مصنف حضرت مولانا عبد الحئی حسنیؒ ( ۱۴۳۱ھ) محو استراحت ہیں، اُن کی اہلیہ خیر النساء بہتر صاحبہ ۱۸۳۱ھ (والدہ حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ) کامرقد ہے، اور ان کے پورب ان کی مشہور عالمہ صاحبزادی ، زادسفر اور بچوں کے لیے قصص الانبیاء لکھنے والی جنابہ امۃ اللہ تسنیم صاحب( ۵۹۳۱ھ) آرام کررہی ہیں۔ مسجد کے پورب اتر کونہ پر ڈھائی فٹ کی دیوار کے اندر دو قبریں ہیں ایک حضرت شاہ علم اللہ کے صاحبزادہ سید ابو حنیفہ ؒ کی اور دوسری حضرت سید احمد شہید کے والد ماجد مولانا سید عرفان کی۔

مسجد کے پچھم اتر حصہ میں خاندان حسنی کے بعض دوسرے بزرگ آرام فرما ہیں، جن میں مولانا سید قطب الہدیؒ علمی دنیا کا مشہور نام ہے اور ان کے ہاتھ کا لکھا ترمذی شریف کا نسخہ کتب خانہ ندوة العلماءلکھنؤ میں محفوظ ہے، ان کے والد ماجد مولانا واضح حسنی ؒ (۰۰۲۱ھ) تھے، جنہیں سلسلہ قادریہ کی اجازت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے حاصل تھی، وہ بھی یہیں آرام فرما ہیں، حضرت سید احمد شہید کے خلیفہ مولانا محمد ظاہر حسنیؒ بھی یہیں محو خواب ہیں، مشہور مؤرخ اور مصنف مولانا فخر الدین حسنیؒ اور حضرت شاہ ضیاء النبی حسنیؒ بھی اسی قبرستان میں لیٹے ہوئے ہیں، حال کے لوگوںمیں مولانا ابو بکر حسنیؒ کی آخری جگہ یہی قبرستان ہے، مسجد کے پچھم دکھن سمت میں مولسری کے سایہ میں حضرت شاہ علم اللہ کے ایک صاحبزادہ حضرت سید محمدجی آرام فرما ہیں، اسی درخت کی چھاؤں تلے حضرت مولانا علی میاں صاحب کے کئی رفقاء اور خدام لیٹے ہوئے ہیں، جن میں مولانا اسحاق جلیس ندوی مدیر تعمیر حیات لکھنؤ (ولادت ۴۳۹۱ء بمقام پونا وفات ۹۹۳۱ھ ۹۷۹۱ء) مولانا انوار ندوی ، مولانا نثار احمد ندوی ، بھائی عبد الرزاق صاحب اور مولانا نثار الحق ندوی صاحب ہیں، مولانا نثار الحق ندوی بڑی خوبیوں کے مخلص انسان تھے، بہادر پور، سیوان بہار کے رہنے والے ، حضرت مولانا علی میاں صاحب کے کاتب تھے، حضرت مولانا اور ان کا شان خط بہت ملتا تھا، تکیہ پر جو لوگ تعویذ کی فرمائش کرتے ان کی یہ ضرورت وہی پوری کرتے تھے، تکیہ اور خانقاہ کو تعویذ سے چھٹی نہیں ہوتی۔

مسجد کے ٹھیک اتر تھوڑے فاصلہ پر شکستہ چہار دیواری دو ڈھائی فٹ اونچی ہے، جس میں حضرت شاہ علم اللہ کے صاحبزادہ مولانا سید محمد ہدیٰ اور اسی خاندان کے مولانا سید محمد نثارؒ کی مٹی مٹی سی قبریںہیں، مولانا عبد اللہ حسنی صاحب کی آخری آرام گاہ یہیں بنی، جو دارالعلوم ندوة العلماءکے اونچے درجہ کے استاذ اور تقوی وطہارت میںممتاز تھے، ان کے پورب مولانا واضح رشید ندوی (۰۴۴۱ھ) کے لیے جگہ چنی گئی اور چند گھنٹوں قبل وہ پیوند زمین ہوگئے رحمہم اللہ علیھم جمیعا وتقبل جہورھم لصالح الاسلام والمسلمین وادخلھم فسیح جنانہ ورزقہم ثمار الجنة ونعیمہا آمین

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

ساری قبریں کچی ہیں، بس مٹی کے ڈھیر، نہ لوح تربت نہ پختہ مزار، نہ حاشیہ مزار، نہ گنبد وقبہ سادگی ہی سادگی ، خاموشی ہی خاموشی، مٹی کے ڈھیر میں کئی لعل و گہر دفن ہیں    

بعد از وفات تربت مادر زمیں مجو

در سینہائے مردم عارف مزار ماست

اب روانگی کا وقت تھا ___ حضرت مولانا محمد رابع صاحب مدظلہ نے بار بارکھانے کے لیے کہا ، مگر خواہش بالکل نہ تھی ، دوپہر ہی میں تھکے قدموں، شکستہ دل اور بوجھل دماغ کے ساتھ کار پر آبیٹھا، دیر ہوچکی تھی، اب چودھری چرن سنگھ ایرپورٹ لکھنؤ پہونچنا تھا، روانہ ہوگیا، منزل آئی، تو معلوم ہوا کہ جہاز ڈھائی گھنٹہ تاخیر سے آرہا ہے، وقت کا اچھا مصرف تھا کہ مولانا واضح رشید ندوی پر کچھ لکھدیا جائے، اور ایر پورٹ کی ہماہمی کے درمیان یہ سطریں پوری ہورہی ہیں۔