او آئی سی کے اجلاس میں ہندستان کی شرکت ۔ کشمیر کے خلاف مذمتی قرارداد

خبر در خبر (597)
شمس تبریز قاسمی
Organisation of Islamic Cooperationیعنی او آئی سی ۔عربی میں اس کا نام منظمة التعاون الاسلامی ہے ۔ اردو میں اسلامی تعاون تنظیم کہاجاتاہے ۔ یہ مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم ہے ۔ عالمی سطح پر اقوا م متحدہ کے بعد یہ دوسری سب سے بڑی آر گنائزیشن ہے ۔ 57 ممالک اس کے ممبر ہیں ۔ 1969 میں مراکش کی راجدھانی رباط میں اس کا قیام عمل میں آیاتھا ۔ فلسطین کی آزادی اور مسجد اقصی کے تحفظ کیلئے شاہ فیصل اور دیگر مسلم رہنماﺅں کی کوشش پر مسلم ممالک کے سربراہاہان نے اس یونین کی تشکیل دی ۔ تاسیسی اجلاس ستمبر 1969 میں مراکش کی راجدھآنی رباط میں منعقد ہواتھا ۔ سہ روزہ اجلاس میں ہندوستان کے ایک وفد نے بھی شرکت کی جس میں اس وقت کے وزیر زراعت فخر الدین علی احمد اور نائب وزیر قانون یونس سلیم شریک تھے ۔ پاکستان نے ہندوستان کی شرکت پر سخت احتجاج کیا۔جنرل یحیی خان کی مخالفت کے سامنے سعودی عرب اور دیگر ممالک نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اجلاس کے تیسرے روز28 ستمبر کو ہندوستان کی شرکت نہیں ہونے دی اوراس طرح ہندوستان تاسیسی اجلاس میں شرکت کے باوجود اس کا ممبرنہیں بن سکا ۔
پچاس سال بعد 2019 میں یہ منظر نامہ بالکل بدل گیا ۔ یکم دومارچ2019 کو متحدہ عرب امارت کے شہرابوظہبی میں اس کا 46 واں وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہوا ۔ میزبان ہونے کی حیثیت نے یو اے ای نے ہندوستان کومہمان اعزازی کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی ۔ اسی درمیان پلواما واقعہ سامنے آیاجس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہونچ گئی ۔ بانی ممبر ہونے کی حیثیت سے پاکستان نے سخت احتجاج کیا ۔ہندوستان کی دعوت مسترد کرنے کی اپیل کی لیکن یو اے نے معذرت کرلی ۔پاکستان نے بائیکاٹ کیا لیکن ہندوستان پر اس کچھ اثر نہیں پڑا ۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے پہلے دن خطاب کیا ۔ مسلم ممالک کے ساتھ اپنے گہرے روابط کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے مذہب اسلامی کی خوبیوں کو بیان کیا اور قرآن کریم کی دو آیت کا اپنی تقریر میں حوالہ دیا تاہم انہوں نے پاکستان کا کہیں بھی نام نہیں لیا ۔

1969 میں پاکستان کے احتجاج اور دباﺅ کی وجہ سے ہندوستانی وفد کو واپس لوٹنا پڑا ۔2019 میں پاکستان کا احتجاج اور بائیکاٹ بے اثر ثابت ہوا ۔ہندوستان نے اسی اپنی سفارتی کامیابی بتایا کہاگیا ۔پاکستان کے بائیکاٹ کے باوجود ہم نے شرکت کی ۔ ہماری دعوت مسترد نہیں ہوئی ۔ مسلم ممالک کے ساتھ خارجہ پالیسی بہتر ہوئی ہے ۔پاکستان نے اپنی عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ سشما سوراج نے کہیں پاکستان کا نام نہیں لیا ہے یہ ہمارے بائیکاٹ کا اثر ہے ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ جملہ محض مطمئن کرنے کی غرض سے تھا ۔
کانفرنس کے دوسرے دن جب او آئی سی نے اپنی قرار داد پیش کی تو معاملہ الٹا ہوگیا ۔کشمیر کے موجودہ حالات کو ریاستی دہشت گرد بتایا ۔ ہندوستانی حکومت پر وہاں مظالم ڈھانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ا لزام لگایا ۔اقوام متحدہ کا ثالثی میں حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خود بھی ثالثی کی پیشکش کی ۔دوسرے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی پر پاکستان اوروزیر اعظم خان کے اقدام کی او آئی سی نے ستائش کی ۔ہندوستان نے او آئی سی کی قرارمسترد کردیاہے ۔وزرات خارجہ نے کہاہے کہ جموں ہندوستان کا حصہ ہے اور یہ ہمارا اندونی معاملہ ہے ۔کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے اب بی جے پی حملہ بھی شروع کردیاہے ۔
ہندوستان میں تقریبا 25 کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد کے حوالے سے دوسرا ملک ہے ۔ایسے میں یہ بہت بڑی خبر تھی ۔ کشمیر کے خلاف مذمتی قرار داد پاس ہونے کے بعد اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے لیکن ہندوپاک کے درمیان جاری کشیدگی اور ابھی نند ن کی واپسی میں یہ خبر دب کر رہ گئی ہے ۔ ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر خبر در خبر کا سلسلہ وار دوپروگرا م ہم نے اسی موضوع پر پیش کیا ہے ۔ ایک پروگرام میں ہم نے اس مسئلے پر سینئر صحافی اور تجزیہ نگار جناب اے یو آصف صاحب کے ساتھ بات چیت کی ہے ۔آپ اس پورے معاملہ پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔1969 کے تاسیسی اجلاس کی پوری تفصیلات سے اس وقت کے نائب وزیر قانون یونس سلیم صاحب نے براہ راست آپ کو بتایاتھا ۔اس کے علاوہ ہم نے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا جلاالدین عمری کا موقف بھی وہاں پیش کیا ہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے اسے رکنیت ملنی چاہیئے ۔
اسی موضوع پر ہم نے خبر در خبر کا ایک اور پروگرام پیش کیا ہے جس میں معروف اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع صاحب صدر مولانا آزاد نیشنل یونیورسیٹی جودھپور سے ہم نے بات چیت کی ہے اور ایک تشفی بخش تجزیہ سامنے آیاہے ۔
ہندوستان تیسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان ہیں ۔ممبر شپ کیلئے جو شرائط مطلوب ہیں اس میں مسلم لیڈر شپ کے بجائے مسلمانوں کی گھنی آبادی ہونے کی بات کی گئی ہے ۔مطلب جن ممالک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد آبادہے ۔ایسے میں ہندوستان بھی رکن بننے کا حقد ار ہے ۔او آئی سی نے ہندوستان کو مدعو کرکے اچھی پہل بھی کی تھی لیکن اپنی قرارد ادمیں جس طرح سے مسئلہ کشمیر کے معاملے میں ہندوستان کے خلاف یکطرفہ رخ اختیار کیاگیاہے اسے سراہا نہیں جاسکتاہے۔50 سالوں میں او آئی سی نے نششتن ،گفتن اور برخاستن سے آگے بڑھ کر کچھ کام نہیں کیاہے ۔ مسلم ریاست سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات وحادثات اور مظالم پر او آئی سی عموما مذمت نہیں کرتی ہے ۔چین کے سنکیاک میں مسلمانوں پر سب سے زیادہ قہر برپا کیا جارہاہے ۔ مذہبی سرگرمیوں پر شدید پابندی ہے ۔ اور بھی ایسے کئی مقامات ہیں جن کے بارے میں او آئی سی نے کبھی کسی طرح کی قرارداد پاس نہیں کی ہے ۔ ہندوستان کے بارے میں بھی اوآئی سی نے پہلے کبھی اس طرح کی قرار داد پاس نہیں کی تھی ۔
گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ قرار داد پاکستان کی منشاءکے مطابق اوآئی سی نے پیش کی ہے ۔ممبرممالک نے ہندوستان کے بجائے پاکستان کو ترجیح دی ہے ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی نے اپنی پارلیمنٹ میں کہاتھاکہ ہمارے وفد کی کوشش جاری ہے کہ ہندوستان کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کی جائے اور وہی ہوا ۔او آئی سی کی قرارد سامنے آنے کے بعد عرب اور مسلم ریاستوں کے ساتھ مود ی کی خارجہ پالیسی کی حقیقت بھی بے نقاب ہوگئی ہے کہ ان کے یہاں پاکستان کو ترجیح حاصل ہے ہندوستان کو نہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری حکومت خوش فہمیوں میں جینے کی عادی ہے اس لئے وہ وزیر اعظم نریندر مودی کو سعودی عرب کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے نواز ے جانے او راو آئی سی کے اجلاس میں مہمان اعزازی کے طور پر مدعو کئے جانے کو ہی اپنی سب سے بڑی سفارتی کامیابی قرار دے دیتی ہے ۔
اسلامی تعاون تنظیم کی پور ی حقیقت سمجھنے ،اسے جاننے او راس کی پالیسی باخبر ہونے کیلئے خبر در خبر کا دونوں پروگرام ضرور دیکھیں اوراپنے خیالات سے ہمیں بھی آگاہ کریں ۔
stqasmi@gmail.com