خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی شخصیت نئی نسل کے علماء کیلئے مشعل راہ 

شمس تبریز قاسمی

خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ بر صغیر کے نامور عالم دین ، عظیم محدث ، باکمال منتظم ، کامیاب مدرس اور عظیم دانشور تھے۔ اکیسویں صدی کی وہ نایاب عبقری شخصیت اور نابغۂ روزگار عالم دین تھے ۔ انہوں نے فروغ علم، سماج کی اصلاح، ملت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی ، ملک کی فلاح ،معاشرہ کی بھلائی سمیت دسیوں میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔

حضرت مولانا سالم قاسمی خانوداہ قاسمی کے چشم و چراغ تھے ۔ بانی دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم ناناتوی کے پڑ پوتے اور حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمہم اللہ کے بیٹے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آپ کا سلسلہ نسب ملتاہے ۔ خاندانی نسبت کے ساتھ خود آپ کی شخصیت انمول ، نایاب اور عظیم تھی ۔ علم و عمل کا پہاڑ ، منکسرالمزاج اور وسیع المشر ب عالم دین تھے ۔ بر صغیر میں ملت اسلامیہ کے عظیم رہنما، باکمال عالم دین اور دور اندیش مفکر تھے ۔ دارالعلوم وقف دیوبند کے صدر مہتمم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر ہونے کے ساتھ دسیوں ملی تنظیموں کی نمائندگی آپ کررہے تھے ۔

ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی بین لاقوامی سمینار سے خطاب کرتے ہوئے

 8 جنوری 1926 میں آپ کی ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم مختلف اساتذہ سے انفرادی طور پر حاصل کی، ثانوی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور وہیں سے 1367 میں فضیلت کی تکمیل فرمائی، آپ کے فارسی کے اساتذہ میں خلیفہ عاقل صاحب، مولانا ظہیر صاحب اور مولانا سید حسن صاحب تھے، مولانا سالم صاحب کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے میزان الصرف کا سبق پڑھنے کا بھی شرف حاصل ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت تھانویؒ کے آخری شاگرد تھے، آپ نے دارالعلوم دیوبند میں اس دور کے چوٹی کے اساتذہ سے شرف تلمذ حاصل کیا جس میں حضرت مولانا اختر حسین میاںؒ صاحب ۔ حضرت مولانا عبد السمیع صاحبؒ ۔ حضرت مولانا عبد الاحد صاحبؒ ۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحبؒ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ ، علامہ ابراہیم بلیاوی صاحبؒ اور حضرت مولانا سید فخر الحسن صاحبؒ سر فہرست ہیں۔

دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند سے ہی آپ نے اپنی تدریسی خدمات کی شرعات کی ۔ نور الایضاح اور ترجمہ قرآن سے ابتدا کی۔ ترقی کرتے کرتے مشکوة شریف، ابوداؤد شریف اور بخاری شریف تک کی کتابیں پڑھانے کاشرف حاصل ہوا، حضرت مولانا محمد سالم صاحبؒ ایک کامیاب مدرس تھے، طلبہ میں ان کا درس بے حد مقبول تھا، تفہیم کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے اور ایک کامیاب مدرس کے لیے مطلوب ساری صفات آپ کی ذات میں مکمل طور پر پائی جاتی تھی۔اہل علم حضرات اورجن لوگوں نے مولانا کی شخصیت کوبہت قریب سے دیکھا ہے وہ بتاتے ہیں کہ مولانا سالم صاحب کو علوم نقلیہ کے ساتھ علوم عقلیہ میں بھی کافی درک حاصل تھا۔ حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ کے بعد مولانا سالمؒ واحد شخصیت تھے جو مولانا قاسم نانوتویؒ کے علوم و معارف کی تفہیم و تشریح کا غیر معمولی سلیقہ رکھتے تھے، حضرت نانوتویؒ کے وہ دقیق مضامین جو عام علماء کی فہم سے بھی بالا تر ہوتے تھے، مولانا سالم صاحب انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ ان کی تفہیم فرماتے تھے۔

مولانا کی صلاحیتوں اور انتظامی امور کی مہارت اس وقت دنیا کے سامنے آئی جب دارالعلوم کی تقسیم کے بعد دارالعلوم وقف کا قیام عمل میں آیا۔ 1982 میں دارالعلوم وقف کی بنیاد پڑی ایک سال بعد 1983 میں حضرت قاری محمد طیبؒ صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ دارالعلوم وقف دیوبند کیلئے یہ حالت بہت مشکل کی تھی ۔ ایک سال کی مدت میں ہی اس کے بانی اور روح رواں رخصت ہوگئے تھے ۔ ایسے حالات میں مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے منصب اہتمام پر فائز ہوکر دارالعلوم وقف دیوبند کو ہمہ جہت ترقی سے آراستہ کرنے کا عزم کیا ۔اپنی بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مختصر سی مدت میں دارالعلوم وقف دیوبند کو ایک عالمی ادارے کی حیثیت سے متعارف کرایا، تعمیری میدان میں ترقی ہوئی ۔ تدریسی اعتبار سے دارالعلوم وقف دیوبند کو ایک شناخت ملی اور اس طرح مختصر سی مدت میں اسے طبقۂ دیوبند میں نمبر دو کے مدرسہ کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔

مولانا محمد سالم قاسمی کا علم بہت پختہ ، مضبوط اور ٹھوس تھا ۔ ان کے خطابات بیحد علمی ہوتے تھے ۔ عوام کیلئے ان کا باتوں کا سمجھنا بہت مشکل تھا ۔ زبان نہایت سلیس ، صاف اور فصاحت و بلاغت سے لبریز ہوتی تھی۔ دینی جلسوں ،سمیناروں ،کانفرنسوں اور متعدد طرح کے پروگرامس میں آپ اہتمام کے ساتھ شرکت کرتے تھے ۔ علم دین اور مدارس کی محبت میں بہت دور دراز علاقوں تک آپ چلے جاتے تھے۔ آپ کے سینکڑوں علمی اور تحقیقی مقالات کے علاوہ متعدد کتابیں بھی اہل علم کے درمیان مشہور ہے ۔ (۱) مبادء التربیۃ الاسلامیہ (عربی) (۲) تاجدار ارض حرم کا پیغام (۳) مرد غازی (۴) ایک عظیم تاریخی خدمت۔ اس کے علاوہ آپ کے خطبات کو بھی خطبات خطیب الاسلام کے نام سے جمع کیا گیاہے جس کی کئی جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔

بنیادی طور پر آپ کا تعلق فکر دیوبند سے تھا ، مسلک دیوبند کے عظیم عالم دین تھے لیکن دنیا بھر میں آپ کی شناخت دیوبند کے بجائے بر صغیر کے ایک نامور عالم دین کی حیثیت کی رہی۔ آپ نے خود ہمیشہ اپنے کردار و عمل سے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ تمام ملت اسلامیہ کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ کسی ایک مسلک، خطہ اور گروہ سے تعلق نہیں ہے ۔ اتحاد و یکجہتی کیلئے ہمیشہ آپ نہ صرف کوشاں رہتے تھے بلکہ عملی طور پر یہ کام انجام دیتے تھے ۔آپ کی یہ خصوصیت اور اعتدل سب سے نمایاں اور ممتاز ہے اور اسی لئے سبھی طبقہ میں آپ کو یکساں مقبولیت حاصل تھی ۔چناں چہ آپ کے ایک خوشہ چیں محقق اور ندوی فاضل مولانا ڈاکٹر اکرم ندوی آپ کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : ” آپ کی ایک اہم خوبی تھی کشادہ دلی وبے تعصبی اور جزئیات و فروعی مسائل میں توسع، اس وصف کم یاب بلکہ نایاب میں آپ ایک شریف اور تہذیب یافتہ صاحب علم و فکر کی طرح سلف صالح کے اسوہ پر قائم تھے، آپ نے ایک بار آکسفورڈ میں دین اور مسلک کے درمیان فرق کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ عام طور سے لوگ مسلک کو دین کا درجہ دیتے ہیں اور دین ومسلک میں کوئی فرق نہیں کرتے “۔

 مولانا کی زندگی میں جو چیزیں نمایاں طور پر نظر آتی تھی اس میں عفو در گذر اور تحمل و برداشت بھی شامل ہے، حضرت مولانا سالم قاسمی صاحب انتقامی جذبات سے ما وراء تھے، دارالعلوم دیوبند کے قضیۂ نامرضیہ کے دوران مخالفین نے آپ کے تعلق سے کیا کچھ طوفان کھڑا نہیں کیا۔ متعدد طرح کے الزامات لگائے گئے لیکن آپ نے کسی کے خلاف منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس اختلاف کے خاتمہ کیلئے بھی آپ نے ہی پہل کی اور اب دیوبند کے دونوں مشہور خانوادہ کے درمیان اتحاد دیکھا جارہا ہے ۔ مدنی اور قاسمی خانوادہ اپنے پرانے اختلافات کو فراموش کرکے باہم شیر و شکر ہوچکے ہیں ۔

برصغیر کے علماء اور مدارس میں عصری تعلیم ایک طویل عرصے سے موضوع بحث ہے ۔ ایک طبقہ عصری تعلیم کے خلاف ہے دوسرا اس کی افادیت کا قائل ہے۔ مولانا سالم قاسمی بھی عصری تعلیم اور جدید علوم کی افادیت کے قائل تھے ۔ مدارس سے فراغت کے بعد یونیوسٹیز کا رخ کرنے والے فضلاء دارالعلوم دیوبند کی وہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے ، سراہتے تھے اور انہیں اپنے مشن میں کامیابی کی دعا سے نوازتے تھے وہ علم کی دینی اور دنیوی تقسیم کے بجائے علم نافع کے قائل تھے جس کا اطلاق تمام ضرور ی اور مفید علم پر ہوتاہے خواہ اس کا تعلق مذہبی علوم سے ہو یا عصری اور جدید علوم سے ۔

مولانا وقت کے نہایت پابند تھے ۔ ہمیشہ گھنٹہ کا وقت ہوتے ہی درس گاہ پہونچ جاتے تھے ۔ دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ مولانا محمد اسلام صاحب وقت کی پابندی کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں ” حضرت مولانا (محمد سالم) دارالعلوم کے وہ استاذ ہیں جو تدریس کے ساتھ وقت کے اتنے پابند کہ بلا شبہ طلبہ درس گاہ میں ان کی آمد پر اپنی گھڑیوں کے ٹائم سیٹ کرتے، طلبہ دیکھا کرتے تھے کہ وہ متعینہ درس گاہ (دار التفسیر) میں ایک قدم اندر رکھتے، اسی وقت گھنٹہ بجتا تھا، وقت کے منٹوں اور سکنڈوں کے لحاظ سے اتنے پابند دارالعلوم کے اساتذہ و کارکنان میں سے کوئی نہ تھا، یہ بھی ان کی خوبی تھی کہ تدریس کے لیے وہ اپنے گھر سے نکلتے اور براہ راست درس گاہ پہونچتے، اختتامی گھنٹہ بجتا اور وہ واپس صدر گیٹ کے راستے اپنے گھر کو روانہ ہوتے، نہ کسی سے ملاقات نہ کسی دفتر میں جانا “

مولانا محمد سالم قاسمیؒ کی ایک عظیم خوبی خورد نوازی تھی۔ آپ نے ہمیشہ اپنے سے چھوٹوں پر شفقت اور محبت کا معاملہ پیش فرمایا ۔ ان کی رہنمائی کی ۔جیسے اور جس طرح مدد طلب کی گئی آپ نے اپنا تعاون دیا ۔ ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتاہے کہ اس مقام پر پہونچ جانے کے بعد کوئی شخصیت ایک طالب علم اور معمولی انسان کے ساتھ بھی وہ حسن سلوک برتتی ہے جو سینئر اور وقت کے مشہور شخصیات کے ساتھ ان کا انداز ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے 2009 میں دارالعلوم دیوبند جانے کے بعد میری سب سے پہلی حاضری حضرت مولانا کی ہی مجلس میں ہوئی اور موقع بہ موقع یہ سعادت میرے حصے میں آتی رہی ۔ دارالعلوم دیوبند کا طالب علم ہونے کی وجہ سے حضرت مولانا سے درس بخاری پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوسکا تاہم ہر ممکن ہم نے استفادہ کرنے کی کوشش کی ۔بخاری شریف کے آخری درس اور مسلسلات کے سبق میں مکمل اہتمام کے ساتھ ہم نے شرکت کی ۔

دارلعلوم دیوبند سے تعلیمی سلسلہ منقطع ہوجانے کے بعد دہلی میں قیام کے دوران جب بھی دیوبند جانے کا موقع ملا میں نے ترجیحی طور پر حضرت سے ملاقات کرنے اور دعائیں لنے کی کوشش کی ۔ میری آخری ملاقات مئی 2016 میں ہوئی ۔اس سفر میں حضرت مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب بانی و مہتمم جامعة القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہار کے ساتھ تھا میں۔ ملاقات کے دوران راقم الحروف نے حضرت مولانا رحمۃ اللہ کے سامنے ملت ٹائمز کا تذکرہ کرتے ہوئے مختصر تعارف اور اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا تو حضرت نے بے پناہ خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے بروقت اور ضروری کام بتایا۔ استقلال و تسلسل کے ساتھ اس کام کو کرنے کی نصیحت کی اور سر پر ہاتھ رکھ مخصوص انداز میں اپنی مخصوص دعاؤں سے نوازا ۔ یہ آخری ملاقات ثابت ہوئی اور دوبارہ پھر اس کی سعادت نہیں مل سکی۔

حضرت مولانا محمد سالم قاسمی کی خصوصیات میں یہ وصف بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے کہ آپ اپنے شاگردوں ، عزیزوں ، اہل علم ، دانشوران، ملی قائدین اور امت کے بہی خواہوں کے ساتھ گہرے روابط رکھتے تھے ۔ ایسے لوگوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انہیں بہت عزیز رکھتے تھے ۔ ایسی نمایاں شخصیات میں ایک اہم نام معروف عالم دین حضرت مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب بانی ومہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہار کا بھی سر فہرست ہے جن سے آپ کا تعلق بہت گہرا ، قریبی اور دل سے جڑا ہوا تھا ۔ مولانا عثمانی آپ کے اولین خلیفہ میں شامل ہیں۔ ہم نے آپ دونوں کے درمیان قریبی تعلقات کا کئی مرتبہ مشاہدہ کیا ہے۔ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب مولانا مفتی محفو ظ الرحمن عثمانی صاحب سے بہت پرتپاک انداز میں ملتے۔ ان کے مشن ،عزم ، سفر اور جدوجہد میں کی کامیابی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے اور ہر قدم پر ساتھ دیتے تھے ۔

حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی نئی نسل کے علماء ،دانشواران اور اسکالرس کیلئے مشعل راہ ہے ۔ ایسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں جنہیں تمام طبقات اور حلقوں میں مقبولیت ملتی ہے ۔جن پر کسی جانب سے کوئی انگلی نہیں اٹھتی ہے ۔ متعدد تنظیموں کی نمائندگی کرنے کے بعد کسی جانب سے جن کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی جاتی ہے ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ ہند و پاک ، بنگلہ دیش اور نیپال کے درمیان علماء کے صف میں حضرت مولانا سب سے زیادہ مقبول و مشہور تھے ۔ حضرت مولانا میرے بہترین آئیڈیل اور قابل صداحترام استاذ ، مربی اور عالم دین تھے۔ ان کی خدمات کا دائرہ 80 سالوں سے زائد کے عرصے پر محیط ہے ، دارالعلوم دیوبند ۔دارالعلوم وقف دیوبند ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ۔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ آل انڈیامسلم مجلس مشاورت جیسے کئی ادارے اور مدرسے آپ کی خدمات کے گواہ ہیں ۔ ان اداروں کے فروع اور ان کی تعمیر و ترقی میں آپ کا نمایاں کردار رہا ہے ۔

14 اپریل 2018 کو 92 سال کی عمر میں آپ نے آخری سانس لی ۔

مت سہل ہمیں جانوں پھرتا ہے فلک برسوں 

تب خاک کے پردے سے ایسے انسان نکلتے ہیں 

(مضمون نگار نوجوان صحافی اور معروف نیوز پورٹل ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )