معاذ مدثر قاسمی
ایک سال قبل ملک کے سیاسی منظر نامے پر چھانے والا رافیل کا مدعا ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ۔ اس مدعے کو کانگریس اور اس کے صدر راہن گاندھی گزشتہ ایک سال سے بڑی کا میابی کے ساتھ عوامی پلیٹ فارم پر پیش کرتے آرہے ہیں جو اب لوگوں کی توجہات کا مرکز بن چکا ہے۔
شروع میں راہل گاندھی جب بھی اس مسئلہ کو اٹھا تو حکمراں پارٹی کے لوگوں نے تقریر کا مزاق اڑاتے ہوے اس کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی مگر پے درپے اور مسلسل رافیل کی خریداری پر حکومت کی نیت پر سوالات قائم کرتے رہنے کی وجہ سے حکمراں پارٹی کے بس سے باہر ہو گیا کہ اس کو آسانی سے نظر انداز کردے ۔ راہل گاندھی نے پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک اس کو پیش کرکے مودی کو گھیرنے کی ایسی کامیاب کوشش کی یہ حکومت وقت کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جوہمیشہ ہر نقصان اور عیب کا ٹھیکرا کانگریس پر پھوڑنے سے نہیں چکتی ہے اس سلسلے میں بیک فٹ پر کھیلتی نظر آ رہی ہے۔ہر مدعے پر کانگریس کو مورد الزام ٹہرانے والی یہ پارٹی اب رافیل کے سلسے میں کانگریس کے ہر سوال کا جواب دیتے وقت دفاعی پوزیشن میں کھڑی نظر آرہی ہے۔
یاد کیجیے کہ کیا اسباب تھے جو کانگریس نے اپنی دس سالہ حکومت گنوائی ۔ چند اسباب میں سے ایک ٹوجی اور کوئلہ گھوٹالے کا الزام تھا جس کو موجودہ حکومت نے پورے شدومد کے ساتھ اس وقت کی حکومت کے خلاف استعمال کر کے عوامی رائے دہی کو ہموار کیا ۔ اور بی جے پی نے خود کو ایک ایماندار اور عوامی اور ملکی مفاد میں کام کرنے والی پارٹی ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی ، نتیجۃ کانگریس کو دوہزار چودہ کے عام انتخابات میں بری طرح شکست کاسامنا کرنا پڑا ۔
مگر اب جبکہ 2019 گا الیکشن بالکل سرپر آ پہنچا ہے، انتخابات ہونے میں صرف چند ایام باقی رہ گئے ہیں اور موجودہ حکومت جو ہر محاذ پر ناکام ثابت ہو رہی رافیل کے مسئلہ میں بری طرح پھنستی ہوئی نظر آ رہی ہے، اس میں ملک کے وزیراعظم جو خود کو اور خود کی پارٹی کو ایماندار اور عوامی پارٹی ثابت کرنے سے کبھی نہیں چوکتے اب خود ان پر شک کا دائرہ تنگ ہوتا نظر آرہاہے یعنی جوخود کو ملک کا چوکیدار کہتے نہیں تھکتا آج ایک بہت بڑے گپلے میں پھنستا نظرآرہاہے ۔
گزشتہ چھ مارچ کو عدالت عظمیٰ میں حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل وینو گوپال نے یہ کہہ کر سب کو حیرت میں ڈالدیا کہ جس دستاویز کا حوالہ سینئروکیل پرشانت بھوشن دے رہے ہیں وہ وزارت دفاع کی آفس سے چوری ہوگئ ہے ۔ اب تو عوام بھی سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ حکومت کی طرف سےاس طرح کی بے سر و پاکی بات کہنا شایدوزیراعظم مودی کو بچانے کی ایک چال ہے یعنی اس دستاویز کو غائب ہی کر دیا جائے کہ نہ رہے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اس سے تو شک یقین میں بدل رہاہے کہ وزیر اعظم مودی اس بڑے گھوٹالے میں ملوث ہیں بقول کانگریس صدر رہل گاندھی کے ہمارے وزیراعظم نے انل امبانی کو فائدہ پہچانے کےلیے ملک کروڑ وںکا چونا لگادیا۔
حکومت کی طرف سے آٹارنی جنرل نے دلیل دینے کے بجائے دی ہندو اخبار کے ایڈٰٹر این رام جنہوں نے رافیل کے پورے معاملے کو عام کردیا اور ثابت کیا کہ پی ایم او اس ڈیلینگ میں مولث ہے پرآفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت رازداری کا مقدمہ چلانے کی ایک طرح سے دھمکی بھی دی ۔ عجیب بات ہے کہ دلائل سامنے رکھنے کے بجائے دستاویز کے چوری ہونے اور صحافی پر کاروائی کی بات کی جارہی ہے۔ حقیقت کو سامنے لانا ، حقیقت کی جانچ پڑتال کرنا ہی تو تحقیقی صحافت کا ایک حصہ ہے ۔اس طرح کی دھمکی دینا یقینی طور پر آزاد صحافت پر قدغن لگانے کے مترادف ہے جو ایک جمہوی ملک میں کسی بھی طرح روا نہیں ہے ۔
پلواما میں آرمیوں پر دہشت گردانہ حملے پر جس طرح سے مذمت ہونی چاہیے تھی سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر تمام نے مذمت کی۔ اس کے بعد فوجیوں نے 26 فروری کو ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر دہشت گردوں پر کارروائی ۔ فوجیوں اس کاروائی پر انہیں کو سراہنا چاہیے تھا مگر موجودہ حکومت نے گھٹیا سیاست کا ثبوت دیتے ہوئے فوجی کارروائیوں کو اپنی کارروائی ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئی ، ہمارے وزیراعظم تو اسٹیجوں پر اس اس کا سہرا اپنے سر پر باندھنے کی کوشش کرنے لگے۔ بڑے نرالے انداز میں کہا کہ آپ بے خوف رہے؛ آپ کا ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے بی جے پی کارندوں نے فوجی لباس پہن کر ووٹ مانگے چلے گئے گویا کہ خود ہی یہ لوگ خود حملہ کر کے آئے ۔ مگر اب جب کہ قومی سلامتی سے تعلق رکھنے والااتنا اہم کاغذ کی حفاظت ہماری وزارت دفاع نہیں کر سکتی تو ملک کو کیسے حفاظت کر سکتے ہے ۔ مودی جی سے یہی سوال ہے کہ اب کیسے مان لیں کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔ اب تو لوگوں نے یہ بھی کھل کر سوال کرنے لگے ہیں کہ حکومت فوج کا کریڈٹ لیتے ہوے دہشت گردوں کے مارے جانے اور انکی تعداد جوحکومت کے کارندے گنارہے ہیں اس کا ثبوت کیا ہے ۔آیا اسکا حقیت سے کوئی تعلق ہے یا انکی تعداد بتلاکر اپناووٹ بینک مضبوظ کرنا چاہتی ہے ۔
اس طرح کے اہم کاغذات کا گم ہو جانا یقینا تعجب خیز ہے۔ جس حکومت سے ایک کاغذ کی حفاظت کرنا مشکل ہو وہ اپنے عوام کی حفاظت کیسے کر سکتی ہے ؟ سوال یہ ہیکہ چوری ہونے کے بعد جب پتا چلا تو اس کو اسی وقت کاروائی کرتے ہوے اس پر ایف آر آئی درج کیوں نہیں کرائی ؟ یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی نے مطالبہ بھی کردیا کہ اس طرح ملک کے حساس مسئلہ پر حکومت کی لاپرواہی پر مسٹر مودی پر ایف آر آئی درج ہونی چاہیے ۔ راہل گاندھی کے اس مطالبے پر تو حکومت کی طرف سے یکے بعد دیگرے پریس کانفرنس کر کےمرکزی وزیر روی شنکر پرساد اور مسٹر ارون جیٹلی نے جواب دینے کے بجائے راہل گاندھی کی ذات پر بے تکا تبصرہ کیا کہ وہ شاید پاکستان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔
حق بات تو یہ ہے اس حکومت میں ایک کاغذ تو کیا عوام کی قیمتی جانیں عورتوں کی عصمت بھی محفوظ نہیں ہے۔ کسانوں کے روزگاری کا مسئلہ سر چڑھ کر بول رہا ہے نوجوانوں کی بیروزگار ی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ دہشت گردی کا بول بالا ہے۔ عدم تحمل کی روزانہ ایک نئی مثال قائم ہورہی ہے ، پہلے دوسرے عدم تحمل کے ہتھے چڑھتے تھے ، اب یہ اتنا زیادہ ہوگیا کہ خود اب بی جے پی کے منتخب نمائندے اپنے دوسرے نمائندے کو سرعام جوتے سے مارتے نظر آرہے ہیں۔ جو پارٹی ہمیشہ اتحاد اور دوسروں کی بات کرتی تھی ظاہر ہوگیا اندر سے خلفشار کا شکار ہے اور نام و نمود کے لئے مرنے کٹنے پر بھی آمادہ ہوسکتی ہے ۔
ضروری ہے کہ اب ایک نئی حکومت ہو جس میں عوام کیلئے کوئی جگہ ہو عوام کی بات ہو لوگوں کے مسائل کی بات ہو دہشت گردی سے صحیح معنوں میں لڑنے کی بات ہو۔ ملک کی سب سے پرانی اور دوسری سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے کانگریس کو اپنے بڑا پن کا ثبوت دیتے ہوے اتحاد کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ ملک کے مفاد کی خاطر، جمہوریت کو باقی رکھنے کے لیے مضبوط اتحاد کے ساتھ اس حکومت کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے ۔ اب یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ ایس پی اور بی ایس پی کانگریس کو یوپی میں پندرہ سیٹیں دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ عوامی مفاد کی خاطر کسی حتمی نتیجہ پر پہنچ کر اتحاد ہی قائم کرکے الیکشن لڑاجائے ۔