رافیل سودا: مودی حکومت کی نجات ناممکن

عزیز اللہ بیگ

مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں ملک کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کے ذریعے رافائل سودے کے بارے میں کل جو استدلال پیش کیا ہے وہ مضحکہ خیز تو ہے ہی، انتہائی عبرتناک بھی ہے۔

 کل سپریم کورٹ میں رافائل کے معاملے پر سماعت کے دوران جو کچھ ہوا اس پرپہلے ایک اجمالی نظر ڈال لیتے ہیں۔قارئین کو یاد ہوگا کہ سابق مرکزی وزرا ارون شوری ، یشونت سنہا اور سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل پرشانت بھوشن نے عدالتِ عالیہ میں ایک عرضی داخل کی ہے جس میں عدالتِ عالیہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنے 14 دسمبر کے فیصلے پر نظر ثانی کرے کیونکہ مذکورہ فیصلہ مرکزی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ غلط معلومات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔(مرکزی حکومت نے اس وقت رافائل سودے سے متعلق تمام معلومات پیش کرنے سے یہ کہ کر معذرت کر لی تھی کہ اس میں ایسی حساس معلومات ہیں جن کا ظاہر کرنا قومی مفاد کے خلاف ہوگااور سپریم کورٹ کے اصرار پر چند کاغذات مہر بند لفافے میں عدالت کے حوالے کئے تھے)۔کل جب پرشانت بھوشن نے چند اہم دستاویزات عدالت کے حوالے کرنے کی کوشش کی تو اٹارنی جنرل فورا آٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ عدالت ان دستاویزات کو قبول نہیں کرسکتی اور نہ سماعت کا حصہ بناسکتی ہے کیونکہ یہ دستاویزات محکمہ دفاع سے چرائے گئے ہیں. پرشانت بھوشن نے اس کے جواب میں کہا کہ انہیں یہ دستاویزات “دی ہندو” اور دوسرے اخبارات سے حاصل ہوئے ہیں. سپریم کورٹ ہی کی نظیر پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے 2 جی کے مقدمے میں انہوں نے عین اسی طرح عوامی ذرائع سے یا گھر کے بھیدیوں سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر دلائل پیش کئے تھے اور عدالت نے انہیں معلومات کی بنیاد پر فیصلہ سنایا تھا. جب اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال بار بار قومی سلامتی کی دہائی دینے لگے تو بنچ میں شامل جسٹس کے یم جوزف نے ان سے چند چبھتے ہوئے سوال پوچھے اور کہا کہ مان لیجئے اس معاملے میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوا ہے تو کیا تب بھی آپ قومی سلامتی کو بیچ میں لائیں گے اور کیا ایسا کرنا صحیح ہوگا؟

کل سپریم کورٹ میں حکومت نے رافائل معاملے کو دبانے کے لئے دستاویزات کی چوری کی جو تازہ دلیل پیش کی ہے وہ اتنی مضحکہ خیز ہے کہ حکومت کی بوکھلاہٹ پر ہنسی آتی ہے. قارئین کے علم میں ہے کہ “دی ہندو” اخبار نے رافائل کے معاملے پر اپنا پہلا مضمون آٹھ فروری کو شائع کیا تھا۔اس کے فورا بعد وزیر دفاع شریمتی نرملا سیتا رامن نے لوک سبھا میں وضاحتی بیان دیا تھا اور کہا تھا کہ مذکورہ اخبار نے اپنے مضمون میں پوری معلومات قارئین کو نہیں دی ہیں مثلا سابق وزیر دفاع منوہر پاریکر کی نوٹنگ کا دانستہ طور پر ذکر نہیں کیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ سکریٹری برائے دفاع کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خود وزیراعظم اس معاملے کی نگرانی کررہے ہیں۔تب کیا حکومت کو نہیں معلوم تھا کہ اخبار نے جن دستاویزات کی بنیاد پر مضمون لکھا ہے وہ چوری کئے گئے ہیں؟۔اس وقت وزیر دفاع نے پارلیمان کویہ اہم خبر کیوں نہیں دی کہ رافیل طیاروں کی خریداری سے متعلق وہ انتہائی حساس دستاویزات جو حکومت عدالت میں تک پیش نہیں کرنا چاہتی تھی چرالئے گئے ہیں. اس کے بعد “دی ہندو” نے اور دوسرے اخبارات نے اپنے ذرائع بروئے کار لائے اور یکے بعد دیگرے رافائل سے متعلق کئی انکشافات کئے کہ کس طرح ماہرین کی کمیٹی کے اعتراضات کو یکسر نظر انداز کیا گیا اور کس طرح طیاروں کی قیمت میں اضافہ ہوگیا. اس موضوع پر “دی ہندو” کے مضامین کی آخری قسط کل شائع ہوئی ہے جس میں یہ تازہ انکشاف ہوا ہے کہ دستاویز کمپنی نے حکومت ہند کوبنک گارنٹی کے تقاضے سے بھی دستبردار ہونے پر کس طرح مجبور کردیا کیونکہ ہمارے وزیراعظم اچانک بیچ میں کود پڑے تھے اور امبانی کی بازآبادکاری کے چکر میں فرانسیسی حکومت اور طیارہ ساز کمپنی دساو کو پے درپے کئی رعایتیں دیتے چلے گئے۔

حکومت نے عدالت میں یہ کہہ کر کہ اخبارات نے رافیل کی خریداری کے تعلق سے جو مضامین شائع کئے ہیں اور جو انکشافات کئے ہیں وہ وزارت دفاع سے چرائے گئے دستاویزات کی بنیاد پر لکھے گئے ہیں۔ بالواسطہ طور پر یہ اعتراف کرلیا ہے کہ یہ سارے مضامین ٹھوس حقائق کی بنیاد پر لکھے گئے ہیں۔سپریم کورٹ میں اب عرضی گزاروں کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ انہیں معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں۔اس طرح کے دلائل سے در اصل حکومت نے عرضی گزاروں کے مقدمے کو مضبوط کردیاہے۔اگر حکومت سمجھتی ہے جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے کہ رافیل معاملے میں کوئی دھاندھلی نہیںہوئی ہے اور حکومت کا دامن پاک ہے تو اسے انہیں دستاویزات کی بنیاد پر مقدمہ لڑنا چاہئے تھا اور یہ ثابت کرنا چاہئے تھا کہ اس نے ہندوستانی فضائیہ کو جلد سے جلد لڑاکا طیارے فراہم کرنے کی غرض سے حکومت فرانس کے ساتھ راست بات چیت کی اور کم سے کم مدت میں طیارے حاصل کرنے کا انتظام کیا لیکن حکومت کا شروع ہی سے اس پورے معاملے میں یہ رویہ رہا ہے کہ اس سودے کے بارے میں جو اعتراضات کئے جارہے ہیں یا جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان کا مقصد قومی مفاد کو نقصان پہونچانا ہے اور مسلح فوج کے اعتماد کوٹھیس پہنچانا ہے یا دشمن ملک کی ہمت بڑھا ¿نی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی کے صدر امت شاہ، وزیر دفاع نرملا سیتارمن، وزیر خزانہ ارون جیٹلی اور دیگر لیڈروں کا ایک ہی دفاع ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کے ذریعے یا اخبارات کے ذریعے جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ بے بنیاد ہیںاور محض حکومت کو بدنام کرنے کی غرض سے لگائے جارہے ہیں۔حکومت کا تازہ ترین حربہ اس سلسلے میں آفیشیل سکریٹ ایکٹ معلوم ہوتا ہے۔انگریزوں کا لایا گیا یہ فرسودہ قانون در اصل ملک کی آزادی کی جدو جہد میں شریک مجاہدین کے خلاف آسانی کے ساتھ مقدمے دائر کرکے انہیں جیل بھیجنے کی غرض سے نافذ کیا گیا تھااور وقتاً فوقتاً اسے باطل قرار دینے کے مطالبے ہوتے رہے ہیں۔اٹانی جنرل کے کے وینو گوپال نے کل عدالتِ عالیہ کو بتایا کہ چوں کہ مذکورہ دستاویزات پر ”صیغہءراز“ کا ٹھپہ لگا ہوا ہے اس لئے حکومت ان ملازمین کے خلاف جنھوں نے دستاویزات چوری کئے ہیں اس ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کے بارے میں غور کر رہی ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت کو ایک مہینہ پہلے ہی معلوم ہوگیا تھاکہ انتہائی حساس کاغذات وزارتِ دفاع سے چرا لئے گئے ہیں تو حکومت نے پولیس کو اس چوری کی اطلاع کیوں نہیں دی۔یہی سوال عدالتِ عالیہ کے ججوں نے بھی اٹارنی جنرل سے پوچھا۔ وہ اس کا فوری طور پر جواب بھی نہ دے سکے بلکہ حکومت سے اس سلسلے میںحکومت سے معلومات حاصل کرنے کے لئے مہلت طلب کی اور کھانے کے وقفے کے بعد جب عدالت نے دوبارہ کارروائی شروع کی تو انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں داخلی طور پر تحقیقات ہو رہی ہیں اور عنقریب مناسب کارروائی کی جائے گی۔انہو ں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ حکومت ان اخبارات اور رسائل کے خلاف بھی اسی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کے بارے میں غور کررہی ہے۔ادھرمو ¿قر اخبار” دی ہندو“ کے چیرمین مسٹر این رام نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی بھی حال میں ان ذرائع کے نام افشا نہیں کریں گے جن سے یہ ساری معلومات حاصل کی گئیں اور حکومت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کواور اخبارات کو دستور کے تحت تحفظ حاصل ہے اور حکومت یا عدالت کسی اخبار یا صحافی کو مجبور نہیں کرسکتی کہ وہ ان ذرائع کی نشاندہی کریں جن سے معلومات حاصل کی گئیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم یہ معلومات ان ذرائع کو ”صیغہءراز “ میں رکھنے کا عہد کرکے حاصل کرتے ہیں اور ہم کسی بھی حالت میں عہد شکنی نہیں کرسکتے۔

 رافیل معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ مقدمہ فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے اور حکومت کے نجات کے سارے راستے بند ہوتے جارہے ہیں۔قارئین کو یاد ہوگا کہ” دی ہندو“ اخبار ہی نے بو فورس طیاروں کی خریداری کے معاملے میں تحقیقاتی رپورٹیں شائع کی تھیںاور اس کے بعد راجیو گاندھی حکومت کا کیا حشر ہوا وہ بھی قارئین کے علم میں ہے۔تب بی جے پی کے لیڈروں نے انہیں رپورٹوں کی مدد سے راجیو گاندھی کی حکومت کو نشانہ بنایاتھااور آج وہی بی جے پی اسی اخبار کو قوم دشمن قرار دینے پر تلی ہوئی ہے محض اس لئے کہ مذکورہ اخبار نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی ہے اور آج بھی اسی طرح حقائق کی تلاش میں سرگرداں ہے جس طرح ہمیشہ سے رہا ہے۔اس ملک کے گودی میڈیا کو جن میں صنعتی گھرانو ں کے پروردہ اخبارات اور نیوز چینل شامل ہیں اخبار” دی ہندو “سے معتبر صحافت کے بنیادی اصول سیکھنا چاہئے۔

(مضمون نگار سابق آئی اے ایس آفیسر ہیں)

E-Mail: azeezullabaig@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں